جنات کے واقعات
علامہ منیر احمد یوسفی
صوفی علی محمد صاحب فرماتے ہیں کہ میرے بڑے بھائی صوفی عالم دین صاحب مرحوم کے سُسر کے چھوٹے بیٹے محمد سلیمان کی شادی کا پروگرام تھا۔ انہوں نے صوفی عالم دین صاحب مرحوم سے کہا کہ میں اپنے بیٹے کی شادی کے موقع پر محفل میلاد منعقد کرانا چاہتاہوں اور سفارش کی کہ آپ پیر طریقت ، رہبر شریعت ، قطب جلی، عالمِ یلمعی، فاضلِ لوذعی، نائبِ غوث الثقلین ، منظورِ نظر داتا گنج بخش، حاجی محمد یوسف علی نگینہ علی کو تقریر کے لیے بلائیں۔ حضرت قبلہ بابا جی سرکار نگینہ ساری عمر بے لوث تبلیغ دین فرماتے رہے۔ آپ کو محفل کے لیے دعوت دی گئی۔ آپ نے دعوت قبول فرمائی۔ حضرت قبلہ بابا جی سرکار نگینہ شادی کے موقع پر تشریف لائے۔ بعد از نمازِ عشاءآپ سرکار نے وعظ شریف فرمایا۔ لوگوں کے قلوب منور ہوئے۔لوگ دریوں اور چارپایوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ شرکائے محفل میں آگیا۔ لوگ پریشان ہوکر چارپایوں سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور وہ بھینسا چارپایوں سے پھلانگتا ہوا گھر میں داخل ہوگیا۔ لوگ گھبراتے ہوئے گھر کے اندر کی طرف بھاگے کہ کہیں بھینسا گھر کی چیزوں کو نقصان نہ پہنچا دے۔ جب گھر والے افراد گھر کے اندرگئے تو بھینسا کہیں بھی نظر نہ آیا۔ صوفی علی محمد صاحب فرماتے ہیں حضرت قبلہ بابا جی سرکار نگینہ مسکرانے لگے اور پوچھا بھینسا کدھر گیا؟ عرض کیا کہ حضرت صاحب بھینسا اندر تو نہیں ہے۔ لوگ ششدرہ تھے کہ بھینسا کہاں گیا؟ آپ سرکار نے فرمایا کہ وہ جن تھا۔ میں جہاں بھی وعظ و خطابت کے لیے جاتا ہوں یہ وہیں آجاتا ہے۔ جب وجد میں آجاتا ہے تو کوئی نہ کوئی حرکت بھی کرتا ہے۔ حاجی صوفی علی محمد صاحب فرماتے ہیں۔ جنات بھی آپ پر عاشق تھے۔ صوفی علی محمد صاحب نے واقعہ لکھنے کے بعد اپنے دستخط بھی کیے ہیں اور 22-1-90 تاریخ بھی رقم کی ہے۔
جنات کا وجود:
کتاب و سنت سے جنات کا وجود ثابت ہے۔ البتہ جہمیہ، معتزلہ، نیچری اور دہرئیے ان کا انکار کرتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت کرتے ہیں ‘ وہ فرماتے ہیں: ”اللہ تبارک وتعالیٰ جل مجدہ الکریم نے جنات کو حضرت آدم ؑ سے دو ہزار سال پہلے پیدا فرمایا۔ اور ایک روایت کے مطابق دو ہزار سال زمین میں آباد رہے“۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں:
”جن زمین میں اور فرشتے آسمان میں رہتے ہیں اور وہ ان میں آباد ہیں“۔
