جنرل مرزا اسلم بیگ سابق چیف آف آرمی سٹاف...............
امریکی سیکرٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے پاکستان آنے سے پہلے نئی دہلی میں بیٹھ کر پاکستان کو انتباہ کیا تھا کہ 2008ء میں ہونے والے ممبئی حملوں کی طرح کی صورتحال دوبارہ پیدا ہوئی تو بھارت پاکستان پر حملہ حملہ کر دے گا۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ممبئی حملوں کا مجرم پاکستان ہی ہے اور اگر اس طرح کی صورت حال دوبارہ پیدا ہوئی تو اس کی تمام تر ذمہ داری پاکستان پر عائد ہو گی اور اس کے ردعمل میں بھارت پاکستان پر حملہ کرنے میں حق بجانب ہو گا اور بھارت کو ایسے انتہائی قدم اٹھانے سے باز رکھنا امریکہ کے لئے ممکن نہیں ہو گا۔ بالفاظ دیگر بھارت کو امریکہ کی مکمل سرپرستی حاصل ہوگی لہذا اس پیغام میں چھپے ہوئے مذموم مقاصد کا تقاضا ہے کہ مکمل تجزیہ کیا جائے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ اگر ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ہم دشمن کے عزائم کو کس طرح ناکام بنا سکتے ہیں۔
یہ تجزیہ زمینی حقائق پر مبنی ہے اور پاکستان اور بھارت کے مابین عسکری طاقت کے توازن کو ظاہر کرتا ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ بھارتی افواج کو پاکستان کے مقابلے میں عددی برتری حاصل ہے لیکن بھارتی افواج آج کل جن اندرونی کمزوریوں سے دوچار ہیں ان سے نکلنے کیلئے انہیں ایک عرصہ درکار ہے۔ مثلاً بھارتی مسلح افواج اس وقت ایک اہم تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہیں جس میں وہ روسی ساخت کے ہتھیاروں کے نظام کو امریکی اور یورپی ساخت کے جدید ہائی ٹیک ہتھیاروں سے تبدیل کر رہی ہیں۔ تبدیلی کا یہ سلسلہ 2005ء سے جاری ہے جب امریکہ اور بھارت نے سٹریٹچک پارٹنر شپ کے معاہدے پر دستخط کئے تھے اور امید ہے کہ یہ کام 2015ء میں مکمل ہو گا۔ نئے ہتھیاروں کی خرید پر پہلے ہی بھارت ایک صد بلین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کر چکا ہے۔ تبدیلی کا یہ مرحلہ خطرناک دور ہوتا ہے جس کے سبب آج بھارت کا تمام عسکری نظام کمزور ہے کیونکہ صرف تیس فیصد فوج کے پاس جدید ہتھیار ہیں جبکہ باقی فوج کے پاس ابھی تک پرانے ہتھیار ہیں۔ آج بھارت کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے جیسی ہمیں 1970ء کے اوائل میں درپیش تھی کیونکہ1965ء میں امریکہ نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا تھا جس سے نہ تو ہمارے پاس امریکی سامان پورا تھا اور نہ ہی کسی دوسری جگہ سے ہمیں سامان حاصل ہو سکا تھا۔ اس کمزوری کا بھارت نے فائدہ اٹھایا اور پاکستان کو دو لخت کر دیا۔ آج بھارت ایسی ہی مشکل سے دوچار ہے جس کے سبب وہ پاکستان کے خلاف جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دینا بھارت کی اسی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔
بھارت کو ایک دوسری بڑی کمزوری کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ گذشتہ چالیس سالوں میں تمام تر کوششوں کے باوجود وہ اپنے ٹینک، توپیں، کروز میزائل، جنگی ہوائی جہاز اور آبدوزیں بنانے میں ناکام رہا ہے۔ بھارت کی یہ بہت بڑی کمزوری ہے کیونکہ موجودہ دور میں دوسروں سے خریدے ہوئے اور مانگے ہوئے ہتھیاروں سے کبھی کامیاب جنگ نہیں لڑی جا سکتی۔ اس کے برعکس اب پاکستانی افواج خود انحصاری حاصل کر کے اپنا 90فیصد جنگی سامان خود تیار کر رہی ہیں۔ ہمارے اپنے تیار کردہ ٹینک ہیں، توپیں ہیں، جنگی ہوائی جہاز ہیں، جنگی بحری جہاز اور آبدوزیں ہیں، ہمارے اپنے تیار کردہ کروز میزائل ہیں اس کے علاوہ ہمارے پاس چالیس دن سے زیادہ کے جنگی ریزرو (War Reserve)موجود ہیں جبکہ 1965ء میں ہمارے پاس صرف گیارہ دن کا ریزرو تھا اور 1971ء میں صرف سات دنوں کا۔ اس کے مقابل بھارت کے پاس اس وقت صرف پندرہ دنوں کا جنگی ریزرو ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں واضح برتری حاصل ہے۔
