ایک ہیڈ آف سٹیٹ کا کارٹون بنایا گیا اور اسے شہر کے وسط میں نصب کر دیا گیا۔ جب سربراہ مملکت وہاں آئے تو انہوں نے کارٹون پر چادر ڈلوا دی۔ آرٹسٹ بڑا حیران ہوا لیکن سربراہ مملکت نے شہر بھر میں اعلان کروا دیا کہ فلاح تاریخ کو اس عظیم آرٹسٹ کے فن پارے کی باقاعدہ نقاب کشائی ہو گی اور سربراہ مملکت خود تشریف لائیں گے۔ اس تاریخ کو لوگ جمع ہوئے اور اس کارٹون کی نقاب کشائی کی گئی۔ اس تقریب میں سربراہ مملکت نے آرٹسٹ کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے اور کہا کہ آرٹ کی صحیح تعریف بھی یہی ہے کہ وہ بغیر کسی ڈر خوف یا لالچ کے تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ یہ میکسیکو کے شہر کا واقعہ ہے‘ لیکن بات کھلے دل سے تسلیم کرنے کی ہے۔ مگر ہمارے ہاں غلط حرکات اور غلط فیصلے تو کر لیے جاتے ہیں مگر ۔۔۔۔۔ تسلیم نہیں کیا جاتا۔ سابق صدر (ر) جنرل ایوب خان بھی بڑی سادگی سے کہتے تھے کہ انہوں نے بے شمار کارنامے سرانجام دیئے ہیں‘ پھر بھی لوگ ان سے ناراض کیوں ہیں؟ جواباً ان سے پوچھا گیا کہ حبیب جالب پر 307 کا مقدمہ درج کر دیا گیا ہے اور حبیب جالب تو شاعر آدمی ہے کیا وہ کسی کا قتل کر سکتا ہے؟ جواب میں صدر ایوب خان نے کہا کہ وہ میرے خلاف لکھتا ہے۔ صدر ایوب خان کو مشورہ دیا گیا کہ آپ یوں بھی تو کہ سکتے تھے کہ میکسیکو کے سربراہ مملکت کی طرح حبیب جالب کو ایوان صدر بلا کر تقریب پذیرائی کر دیتے تو آپ یقیناً بڑے آدمی ثابت ہوتے۔ دراصل ہمارے سیاستدانوں میں بڑا آدمی کوئی نہیں ہے۔ مگر پھر بہت ساری جگہوں پر بڑے آدمی موجود ہیں۔ جسٹس خواجہ شریف اور جسٹس ثاقب نثار اتنے بڑے لوگ ہیں کہ ججز کو آپس میں لڑوانے کی پالیسی بھی ناکام ہو چکی ہے۔ ان دونوں شخصیات نے گورنر ہاﺅس جاکر حلف اٹھانے سے گریز کیا تھا اور پھر کل سپریم کورٹ نے ایک حکمنامہ کے ذریع کے صدارتی حکمنامہ معطل کر دیا جبکہ تمام ہی قانون دان اس پر متفق ہیں کہ ججز تعیناتی کا حکومتی نوٹیفکیشن غیر آئینی تھا اور سپریم کورٹ آئین و قانون کے مطابق فیصلے کر رہی ہے۔ ایوان صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ اپنا اور ہم اپنا کام کر رہے ہیں۔ حالانکہ ان دو اہم ستونوں کو اپنا اپنا کام کرنے کے ارادے نہیں کرنے چاہئیں بلکہ آئین اور قانون کی پاسداری اور پھر جمہوریت کے استحکام کے لیے مکمل مشاورت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئیے۔ اب سپریم کورٹ نے تین رکنی بینچ تشکیل دے دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ جسٹس خواجہ شریف کے تقرر کے لیے چیف جسٹس سے مشاورت نہیں کی گئی تھی جبکہ صدر مملکت کو مشاورت کے بعد ہی ججوں کے تقرر کا اختیار حاصل ہے۔ اب لوگ خوش ہیں کہ چیف جسٹس نے تین رکنی بینچ تشکیل دے دیا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلوں سے ملک میں ایک نئی تاریخ کا آغاز ۔۔۔۔ چاہتی ہیں۔ یوں بھی ہوتا رہا ہے کہ اعلیٰ عدالتیں ہی چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر کو اپنی من مانی کی ۔۔۔۔ کرنے کی اجازت دیتے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ نے ہی چیف آف آرمی سٹاف جنرل محمد ضیاءالحق کو مارشل لاءنافذ کرنے کے عمل کو ریاست اور فلاح عامہ کی خاطر جائز قرار دے دیا تھا۔
