صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کے سلسلے میں مسلم لیگ( ن) کے مشاورتی اجلاس میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا۔
حق تو یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اس سلسلے میں کوئی حتمی فیصلہ کرے ہی نہ بلکہ اسکے مسلم لیگ ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان کے کسی صوبے کا نام جسے قائداعظم نے منظور کیا تبدیل کرنے کی کوششوں کو ناکام بنائے اس لئے کہ یہ ملک باچا خان نے نہیں بنایا تھا۔ یہ بڑی شرم کی بات ہو گی کہ پاکستان کہ کسی مخالف کی بات کو پاکستان میں رائج کیا جائے‘ صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنا صوبہ سرحد کو ایک انداز سے پاکستان سے الگ تشخص دینے کی کوشش ہے جسے ایک سیکولر پارٹی نے اٹھا رکھا ہے یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور پاکستان کے لفظ کا ایک ایک حرف ایک جغرافیائی وجود رکھتا ہے جسے توڑنا پاکستان کو توڑنے کے مترادف ہے اور صوبہ سرحد کو صوبہ سرحد ہی رہنے دیا جائے کوئی اور نام دے کر پاکستان کے وجود سے کھیلنے کا شغل ترک کر دینا چاہیے نواز شریف سمیت دیگر سیاستدانوں کو بھی اس سلسلے میں اپنی زبان کھولنی چاہیے۔ پاکستان ایک حقیقت ہے اسکے صوبے بھی ایک حقیقت ہیں اس لئے کسی بھی صوبے کا نام تبدیل کر کے پاکستان کی پہچان کو مجروح نہ کیا جائے۔ کیا یہی سیاست رہ گئی ہے کہ عوام کی خدمت کے بجائے کسی صوبے کا نام تبدیل کر دیا جائے کیا اس سے اس صوبے میں خوشحالی آ جائیگی یا مہنگائی کم ہو جائیگی۔ ہم سرحد کے عوام سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے لیڈروں کو اپنی ترقی کی طرف متوجہ کریں۔
٭…٭…٭…٭
وزیراعظم کی کرامات ہیں کہ اسمبلی میں تلخی کو بڑھنے نہیں دیتے۔
اس خبر میں ایک تصویر بھی چھپی ہے کہ ایک طوطا اپنی چونچ سے اسمبلی میں کچھ کہہ رہا ہے اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری اسمبلی بھی ایک طوطا کہانی ہے اور اس میں طوطے کے سامنے بھانت بھانت کے پرندے پرّے جمائے بیٹھے ہیں جب وہ اپنی چونچیں آپس میں لڑانے لگتے ہیں، یہ طوطا میاں مٹھو چُوری کھائے گا کہہ کر سب کی چونچیں خاموش کر دیتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم نہایت متحمل مزاج اور مرنجا مرنج شخص ہیں وہ جھگڑا ختم کرنے کے ماہر ہیں اور جب بھی اسمبلی کے ارکان میں کوئی جھڑپ بھڑک اٹھتی ہے تو وہ اس پر اپنی باتوں کا ٹھنڈا پانی ڈال کر بجھا دیتے ہیں چونکہ وہ نسلی طور سید بھی ہیں اور پیر بھی ہیں اس لئے یہ ان کی کرامت ہی ہے کہ اسمبلی کتنی بھی باؤلی ہو جائے وہ اسے دَم پڑھ کر چُھو کرتے ہیں اور اسمبلی میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے۔ قوم ان کی کسی ایسی کرامت کی منتظر ہے جس کے نتیجے میں ملک سے مہنگائی‘ بدامنی اوربد انصافی دور ہو جائے۔ بہت سے لوگوں کا ایک خوبصورت سی عمارت کی چھت تلے مناظرہ بازی کرنا صرف فنِ مناظرہ کو ہی ترقی دے گا جبکہ ملک کو مناظروں کی نہیں مسائل کے حل کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کی ایک کرامت یہ بھی ہے کہ حکومت قائم ہے وہ اداروں کو شِیر و شکر بنانے میں لگے رہتے ہیں اور یہ بھی ان کی کرامت ہو گی کہ وہ اسی میں حکومت کے پانچ سال مکمل کرا دیں۔
