ججوں کے تقرر کے نوٹیفکیشن کا اجراء اور اس کی معطلی..... حکومت نے سیاسی خودکشی کا راستہ کیوں اختیار کیا؟
سپریم کورٹ کے سپیشل بنچ نے سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار قاضی ساجد کے اس بیان کی روشنی میں کہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس خواجہ محمد شریف کے بطور جج سپریم کورٹ تقرر کیلئے چیف جسٹس پاکستان کے ساتھ کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی ، ڈپٹی سیکرٹری وفاقی وزارت قانون کے دستخطوں سے ایوان صدر سے جاری کئے گئے اس نوٹیفکیشن پر عملدرآمد روک دیا جس کی بنیاد پر چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کے بطور جج سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کے بطور قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ تقرر کے احکام جاری کئے گئے تھے۔ یہ نوٹیفکیشن وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی، وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان اور وزیراعظم کے خصوصی مشیر سردار لطیف کھوسہ کی ایوان صدر میں صدر آصف علی زرداری کے ساتھ طویل میٹنگ کے بعد اتوار کی شام چھ بجے جاری کیا گیا جس کی خبریں میڈیا پر آتے ہی چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس معاملہ کا اپنے ازخود اختیارات کے تحت نوٹس لیااوریہ معاملہ جسٹس شاکر اللہ جان کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے اس سپیشل بنچ کو ریفر کردیا جو ججوں کے تقرر میں تاخیر کے خلاف سینئر ایڈووکیٹ محمد اکرم شیخ کے دائر کردہ کیس کی پہلے ہی سماعت کر رہا تھا۔ فاضل بنچ نے اتوار ہی کی شب عدالت عظمیٰ اسلام آباد میں پہنچ کر اس کیس کی سماعت کی اور وفاقی حکومت، اٹارنی جنرل اور چاروں ایڈووکیٹ جنرلز کو 18 فروری کیلئے نوٹس جاری کرتے ہوئے متذکرہ نوٹیفکیشن معطل کردیا اور قرار دیا کہ متذکرہ نوٹیفکیشن کیلئے چیف جسٹس پاکستان سے مشاورت نہ کرکے آئین کی دفعہ 177 کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی ہے۔ فاضل عدالت عظمیٰ نے جسٹس خواجہ محمد شریف اور جسٹس میاں ثاقب نثار کو لاہور ہائیکورٹ میں بدستور اپنے اپنے فرائض جاری رکھنے کی بھی ہدایت کی، جبکہ یہ دونوں فاضل جج پہلے ہی اس نوٹیفکشن کو قبول کرنے اور اس کے مطابق اپنے مجوزۂ نئے مناصب پر حلف اٹھانے سے انکار کرچکے تھے۔
اس وقت جبکہ عدلیہ مکمل آزاد ہے اور میڈیا کے مستعد و متحرک کردار کی وجہ سے ملک کے عوام بھی باشعور ہو چکے ہیں اور قانون و آئین کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کیلئے عدلیہ کی پشت پر کھڑے ہیں،حکومت کی جانب سے اپنی خواہشات پر مبنی آئین و قانون سے متجاوز اقدام کرنا اور عدلیہ کے ساتھ ٹکرائو مول لینا فی الواقع سیاسی خودکشی کرنے کے مترادف ہے اس کے باوجود سے صدر آصف علی زرداری نے اپنے نادان مشیروں کے نرغے میں آ کر ججوں کے تقرر کے ایشو پر عدلیہ سے ٹکرائو کا راستہ اختیار کیا جس پر حکومتی اتحادی جماعتیں ہی نہیں، خود حکمران پیپلز پارٹی کے قائدین بھی حیران و پریشان ہیں کہ بیٹھے بٹھائے ’’آ بیل مجھے مار‘‘ کی دعوت کیوں دی گئی ہے جبکہ اس اقدام سے حکومت کے ساتھ ساتھ پورے جمہوری نظام کو سخت خطرات سے دوچار کردیا گیا ہے۔