پاکستان کی تیسری اہم صلاحیت اس کی عسکری تربیت کا اعلیٰ معیار اور جامع جنگی حکمت عملی ہے جو ہماری اعلیٰ عسکری قیادت کی اہلیت کا واضح ثبوت ہے۔ آج سے تقریباً 20سال پہلے پاک فوج’’ضرب مومن‘‘ نامی مشقوں میں جارحانہ دفاع (Offensive Defence) کے نئے تصور پر مبنی اپنی جنگی صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا۔ جس کے مطابق ہماری جنگ صرف دفاع تک محدود نہیں ہو گی بلکہ دفاع کرتے ہوئے ہماری افواج پیش قدمی کریں گی اور جنگ دشمن کے علاقوں میں لڑیں گی۔ لہذا ان بیس سالوں میں تمام تر تیاریوں کے بعد یہ حکمت عملی اب ہماری افواج کی بنیادی عسکری حکمت عملی بن چکی ہے۔ اس کے برعکس بھارت کی کولڈ اسٹارٹ (Cold Start) کی جنگی حکمت عملی، جس کے تحت دو محاذوں پر بیک وقت جنگ کرنا نہ صرف مضحکہ خیز ہے بلکہ عسکری اعتبار سے حقائق کے منافی ہے جس کی حیثیت محض افسانوی نوعیت کی ہے۔
رابرٹ گیٹس اور بھارتی عسکری منصوبہ بندی کے ماہرین پاکستان اور بھارت کی افواج کا موازنہ کرتے ہوئے Asymmetric Warکی نئی حقیقت کو بھی اچھی طرح ذہن میں رکھیں جس نے گذشتہ تیس سالوں میں دنیا کی جدید ترین اسلحہ سے لیس افواج کے مدمقابل عراق، افغانستان، لبنان اور کشمیر میں افراد اور میزائل (Men and Missile)کی طاقت کی برتری تسلیم کرا لی ہے۔ یہ وہ غیر منظم جنگ ہے جسے عام اصطلاح میں Asymmetric Warکا نام دیتے ہیں، جس کا سرچشمہ پاک افغان سرحد پر ڈیورنڈ لائن کا علاقہ ہے۔ یہ ہماری قوت بھی ہے جس کی تعریف بیان کرتے ہوئے سابق امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری دفاع، جوزف ایس نائی(Joseph S Nye)جو ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، کہتے ہیں کہ’’مستقبل کی جنگ دور حاضر کی چوتھی نسل کی جنگ (Fourth Generation Warfare)ہو گی۔ اس قسم کی جنگ میں روایتی اور غیر روایتی عسکری اور سویلئین قوتیں سب آپس میں یک جان ہو کر لڑیں گی اور جنگ جیتیں گے‘‘۔ اگر پاکستان پر جنگ تھونپی جاتی ہے تو ایسی ہی ایک طویل اور فیصلہ کن جنگ ہو گی جس سے نئے سیاسی حقائق جنم لیں گے، سرحدیں بدلیں گی اور علاقے میں قیام امن کی نئی حدود کا تعین ہو گا۔
بھارت اور پاکستان صرف روایتی جنگ ہی لڑ سکتے ہیں جس میں فتح یا شکست تو ہو سکتی ہے مگر وہ ایک دوسرے کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے سے حتی الوسع گریز کریں گے کیونکہ ایٹمی جنگ ہر چیز کو نیست و نابود کر دے گی اور اس کے بعد صرف راکھ کے ڈھیر ہی بچیں گے جس پر کوئی ملک قبضہ بھی کر لے لیکن تعمیر نو بھی نہ کر سکے گا۔ لہذا عوام کو یہ خیال دل سے نکال دینا چاہئے کہ چونکہ ہم ایٹمی صلاحیت کے حامل ہیں لہذا ہم طاقتور ہیں جبکہ اس کے برعکس یہ صرف روایتی عسکری صلاحیت ہی ہے جو قوم کی سلامتی کی ضامن ہو سکتی ہے جس طرح آج ہماری افواج اپنی افادیت قائم کرتے ہوئے سیاسی حکومت کیلئے بہتر انداز حکمرانی قائم کرنے کی آسانیاں فراہم کر رہی ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کا توازن قائم ہے۔ 