٭…٭…٭…٭
گورنر پنجاب نے کہا ہے عدلیہ اپنے کسی ایجنڈا پر گامزن ہے جبکہ وزیراعلیٰ نے کہا ہے حکومت کا طرز ِ عمل خلافِ آئین ہے۔گورنر پنجاب نے کہا ہے حکومت نے پاورز استعمال کیںکسی ’’کھڑک سنگھ‘‘ کو باہر سے لاکر نامزد نہیں کیا۔ اگر پاکستان میں اداروں کے تصادم کا یہی حال رہا تو کھڑک سنگھ بھی آجائے گا۔
یہ بات نہیں کرنی چاہئے کہ عدلیہ کسی خاص ایجنڈے پر عمل پیرا ہے بلکہ ملکی حالات کا تقاضا ہے کہ بیچ بچائو ہو جائے اور حکومت عدلیہ سے مشورہ کرکے اس مسئلے کو حل کرے اس سے پائوں پر کلہاڑی کا زخم بھی ٹھیک ہو جائے گا۔ دو اہم اداروں کے درمیان کشمکش کی فضابھی ختم ہو جائے گی ہم صدر آصف زرداری کو عاقبت نااندیش نہیں سمجھتے ضرور اس فیصلے میں کوئی ایسا ہاتھ ہے جو ایوان صدارت کو تصادم کی طرف لے جارہا ہے یہ ٹھیک ہے کہ صدر نے اپنے اختیارات کا ناجائزاستعمال کیا ہے بعض اوقات غلط دوائی استعمال کرنے سے مریض مر بھی سکتا ہے یہ معاملہ آئینی و قانونی سطح پر مل بیٹھ کر حل کرنے کی ضرورت ہے اس وقت ملک میں کہیں سے کوئی ایسی زور دار آواز نہیں اٹھ رہی جو پاکستان کو اس افراتفری سے بچالے۔ وزیراعظم گیلانی کے مشورے بھی کام نہ آئے گویا کچھ نہ دوا نے کام کیا عدلیہ کی آزادی کی مہم اب ایک اور رنگ میں چل پڑی ہے ۔ اس وقت ملک میں صدر کے خلاف ایک فضا ء قائم ہو گئی ہے اب بھی وقت ہے کہ وہ اس فضاء کو مثبت بنا دیں۔
٭…٭…٭…٭
پاکستان مسلم لیگ ’ن‘ کے سربراہ میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ بھارت خطے میں امن چاہتا ہے تو مسئلہ کشمیر قراردادوں کے مطابق حل کرنا ہوگا۔ میرے دور میں شروع کی گئی کشمیر پالیسی جاری رہتی تو آج مسئلہ کشمیر حل کے قریب ہوتا۔
یہ بات وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ میاںصاحب کی پالیسی کے نتیجے میں کشمیر مل جاتا تاہم انکی خوش فہمی کو نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جناب مجید نظامی کی یہ بات مسئلہ کشمیر پر روشنی ڈالنے کیلئے کافی ہے کہ بھارت ،اسرائیل ،امریکہ پاکستان کو ختم کرنے پر تلے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال میں منفی تبدیلی آئی ہے حکومت کوعدلیہ کے ساتھ تصادم کی راہ پر چلنا پڑرہا ہے اس کے پیچھے بھی خفیہ ہاتھ کارفرما ہیں جو نہیں چاہتے کہ یہاں حکومت، فوج اور عدلیہ کے درمیان ہم آہنگی رہے پاکستان کو ایسے ہتھیاروں سے ختم کیا جارہا ہے جن کی آستینیں نظر نہیں آتیں اس لئے کہ آستین میں چھپی سازشیں کب کوئی جان سکا ہے۔ کشمیر اور پانی کا مسئلہ نہ تو باہمی تعلقات سے حل ہوگا نہ امن کی آشا جیسی مہمیں چلانے سے اس پر اثر پڑے گا اس لئے کہ بھارت نے دو اور ڈیم بھی بنانا شروع کر دیئے ہیں البتہ میاں صاحب کی اس بات میں وزن ہے کہ مسئلہ کشمیر کویو این قراردادوں کے مطابق حل کرنا چاہئے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 62 سال تک جو اقوام متحدہ قراردادیں دبا کر بیٹھی ہوئی ہے وہ اسے قیامت تک دبائے رکھے گی؟۔ مسئلہ کشمیر اس وقت حل ہوگا جب دنیا یہ جان جائے گی کہ ان دو ایٹمی ملکوں کے تصادم سے پوری انسانیت کوخطرہ ہے۔