ہماری آئینی تاریخ اس حوالے سے اب اس تاریک دور سے نکل رہی ہے کہ جب جسٹس منیر احمد نے فوجی حکومت کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”انقلاب کامیاب ہو کر اپنے آپ کو موثر ثابت کر دیتا ہے اور اس طرح قانون سازی کا حق حاصل کر کے ناقابل تردید حقیقت بن جاتا ہے۔“
شکر ہے کہ اب ناقابل تردید حقیقتوں کے انداز بدل دیئے گئے ہیں اور کل تو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کی افواہیں بھی گردش کرتی رہیں تھیں جس کی تردید ایوان صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر اور وزیر قمر الزمان کائرہ کرتے رہے اور دوسری طرف سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو اسلام آباد بلا لیا گیا ہے کہ تاکہ خدانخواستہ ایمرجنسی کے نفاذ کو روکا جاسکے۔ پاکستان کی تاریخ میں اعلیٰ عدالتوں کی آزمائش ہوتی رہی ہے۔ مارچ 1981ءمیں ضیاءالحق نے عبوری آئین کے حکم نامہ پی سی او جاری کیا تھا اور پی سی او کے نتائج میں عدالتی اختیارات تقریباً ختم کر دیئے گئے تھے۔ مگر اب سپریم کورٹ بڑے فیصلے کر رہی ہے۔ ان فیصلوں کو حکومتی اراکین کو کھلے دل سے تسلیم کر لینا چاہئیے تھا۔ آرٹ کی طرح ملک کے عظیم اداروں کی بھی تعریف یہی ہے کہ وہ بغیر کسی ڈر‘ خوف یا لالچ کے فیصلے تخلیق کرتے ہیں کیونکہ اب عوام اگر کوئی کارٹون بنائیں اور چوراہے پر نصب کر دیں تو سربراہ مملکت میں اتنا ظرف نہیں ہے کہ وہ اس کی نقاب کشائی کے لیے آئیں گے۔ لہٰذا یہ نقاب کشائی اب سپریم کورٹ ہی کر سکتی ہے۔اپنا خیال رکھیئے گا....
ہماری آئینی تاریخ اس حوالے سے اب اس تاریک دور سے نکل رہی ہے کہ جب جسٹس منیر احمد نے فوجی حکومت کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”انقلاب کامیاب ہو کر اپنے آپ کو موثر ثابت کر دیتا ہے اور اس طرح قانون سازی کا حق حاصل کر کے ناقابل تردید حقیقت بن جاتا ہے۔“
شکر ہے کہ اب ناقابل تردید حقیقتوں کے انداز بدل دیئے گئے ہیں اور کل تو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کی افواہیں بھی گردش کرتی رہیں تھیں جس کی تردید ایوان صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر اور وزیر قمر الزمان کائرہ کرتے رہے اور دوسری طرف سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو اسلام آباد بلا لیا گیا ہے کہ تاکہ خدانخواستہ ایمرجنسی کے نفاذ کو روکا جاسکے۔ پاکستان کی تاریخ میں اعلیٰ عدالتوں کی آزمائش ہوتی رہی ہے۔ مارچ 1981ءمیں ضیاءالحق نے عبوری آئین کے حکم نامہ پی سی او جاری کیا تھا اور پی سی او کے نتائج میں عدالتی اختیارات تقریباً ختم کر دیئے گئے تھے۔ مگر اب سپریم کورٹ بڑے فیصلے کر رہی ہے۔ ان فیصلوں کو حکومتی اراکین کو کھلے دل سے تسلیم کر لینا چاہئیے تھا۔ آرٹ کی طرح ملک کے عظیم اداروں کی بھی تعریف یہی ہے کہ وہ بغیر کسی ڈر‘ خوف یا لالچ کے فیصلے تخلیق کرتے ہیں کیونکہ اب عوام اگر کوئی کارٹون بنائیں اور چوراہے پر نصب کر دیں تو سربراہ مملکت میں اتنا ظرف نہیں ہے کہ وہ اس کی نقاب کشائی کے لیے آئیں گے۔ لہٰذا یہ نقاب کشائی اب سپریم کورٹ ہی کر سکتی ہے۔اپنا خیال رکھیئے گا....