1998ء میں جب پاکستان نے بھارت کے جواب میں اپنی ایٹمی صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا تو اس وقت کے بھارتی وزیر دفاع جارج فرنینڈس نے کہا تھا’’یہ اہم بات ہے کہ اب بھارت اور پاکستان کے مابین صحیح معنوں میں ایٹمی طاقت کا توازن قائم ہو چکا ہے۔ یقیناً وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا کردار بس یہیں تک محدود ہے‘‘ پاکستان کی کم سے کم دفاعی حد تک ایٹمی ہتھیار رکھنے کی پالیسی، جسے تحمل و برداشت کی پالیسی (Policy of Restraint)کی تائید حاصل ہے، جو ایک مضبوط ایٹمی دفاع کا مقصد پورا کر رہی ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ایٹمی صلاحیت روایتی عسکری صلاحیت کا ہرگز نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ اس اصول پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کی روایتی عسکری صلاحیت اس انداز سے تعمیر کی گئی ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں قومی طاقت کی علامت بن چکی ہے اور اندرونی و بیرونی ہر قسم کی جارحیت کو کچلنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
یہی وہ زمینی حقائق ہیں جو پاکستانی افواج کی جنگی صلاحیت کا مظہر ہیں۔ یہ ایسے واضح حقائق ہیں جس کے خلاف دشمن چاہے جس قدر عیارانہ حکمت عملیاں مرتب کرتا رہے مگر اس کی حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتا۔ اگر ہمارے حریف سازش کے ذریعے پاکستان پر جنگ مسلط کر دیتے ہیں تو ان پر واضح ہو جانا چاہئے کہ پاکستانی قوم میدان جنگ میں دشمن سے آنکھیں ملانے سے ہر گز خوفزدہ نہیں ہے اور یہ جنگ بڑی خوفناک اور فیصلہ کن ہو گی۔ ایسا فیصلہ جو پاکستانی قوم کی قوت ارادی اور افواج پاکستان کی صلاحیتوں کا مظہر ہو گا۔
امریکی سیکرٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے پاکستان آنے سے پہلے نئی دہلی میں بیٹھ کر پاکستان کو انتباہ کیا تھا کہ 2008ء میں ہونے والے ممبئی حملوں کی طرح کی صورتحال دوبارہ پیدا ہوئی تو بھارت پاکستان پر حملہ حملہ کر دے گا۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ممبئی حملوں کا مجرم پاکستان ہی ہے اور اگر اس طرح کی صورت حال دوبارہ پیدا ہوئی تو اس کی تمام تر ذمہ داری پاکستان پر عائد ہو گی اور اس کے ردعمل میں بھارت پاکستان پر حملہ کرنے میں حق بجانب ہو گا اور بھارت کو ایسے انتہائی قدم اٹھانے سے باز رکھنا امریکہ کے لئے ممکن نہیں ہو گا۔ بالفاظ دیگر بھارت کو امریکہ کی مکمل سرپرستی حاصل ہوگی لہذا اس پیغام میں چھپے ہوئے مذموم مقاصد کا تقاضا ہے کہ مکمل تجزیہ کیا جائے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ اگر ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ہم دشمن کے عزائم کو کس طرح ناکام بنا سکتے ہیں۔
یہ تجزیہ زمینی حقائق پر مبنی ہے اور پاکستان اور بھارت کے مابین عسکری طاقت کے توازن کو ظاہر کرتا ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ بھارتی افواج کو پاکستان کے مقابلے میں عددی برتری حاصل ہے لیکن بھارتی افواج آج کل جن اندرونی کمزوریوں سے دوچار ہیں ان سے نکلنے کیلئے انہیں ایک عرصہ درکار ہے۔ مثلاً بھارتی مسلح افواج اس وقت ایک اہم تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہیں جس میں وہ روسی ساخت کے ہتھیاروں کے نظام کو امریکی اور یورپی ساخت کے جدید ہائی ٹیک ہتھیاروں سے تبدیل کر رہی ہیں۔ تبدیلی کا یہ سلسلہ 2005ء سے جاری ہے جب امریکہ اور بھارت نے سٹریٹچک پارٹنر شپ کے معاہدے پر دستخط کئے تھے اور امید ہے کہ یہ کام 2015ء میں مکمل ہو گا۔ نئے ہتھیاروں کی خرید پر پہلے ہی بھارت ایک صد بلین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کر چکا ہے۔ تبدیلی کا یہ مرحلہ خطرناک دور ہوتا ہے جس کے سبب آج بھارت کا تمام عسکری نظام کمزور ہے کیونکہ صرف تیس فیصد فوج کے پاس جدید ہتھیار ہیں جبکہ باقی فوج کے پاس ابھی تک پرانے ہتھیار ہیں۔ آج بھارت کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے جیسی ہمیں 1970ء کے اوائل میں درپیش تھی کیونکہ1965ء میں امریکہ نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا تھا جس سے نہ تو ہمارے پاس امریکی سامان پورا تھا اور نہ ہی کسی دوسری جگہ سے ہمیں سامان حاصل ہو سکا تھا۔ اس کمزوری کا بھارت نے فائدہ اٹھایا اور پاکستان کو دو لخت کر دیا۔ آج بھارت ایسی ہی مشکل سے دوچار ہے جس کے سبب وہ پاکستان کے خلاف جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دینا بھارت کی اسی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔
بھارت کو ایک دوسری بڑی کمزوری کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ گذشتہ چالیس سالوں میں تمام تر کوششوں کے باوجود وہ اپنے ٹینک، توپیں، کروز میزائل، جنگی ہوائی جہاز اور آبدوزیں بنانے میں ناکام رہا ہے۔ بھارت کی یہ بہت بڑی کمزوری ہے کیونکہ موجودہ دور میں دوسروں سے خریدے ہوئے اور مانگے ہوئے ہتھیاروں سے کبھی کامیاب جنگ نہیں لڑی جا سکتی۔ اس کے برعکس اب پاکستانی افواج خود انحصاری حاصل کر کے اپنا 90فیصد جنگی سامان خود تیار کر رہی ہیں۔ ہمارے اپنے تیار کردہ ٹینک ہیں، توپیں ہیں، جنگی ہوائی جہاز ہیں، جنگی بحری جہاز اور آبدوزیں ہیں، ہمارے اپنے تیار کردہ کروز میزائل ہیں اس کے علاوہ ہمارے پاس چالیس دن سے زیادہ کے جنگی ریزرو (War Reserve)موجود ہیں جبکہ 1965ء میں ہمارے پاس صرف گیارہ دن کا ریزرو تھا اور 1971ء میں صرف سات دنوں کا۔ اس کے مقابل بھارت کے پاس اس وقت صرف پندرہ دنوں کا جنگی ریزرو ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں واضح برتری حاصل ہے۔
پاکستان کی تیسری اہم صلاحیت اس کی عسکری تربیت کا اعلیٰ معیار اور جامع جنگی حکمت عملی ہے جو ہماری اعلیٰ عسکری قیادت کی اہلیت کا واضح ثبوت ہے۔ آج سے تقریباً 20سال پہلے پاک فوج’’ضرب مومن‘‘ نامی مشقوں میں جارحانہ دفاع (Offensive Defence) کے نئے تصور پر مبنی اپنی جنگی صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا۔ جس کے مطابق ہماری جنگ صرف دفاع تک محدود نہیں ہو گی بلکہ دفاع کرتے ہوئے ہماری افواج پیش قدمی کریں گی اور جنگ دشمن کے علاقوں میں لڑیں گی۔ لہذا ان بیس سالوں میں تمام تر تیاریوں کے بعد یہ حکمت عملی اب ہماری افواج کی بنیادی عسکری حکمت عملی بن چکی ہے۔ اس کے برعکس بھارت کی کولڈ اسٹارٹ (Cold Start) کی جنگی حکمت عملی، جس کے تحت دو محاذوں پر بیک وقت جنگ کرنا نہ صرف مضحکہ خیز ہے بلکہ عسکری اعتبار سے حقائق کے منافی ہے جس کی حیثیت محض افسانوی نوعیت کی ہے۔