حق تو یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اس سلسلے میں کوئی حتمی فیصلہ کرے ہی نہ بلکہ اسکے مسلم لیگ ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان کے کسی صوبے کا نام جسے قائداعظم نے منظور کیا تبدیل کرنے کی کوششوں کو ناکام بنائے اس لئے کہ یہ ملک باچا خان نے نہیں بنایا تھا۔ یہ بڑی شرم کی بات ہو گی کہ پاکستان کہ کسی مخالف کی بات کو پاکستان میں رائج کیا جائے‘ صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنا صوبہ سرحد کو ایک انداز سے پاکستان سے الگ تشخص دینے کی کوشش ہے جسے ایک سیکولر پارٹی نے اٹھا رکھا ہے یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور پاکستان کے لفظ کا ایک ایک حرف ایک جغرافیائی وجود رکھتا ہے جسے توڑنا پاکستان کو توڑنے کے مترادف ہے اور صوبہ سرحد کو صوبہ سرحد ہی رہنے دیا جائے کوئی اور نام دے کر پاکستان کے وجود سے کھیلنے کا شغل ترک کر دینا چاہیے نواز شریف سمیت دیگر سیاستدانوں کو بھی اس سلسلے میں اپنی زبان کھولنی چاہیے۔ پاکستان ایک حقیقت ہے اسکے صوبے بھی ایک حقیقت ہیں اس لئے کسی بھی صوبے کا نام تبدیل کر کے پاکستان کی پہچان کو مجروح نہ کیا جائے۔ کیا یہی سیاست رہ گئی ہے کہ عوام کی خدمت کے بجائے کسی صوبے کا نام تبدیل کر دیا جائے کیا اس سے اس صوبے میں خوشحالی آ جائیگی یا مہنگائی کم ہو جائیگی۔ ہم سرحد کے عوام سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے لیڈروں کو اپنی ترقی کی طرف متوجہ کریں۔
٭…٭…٭…٭
وزیراعظم کی کرامات ہیں کہ اسمبلی میں تلخی کو بڑھنے نہیں دیتے۔
اس خبر میں ایک تصویر بھی چھپی ہے کہ ایک طوطا اپنی چونچ سے اسمبلی میں کچھ کہہ رہا ہے اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری اسمبلی بھی ایک طوطا کہانی ہے اور اس میں طوطے کے سامنے بھانت بھانت کے پرندے پرّے جمائے بیٹھے ہیں جب وہ اپنی چونچیں آپس میں لڑانے لگتے ہیں، یہ طوطا میاں مٹھو چُوری کھائے گا کہہ کر سب کی چونچیں خاموش کر دیتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم نہایت متحمل مزاج اور مرنجا مرنج شخص ہیں وہ جھگڑا ختم کرنے کے ماہر ہیں اور جب بھی اسمبلی کے ارکان میں کوئی جھڑپ بھڑک اٹھتی ہے تو وہ اس پر اپنی باتوں کا ٹھنڈا پانی ڈال کر بجھا دیتے ہیں چونکہ وہ نسلی طور سید بھی ہیں اور پیر بھی ہیں اس لئے یہ ان کی کرامت ہی ہے کہ اسمبلی کتنی بھی باؤلی ہو جائے وہ اسے دَم پڑھ کر چُھو کرتے ہیں اور اسمبلی میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے۔ قوم ان کی کسی ایسی کرامت کی منتظر ہے جس کے نتیجے میں ملک سے مہنگائی‘ بدامنی اوربد انصافی دور ہو جائے۔ بہت سے لوگوں کا ایک خوبصورت سی عمارت کی چھت تلے مناظرہ بازی کرنا صرف فنِ مناظرہ کو ہی ترقی دے گا جبکہ ملک کو مناظروں کی نہیں مسائل کے حل کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کی ایک کرامت یہ بھی ہے کہ حکومت قائم ہے وہ اداروں کو شِیر و شکر بنانے میں لگے رہتے ہیں اور یہ بھی ان کی کرامت ہو گی کہ وہ اسی میں حکومت کے پانچ سال مکمل کرا دیں۔
