لاہور (خبرنگار خصوصی) نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیراہتمام سہ روزہ نظریہ پاکستان کانفرنس کے اختتام پر جاری کردہ اعلامیہ میں اس امر پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا گیا ہے کہ اس کی خاص رحمت کے طفیل یہ تاریخ ساز کانفرنس ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور میں 11 سے 13 فروری 2010ءتک اہم قومی‘ نظریاتی امور پر غوروخوض اور اجتماعی کوششوں کے حوالے سے لائحہ عمل طے کرنے کے بعد کامیابی سے ختم ہوگئی۔ اس عظیم الشان کانفرنس نے سوچ اور عمل کے نئے دروازے کھولے اور قومی یک جہتی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے تمام اجلاس نمائندگی اور شرکت کے لحاظ سے انتہائی حوصلہ افزا اور نتیجہ خیز رہے۔ کانفرنس میں بیرون ملک سے بھی مندوبین شریک ہوئے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین مجید نظامی کے خطاب نے آئندہ لائحہ عمل اور موجودہ کوششوں کے ارتقاءکےلئے رہنما اصول اور خطوط فراہم کئے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اس کانفرنس کے انعقاد کا بنیادی مقصد وطن عزیز کے مستقبل کے حوالے سے تشکیک و ابہام کو دور کرنا‘ پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کے تحفظ اور استحکام کےلئے انفرادی اور اجتماعی کردار کا تعین کرنا اور قوم میں اُمید کی کرن روشن رکھنے کےلئے عملی سرگرمیوں کی نشاندہی کرنا تھا۔ اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ کانفرنس میں شریک مندوبین نے جن میں نئی نسل سے لے کر تحریکِ قیامِ پاکستان کے مجاہدین بھی شامل تھے‘ تجدید عہد کیا اور اپنا عزم دہرایا کہ اپنے پیارے وطن پاکستان کے اساسی نظریہ کے تحفظ‘ فروغ اور اس پر عمل کرنا میرا جزو ایمان ہے‘ پاکستان کی سلامتی اور استحکم ہر سطح پر ذاتی‘ طبقاتی اور علاقائی مفادات پر مقدم ہیں۔ ”پاکستان کا مطلب کیا‘ لا الٰہ الا اللہ“ میرا ایمان ہے اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فرمان کے مطابق پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا میری منزل مراد ہے‘ نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے اغراض و مقاصد کے حصول اور پاکستان کو جدید اسلامی جمہوری فلاحی مملکت بنانے کےلئے مسلسل جدوجہد میرا نصب العین ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اس عہد کو پورا کرنے اور پاکستان کےلئے ہر قسم کی قربانی دینے کی توفیق عطا فرمائے“۔ اعلامیہ کے مطابق کانفرنس کے شرکاءنے پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کے حوالے سے قرار دیا کہ پاکستان ان شہیدوں کی امانت ہے جنہوں نے کسی دوسرے کی ڈکٹیشن یا مدد کے بغیر قیامِ پاکستان کی جنگ لڑی۔ یہ ضروری ہے کہ بانی¿ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فرمودات اور عمل سے رہنمائی حاصل کی جائے اور پاکستان کے بارے میں ”کرائے کے دوست“ کا پیدا ہونے والا تاثر ختم کیا جائے۔ سات سمندر پار موجود نئے عالمی سامراج نے جس کا صرف جغرافیائی نام‘ برطانوی اور ہندو سامراج سے الگ ہے‘ انسانوں کو اپنی خواہشات کا غلام بنانے‘ انہیں پسندیدہ اور ناپسندیدہ قرار دینے کا اختیار رکھنے اور زمین پر خدا بن بیٹھنے کی خواہش کو پورا کرنے کےلئے پوری دنیا میں ظلم و جبر کا جو سلسلہ شروع کیا ہے‘ ہمیں اس کے ساتھ ہرگز شریک نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی ہمیں اس کا اتحادی بننے کی ضرورت ہے۔ کانفرنس کے شرکاءنے دنیا بھر کے حریت پسندوں اور امن پسندوں کے ساتھ مکمل یک جہتی کا اظہار کیا‘ آزادی¿ کشمیر کے عزم کو دہرایا اور کشمیری حرےت پسندوں کو ہر قسم کی امداد کا یقین دلایا۔ اعلامیہ میں حکومت اور تمام سیاسی پارٹیوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں مکمل اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت اور دنیا پر دو ٹوک الفاظ میں واضح کر دیں کہ اب زیادہ انتظار نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت کشمیریوں پر ظلم و ستم فوراً بند کرے اور اقوامِ متحدہ کے تحت کشمیر میں استصوابِ رائے کروائے۔ اعلامیہ کے مطابق کانفرنس نے ”امن کی آشا“ کی نئی خوش فہمی کو مسترد کر دیا کہ بھارت سے دوستی اور انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان کے حصے میں ”نراشا“ ہی آئی ہے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک‘ کشمیر‘ جوناگڑھ‘ حیدر آباد اور مناوادر پر غاصبانہ قبضہ‘ 1965ءمیں پاکستان پر بزدلانہ حملہ‘ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریکوں کو قائم کرنے اور اب پاکستان کےلئے دریاﺅں کا پانی بند کرنے کے عمل تک ”صرف بھاشا ہی بھاشا“ ہے امن کے قیام کےلئے کوشش نہیں کی گئی۔ قائداعظم محمد علی جناحؒؒ نے قیامِ پاکستان کے حوالے سے کہا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے گا‘ اس سے تلخیاں ختم ہوں گی اور دونوں ملک اپنی بیرونی سرحدوں کے دفاع کے ذریعے ایک دوسرے کا دفاع کرنے میں مددگار ہوں گے۔ اس کے بدلے میں دوستی کے اظہار کی بجائے ہمیں بھارتی دہشت گردی کا شکار بنایا گیا ہے جس کے ثبوت 1985ءسے تو مسلسل سامنے آرہے ہیں۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ قرضوں پر انحصار کی بجائے خودانحصاری اور خودکفالت کی پالیسی اپنائی جائے۔ قوم قربانیاں دیتی چلی آرہی ہے‘ وہ آج بھی اس مقصد کےلئے اپنا فرض ادا کرے گی۔ سیاستدانوں کو بھی چاہئے کہ پاکستان کا قرض اتاریں‘ بیرون ملک رکھا ہوا اپنا سرمایہ پاکستان میں لائیں۔ کانفرنس نے پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے رہنماﺅں اور کارکنوں کو مل بیٹھنے اور ملکی سلامتی اور جذبہ یک جہتی کے فروغ کےلئے آپس میں دستِ تعاون دراز اور پائیدار بنانے پر زور دیا تاکہ موجودہ صورتِ حال کا مقابلہ کیا جاسکے۔ اعلامیہ میں قوم کو یاد دلایا گیا کہ قائداعظمؒ نے11 اگست 1947ءکو دستورساز اسمبلی میں بدعنوانیت‘ خیانت کاری اور اقرباءپروری کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا تھا۔ پچھلی دہائیوں میں ان تمام برائےوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ان برائیوں کو دور کرنے کےلئے عدلیہ اور ریاست کے دیگر متعلقہ ادارے مﺅثر اقدامات کریں۔ اعلامیہ کے مطابق کانفرنس کے شرکاءنے اتفاق کیا کہ انفرادی اور اجتماعی کوششوں کو اور زیادہ متحرک کیا جائے‘ جذبہ خودی کو اس کا صحیح مقام دینے کےلئے سرگرمیاں تیز تر کر دی جائیں۔ شخصیات کے بجائے اداروں کو مستحکم کیا جائے۔ اعلامیہ کے مطابق کانفرنس کے شرکاءنے اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر عہد کیا کہ وہ پوری دیانت داری کے ساتھ اپنی نظریاتی عملی قومی ذمہ داریاں پوری کریں گے۔ ملک کی ہر قسم کی قیادت پر احتسابی دباﺅ رکھا جائے گا تاکہ قیادت پورے اعتماد اور دیانت داری کے ساتھ ”عظیم تر پاکستان“ نظریاتی اور جغرافیائی تکمیل کےلئے اپنے فرض کی ادائیگی میں تساہل یا مصلحت سے گریز کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا عہد پورا کرنے کی سعادت نصیب فرمائے کہ اللہ ہی بڑا ہے‘ وہ قادرِ مطلق ہے‘ نیتوں کا حال خوب پہچانتا اور جانتا ہے اور جدوجہد‘ صبر اور استقلال والوں کو غالب کرتا ہے‘ آمین!
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024