رابرٹ گیٹس اور بھارتی عسکری منصوبہ بندی کے ماہرین پاکستان اور بھارت کی افواج کا موازنہ کرتے ہوئے Asymmetric Warکی نئی حقیقت کو بھی اچھی طرح ذہن میں رکھیں جس نے گذشتہ تیس سالوں میں دنیا کی جدید ترین اسلحہ سے لیس افواج کے مدمقابل عراق، افغانستان، لبنان اور کشمیر میں افراد اور میزائل (Men and Missile)کی طاقت کی برتری تسلیم کرا لی ہے۔ یہ وہ غیر منظم جنگ ہے جسے عام اصطلاح میں Asymmetric Warکا نام دیتے ہیں، جس کا سرچشمہ پاک افغان سرحد پر ڈیورنڈ لائن کا علاقہ ہے۔ یہ ہماری قوت بھی ہے جس کی تعریف بیان کرتے ہوئے سابق امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری دفاع، جوزف ایس نائی(Joseph S Nye)جو ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، کہتے ہیں کہ’’مستقبل کی جنگ دور حاضر کی چوتھی نسل کی جنگ (Fourth Generation Warfare)ہو گی۔ اس قسم کی جنگ میں روایتی اور غیر روایتی عسکری اور سویلئین قوتیں سب آپس میں یک جان ہو کر لڑیں گی اور جنگ جیتیں گے‘‘۔ اگر پاکستان پر جنگ تھونپی جاتی ہے تو ایسی ہی ایک طویل اور فیصلہ کن جنگ ہو گی جس سے نئے سیاسی حقائق جنم لیں گے، سرحدیں بدلیں گی اور علاقے میں قیام امن کی نئی حدود کا تعین ہو گا۔
بھارت اور پاکستان صرف روایتی جنگ ہی لڑ سکتے ہیں جس میں فتح یا شکست تو ہو سکتی ہے مگر وہ ایک دوسرے کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے سے حتی الوسع گریز کریں گے کیونکہ ایٹمی جنگ ہر چیز کو نیست و نابود کر دے گی اور اس کے بعد صرف راکھ کے ڈھیر ہی بچیں گے جس پر کوئی ملک قبضہ بھی کر لے لیکن تعمیر نو بھی نہ کر سکے گا۔ لہذا عوام کو یہ خیال دل سے نکال دینا چاہئے کہ چونکہ ہم ایٹمی صلاحیت کے حامل ہیں لہذا ہم طاقتور ہیں جبکہ اس کے برعکس یہ صرف روایتی عسکری صلاحیت ہی ہے جو قوم کی سلامتی کی ضامن ہو سکتی ہے جس طرح آج ہماری افواج اپنی افادیت قائم کرتے ہوئے سیاسی حکومت کیلئے بہتر انداز حکمرانی قائم کرنے کی آسانیاں فراہم کر رہی ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کا توازن قائم ہے۔ 1998ء میں جب پاکستان نے بھارت کے جواب میں اپنی ایٹمی صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا تو اس وقت کے بھارتی وزیر دفاع جارج فرنینڈس نے کہا تھا’’یہ اہم بات ہے کہ اب بھارت اور پاکستان کے مابین صحیح معنوں میں ایٹمی طاقت کا توازن قائم ہو چکا ہے۔ یقیناً وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا کردار بس یہیں تک محدود ہے‘‘ پاکستان کی کم سے کم دفاعی حد تک ایٹمی ہتھیار رکھنے کی پالیسی، جسے تحمل و برداشت کی پالیسی (Policy of Restraint)کی تائید حاصل ہے، جو ایک مضبوط ایٹمی دفاع کا مقصد پورا کر رہی ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ایٹمی صلاحیت روایتی عسکری صلاحیت کا ہرگز نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ اس اصول پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کی روایتی عسکری صلاحیت اس انداز سے تعمیر کی گئی ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں قومی طاقت کی علامت بن چکی ہے اور اندرونی و بیرونی ہر قسم کی جارحیت کو کچلنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
یہی وہ زمینی حقائق ہیں جو پاکستانی افواج کی جنگی صلاحیت کا مظہر ہیں۔ یہ ایسے واضح حقائق ہیں جس کے خلاف دشمن چاہے جس قدر عیارانہ حکمت عملیاں مرتب کرتا رہے مگر اس کی حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتا۔ اگر ہمارے حریف سازش کے ذریعے پاکستان پر جنگ مسلط کر دیتے ہیں تو ان پر واضح ہو جانا چاہئے کہ پاکستانی قوم میدان جنگ میں دشمن سے آنکھیں ملانے سے ہر گز خوفزدہ نہیں ہے اور یہ جنگ بڑی خوفناک اور فیصلہ کن ہو گی۔ ایسا فیصلہ جو پاکستانی قوم کی قوت ارادی اور افواج پاکستان کی صلاحیتوں کا مظہر ہو گا۔