٭…٭…٭…٭
گورنر پنجاب نے کہا ہے عدلیہ اپنے کسی ایجنڈا پر گامزن ہے جبکہ وزیراعلیٰ نے کہا ہے حکومت کا طرز ِ عمل خلافِ آئین ہے۔گورنر پنجاب نے کہا ہے حکومت نے پاورز استعمال کیںکسی ’’کھڑک سنگھ‘‘ کو باہر سے لاکر نامزد نہیں کیا۔ اگر پاکستان میں اداروں کے تصادم کا یہی حال رہا تو کھڑک سنگھ بھی آجائے گا۔
یہ بات نہیں کرنی چاہئے کہ عدلیہ کسی خاص ایجنڈے پر عمل پیرا ہے بلکہ ملکی حالات کا تقاضا ہے کہ بیچ بچائو ہو جائے اور حکومت عدلیہ سے مشورہ کرکے اس مسئلے کو حل کرے اس سے پائوں پر کلہاڑی کا زخم بھی ٹھیک ہو جائے گا۔ دو اہم اداروں کے درمیان کشمکش کی فضابھی ختم ہو جائے گی ہم صدر آصف زرداری کو عاقبت نااندیش نہیں سمجھتے ضرور اس فیصلے میں کوئی ایسا ہاتھ ہے جو ایوان صدارت کو تصادم کی طرف لے جارہا ہے یہ ٹھیک ہے کہ صدر نے اپنے اختیارات کا ناجائزاستعمال کیا ہے بعض اوقات غلط دوائی استعمال کرنے سے مریض مر بھی سکتا ہے یہ معاملہ آئینی و قانونی سطح پر مل بیٹھ کر حل کرنے کی ضرورت ہے اس وقت ملک میں کہیں سے کوئی ایسی زور دار آواز نہیں اٹھ رہی جو پاکستان کو اس افراتفری سے بچالے۔ وزیراعظم گیلانی کے مشورے بھی کام نہ آئے گویا کچھ نہ دوا نے کام کیا عدلیہ کی آزادی کی مہم اب ایک اور رنگ میں چل پڑی ہے ۔ اس وقت ملک میں صدر کے خلاف ایک فضا ء قائم ہو گئی ہے اب بھی وقت ہے کہ وہ اس فضاء کو مثبت بنا دیں۔
٭…٭…٭…٭
پاکستان مسلم لیگ ’ن‘ کے سربراہ میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ بھارت خطے میں امن چاہتا ہے تو مسئلہ کشمیر قراردادوں کے مطابق حل کرنا ہوگا۔ میرے دور میں شروع کی گئی کشمیر پالیسی جاری رہتی تو آج مسئلہ کشمیر حل کے قریب ہوتا۔
یہ بات وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ میاںصاحب کی پالیسی کے نتیجے میں کشمیر مل جاتا تاہم انکی خوش فہمی کو نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جناب مجید نظامی کی یہ بات مسئلہ کشمیر پر روشنی ڈالنے کیلئے کافی ہے کہ بھارت ،اسرائیل ،امریکہ پاکستان کو ختم کرنے پر تلے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال میں منفی تبدیلی آئی ہے حکومت کوعدلیہ کے ساتھ تصادم کی راہ پر چلنا پڑرہا ہے اس کے پیچھے بھی خفیہ ہاتھ کارفرما ہیں جو نہیں چاہتے کہ یہاں حکومت، فوج اور عدلیہ کے درمیان ہم آہنگی رہے پاکستان کو ایسے ہتھیاروں سے ختم کیا جارہا ہے جن کی آستینیں نظر نہیں آتیں اس لئے کہ آستین میں چھپی سازشیں کب کوئی جان سکا ہے۔ کشمیر اور پانی کا مسئلہ نہ تو باہمی تعلقات سے حل ہوگا نہ امن کی آشا جیسی مہمیں چلانے سے اس پر اثر پڑے گا اس لئے کہ بھارت نے دو اور ڈیم بھی بنانا شروع کر دیئے ہیں البتہ میاں صاحب کی اس بات میں وزن ہے کہ مسئلہ کشمیر کویو این قراردادوں کے مطابق حل کرنا چاہئے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 62 سال تک جو اقوام متحدہ قراردادیں دبا کر بیٹھی ہوئی ہے وہ اسے قیامت تک دبائے رکھے گی؟۔ مسئلہ کشمیر اس وقت حل ہوگا جب دنیا یہ جان جائے گی کہ ان دو ایٹمی ملکوں کے تصادم سے پوری انسانیت کوخطرہ ہے۔