حضرت اسحاق بن بشرؒ نے فرمایا مجھ سے حضرت جویبرؒ اور حضرت عثمانؒ نے اپنی اسناد سے بیان کیا کہ ”اللہ تبارک وتعالیٰ جلہ مجدہ الکریم نے جنات کو پیدا فرمایا اور ان کو زمین میں آباد ہونے کا حکم فرمایا وہ بہت عرصہ اللہ تبارک وتعالیٰ جل مجدہ الکریم کی عبادت کرتے رہے پھر انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ جل مجدہ الکریم کی نافرمانی کی اور قتل و غارت گری شروع کردی۔ ان میں ایک فرشتہ تھا جس کا نام یوسف تھا اس کو انہوں نے قتل کردیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ جلہ مجدہ الکریم نے پہلے آسمان کے فرشتوں کا ایک لشکر بھیجا تو فرشتوں کے چار ہزار لشکر نے جنات کو زمین سے باہر نکال دیا اور سمندروں کے جزیروں میں اُن کو بھیج دیا“۔
o”نیچریوں اور دہریوں نے جہاں فرشتوں کا انکار کیا ہے وہاں جنوں کا بھی انکار کیا ہے۔ ان سے تعجب نہیں، تعجب تو ان لوگوں سے ہے جو اپنے تئیں مسلمان کہتے ہیں اور پھر جنوں کے وجود، تصرف اور افعال کا انکار کرتے ہیں۔ قسطلانی نے کہا ہے جنوں کا وجود قرآن اور حدیث اور اجماع اُمت اور تواتر سے ثابت ہے اور فلسفہ اور نیچریوں کا انکار، قابل اعتبار نہیں۔ عبداللہ بن عمروبن عاص نے کہا اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ سے دو ہزار برس بیشتر جنوں کو پیدا کیا تھا“ (تیسیرالباری غیر مقلد جلد4ص390 عاشیہ نمبر امن و عن)۔
جنات کس چیز کے بنے ہوئے ہیں؟
قرآن مجید میں جنات کی تخلیق سے متعلق رب ذوالجلال والاکرام کا واضح ارشاد ہے ”اور جنات کو خالص بے دھوئیں والے (آگ کے) شعلے سے تخلیق فرمایا گیا“۔
مسلم شریف میں ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے‘فرماتی ہیں‘ رسول کریم نے فرمایا: ”فرشتے نور سے پیداکئے گئے ہیں اور جنات خالص بے دھوئیں والے شعلے سے پیدا کئے گئے اور حضرت آدم ؑ کو مٹی سے پیدا فرمایا گیا“۔ ابلیس یا شیطان یا جن جو آگ کا بنا ہوا ہے اُس نے حضرت آدم ؑ کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا: ”(شیطان ابلیس جن) بولا (حضرت آدم ؑ ) بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور اُسے (یعنی حضرت آدم ؑ) کو مٹی سے بنایا ہے“۔ اس سے ثابت ہوتا ہے جنات ناری مخلوق ہے۔
اِن نصوص قطعیہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جنوں کی اصل نار ہے اور یہ ناری مخلوق ہیں اگر یہ سوال کیا جائے کہ آگ میں اتنی خشکی ہے کہ اس میں زندگی کے لئے وجود ناممکن ہے کیونکہ حیات کے لئے رطوبت کا ہونا ضروری ہے۔ تو جواب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اس پر قادر ہے کہ آگ میں اس قدر رطوبت پیدا کردے جو زندگی کے لئے کافی ہے۔
بعض اہل علم کہتے ہیں: ”سانس لینے کے بغیر حیات کا وجود ممکن ہے اور انہوں نے کہا دوزخی آگ میں سانس نہیں لیں گے“۔
قرآن مجید میں ایک اور مقام پر فرمایا گیا ہے۔ ”جنات کو اس سے پہلے ہم نے بے دھوئیں کی آگ سے بنایا“۔ جو اپنی حرارت اور لطافت سے مساموں میں نفوذ کرجاتی ہے“۔ اس فرمانِ عالی شان سے پہلے ربِ کائنات نے فرمایا ہے۔ ”اور بے شک ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے تخلیق فرمایا جو اَصل میں سیاہ بودار گارا تھی“۔