متذکرہ نوٹیفکیشن کے اجراء کے ساتھ ہی چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ خواجہ محمد شریف اور مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے جرأت انکار کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس طرح فوری طور پر اس نوٹیفکیشن کو قبول نہ کرنے اور حلف نہ اٹھانے کا اعلان کیا اس سے مہم جوئی کے شوق میں مبتلا نادان حکومتی مشیروں پر یہ حقیقت واضح ہو جانی چاہئے کہ ملک میں قانون و آئین کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کیلئے اس وقت پوری عدلیہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے ساتھ کھڑی ہے اور حکومت یا حکومتی مشینری کے کسی کل پرزے کو کسی غیر قانونی یا غیر آئینی اقدام کی اجازت نہیں دے گی۔ جبکہ اب سسٹم کو بچانے کی خاطر موجودہ حکمرانوں کیلئے فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ قبول و برداشت کرنے والے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کیلئے بھی حکومتی اقدامات کی حمایت کرنا ممکن نہیں رہا اور گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے ہنگامی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے حکومت کو باور کرایا ہے کہ اس نے عدلیہ کے ساتھ ٹکرائو مول لے کر انتہائی خطرناک راستہ اختیار کیا ہے جبکہ ہم اداروں کی بالادستی کیلئے اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے دو روز قبل بھی اسلام آباد میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کے موقع پر انہیں باور کرایا تھا کہ وہ ججوں کے تقرر کے لئے چیف جسٹس پاکستان کی سفارشات کو عملی جامہ پہنائیں اس کے باوجود حکومت نے عدلیہ کے ساتھ ٹکراؤ کا راستہ اختیار کیا جو موجودہ حالات میں اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ این آر او کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد سے گریز کر کے حکومت کی جانب سے پہلے ہی عدلیہ کے ساتھ ٹکراؤ کا عندیہ دیا جا رہا تھا جس پر چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری نے بنک آف پنجاب کے کیس کی سماعت کے دوران باور کرایا کہ عدالتی فیصلہ کا احترام نہ کرنے والوں کو سلاخوں کے پیچھے جانا پڑے گا اس کے باوجود اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر کے لئے آئین اور الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلہ میں متعین کئے گئے پیرامیٹرز سے ہٹ کر حکومت نے اپنی من مرضی سے لاہور ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کے لئے جسٹس میاں ثاقب نثار اور سپریم کورٹ کی خالی اسامی پر جسٹس خواجہ محمد شریف کے تقرر کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جو چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری کی جانب سے بھجوائی گئی سفارشات کے قطعی برعکس اقدام تھا۔ آئین کی دفعہ 177 کے تحت اعلیٰ عدلیہ بشمول ہائیکورٹس و سپریم کورٹ کے لئے صرف چیف جسٹس پاکستان کی مشاورت سے ہی ججوں کا تقرر عمل میں لایا جا سکتا ہے جبکہ الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلہ کے تحت اعلیٰ عدلیہ میں جج کی خالی اسامی یا اسامیوں پر ایک ماہ کے اندر اندر تقرر عمل میں آنا ضروری ہے۔ اس کیس کے فیصلہ کے تحت تقرر کے لئے سنیارٹی کا اصول صرف ہائیکورٹ میں چیف جسٹس حضرات کے تقرر کے معاملہ میں وضع کیا گیا ہے اور سپریم کورٹ نے اپنے 2002ء کے ایک فیصلہ میں الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے قرار دیا ہوا ہے کہ سپریم کورٹ میں صرف سنیارٹی کی بنیاد پر کسی جج کا تقرر ضروری نہیں۔ اس کے باوجود حکومت نے الجہاد ٹرسٹ کیس کو بنیاد بنا کر چیف جسٹس پاکستان کی سفارشات کے قطعی برعکس سنیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس خواجہ محمد شریف کے بطور جج سپریم کورٹ تقرر کا نوٹیفکیشن جاری کردیا اور اسی نوٹیفکیشن میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس میاں ثاقب نثار کو بطور قائم مقام چیف جسٹس تعینات کرنے کے احکام جاری کئے جو بذات خود الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلہ کے منافی اقدام تھا کیونکہ اس فیصلہ میں سپریم کورٹ واضح طور پر قرار دے چکی ہے کہ چیف جسٹس کی خالی ہونیوالی آسامی پر قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر عمل میں نہیں لایا جاسکتا۔ جبکہ متذکرہ نوٹیفکیشن کی بنیاد پر حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلہ‘ چیف جسٹس پاکستان کی سفارشات اور آئین پاکستان کی بیک وقت خلاف ورزی کی ہے جس کی بنیاد پر آئینی ماہرین کی یہ آراء بھی سامنے آچکی ہیں کہ اس اقدام پر نوٹیفکیشن جاری کرنے والوں کے خلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت بھی کارروائی ہوسکتی ہے اور آئین کی دفعہ 62-63 کے تحت انہیں اسمبلی اور سینٹ کی رکنیت سے نااہل بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس طرح حکومت نے بیٹھے بٹھائے اپنے خلاف نئے قانونی، آئینی اور سیاسی محاذ کھول لئے ہیں جبکہ یہ صورت حال حکومت کے ساتھ ساتھ پورے سسٹم کی بساط لپیٹے جانے پر بھی منتج ہوسکتی ہے۔
یہ اچھی بات ہے کہ حکومت نے اپنی من مرضی سے ججوں کے تقرر کے معاملہ میں پسپائی کے بعد مزید حماقت سے گریز کیا جیسا کہ ملک میں جرنیلی آمر مشرف کی طرح ایمرجنسی نافذ کرنے کی افواہیں زیر گردش تھیں۔ حکومت کی جانب سے اب عدالت عظمیٰ کے روبرو ججوں کے تقرر کے معطل شدہ نوٹیفکیشن کے دفاع کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اس کا حق ہے۔ اب اس حد تک ہی رہا جائے‘ مزید مہم جوئی سے گریز کیا جائے اور اس کیس کے علاوہ دوسرے مقدمات بشمول این آر او کیس میں بھی عدالتی فیصلوں کا احترام کیا جائے تو سسٹم کو نقصان پہنچنے سے بچایا جاسکتا ہے۔ورنہ قانون و آئین کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کیلئے عدلیہ ہی نہیں، پوری قوم، سول سوسائٹی اور قومی سیاسی قائدین بھی متحد ہیں۔سپریم کورٹ کے تمام فاضل ججز دیگر سٹیشنوں سے سپریم کورٹ اسلام آباد میں آچکے ہیں‘ اٹارنی جنرل پاکستان قاضی منصور کی چیف جسٹس پاکستان سے مفصل ملاقات بھی ہو چکی ہے۔ وکلاء تنظیمیں لائن آف ایکشن کیلئے سرگرم ہو چکی ہیں اور متعدد سیاسی جماعتیں حکومت کے ماورائے آئین اقدام کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر چکی ہیں۔ وہ سسٹم کو بچانے کے نام پر کسی کے آمرانہ رویوں کو برداشت کریں گے نہ کسی کو ماورائے آئین وقانون اقدامات کی اجازت دیںگے، صدر زرداری نے جن نادان مشیروں کے کہنے پر متذکرہ نوٹیفکیشن جاری کیا، انہیں وہ اپنی پہلی ہی فرصت میں فارغ کردیں کیونکہ وہ ان کے اور سسٹم کے ہر گز خیرخواہ نہیں ہیں۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا یہ کہنا کہ عدلیہ کا مسئلہ کشمیر جیسا نہیں کہ حل نہ ہوسکے، ان دونوں اہم قومی ایشوز پر ان کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ انہیں آئین کے تحت ججوں کے تقرر کا ہی نہیں، یو این قراردادوں کے مطابق کشمیر کا مسئلہ بھی بہرصورت حل کرانا ہے۔
نظریۂ پاکستان کانفرنس کی قومی اہمیت
ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان میں سہہ روزہ ’’نظریہ پاکستان کانفرنس‘‘ ختم ہو گئی اِسکی نویں اور آخری نشست سے خطاب کرتے ہوئے صوبہ سرحد کے گورنر اویس احمد غنی نے کہا کہ ابھی جنگ ختم نہیں ہوئی دُشمن طاقتیں نیا محاذ کھولنے کیلئے پر تول رہی ہیں۔ صوبہ سرحد کے لوگ دل و جان سے پاکستانی ہیں اور ہم پاکستان کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ گورنر اویس احمد غنی نے کہا کہ ہماری نوجوان نسل بڑی ذہین ہے لیکن ہم بڑوں سے یہ غلطی ہوئی کہ ہم پاکستان کی سوچ اور نظریہ اِن تک ٹھیک طرح سے نہیں پُہنچا سکے مقامِ شکر ہے کہ اب یہ فریضہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ بہ طریقِ احسن انجام دے رہا ہے۔ سہہ روزہ نظریۂ پاکستان کانفرنس کی روزانہ تین تین نشستیں منعقد ہوئیں اِن میں گورنر سرحد کے علاوہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی ایک نشست کی صدارت کی اور اِس طرح باقی نشستوں میں بھی نامور زعماء پاکستان شریک ہوئے اور اُنہوں نے حاضرین طلباء و طالبات اور پاکستان کے ممتاز دانشوروں سیاسی لیڈروں کارکنوں اور باشعور عوام سے براہِ راست خطاب کیا اُنکے سوالات کے جواب دئیے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین اور نامور اخبار نویس جناب مجید نظامی بھی ہر نشست میں موجود رہے۔ نظرۂ پاکستان ٹرسٹ۔ اُس کمی کو پورا کر رہا ہے جو پاکستان بننے کے فوری بعد پاکستان کے برسرِ اقتدار تحریک پاکستان کے کارکنان کو کرنا چاہئے تھا۔ بابائے قوم کو تو اتنا وقت نہیں مِل سکا۔
قائدِ ملت لیاقت علی خان‘ شہید ہو گئے۔ اور اِسکے بعد قائداعظمؒ کی مسلم لیگ‘ اقتدار کے ایسے کھیل میں بٹ گئی جس میں نئی نسل کو کسی نے یہ سمجھایا ہی نہیں کہ تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کا محرک کیا جذبہ تھا۔ پاکستان بنانے کے لئے قائداعظمؒ کی زیر قیادت ہم کو کن لوگوں سے لڑنا پڑا۔ اور مسلمانوں نے کیا کیا قربانیاں دیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی سالمیت کے کیا تقاضے ہیں۔ ہماری نئی نسل کو یہ علم ہی نہیں کہ ہندو لیڈرشپ کی کیا نفسیات ہے اور یہ مکار‘ عیار اور دغا باز کِس طرح مسلمانوں کے دُشمن ہیں۔ اگر پاکستان کے قیام میں کام کرنے والے اور بابائے قوم کے صحبت یافتہ سیاسی لیڈر۔ اُس وقت نئی نسل کو نظریۂ پاکستان کا فلسفہ سمجھا دیتے۔ ہم اِس نظریہ کی روشنی میں پاکستان میں طلباء کا نصابِ تعلیم تیار کرتے۔ نئی نسل کو اسلام اور پاکستان کے ہم آہنگ نظریات سے آشنا کرا دیتے تو آج پاکستان دو حصوں میں تقسیم نہ ہوتا اور نہ ہی پاکستان اُن مشکلات میں اُلجھ جاتا جن میں آج ہم سب گرفتار ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا تھا کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔ آج ہندو‘ یہود اور نصاریٰ ہی پاکستان کے سب سے بڑے دُشمن ہیں۔ بھارت ایک طرف مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے قتلِ عام میں مصروف ہے دوسری طرف اُس نے امریکہ اور اسرائیل سے ساز باز کر کے پاکستان کے خلاف سازشیں تیار ہوئی ہیں۔ پاکستان کا پانی بند کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں۔ اپنے ایجنٹوں اور ٹائوٹوں کو پالا جا رہا ہے لوگ بھارت کے ہندوئوں کے غلام بنائے جا رہے ہیں۔ حکمران پاکستان کو مضبوط بنانے کی بجائے ہر طرح ملک و قوم کو لوٹ رہے ہیں۔ اقتدار کے لئے 17 کروڑ عوام کے مفادات کا سودا کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں صنعتیں لگانے کی بجائے بیرونِ ملک صنعتیں لگائی جا رہی ہیں۔ پاکستانی خزانہ کے اربوں روپے کی لوٹ مار کر کے بیرون ملک جمع کرا دئیے گئے ہیں۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ۔ نئی نسل کی تربیت کر رہا ہے اُنہیں ایسی مکروہ سیاست سے دور رکھنے اور محبِ وطن نظریات پر قائم رہ کر تعمیرِ ملت اور پاکستان کی تربیت دی جا رہی ہے۔ محبِ وطن شہریوں کو چاہئے کہ وہ پاکستان کے ہر ضلع‘ ہر شہر میں ٹرسٹ کی شاخیں قائم کر کے نظریۂ پاکستان کی ترویج و اشاعت میں حصہ لیں۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے نظریہ پاکستان کو سکولوں اور کالجوں کے نصاب کا حصہ بنا دیا ہے۔
اس وقت جبکہ عدلیہ مکمل آزاد ہے اور میڈیا کے مستعد و متحرک کردار کی وجہ سے ملک کے عوام بھی باشعور ہو چکے ہیں اور قانون و آئین کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کیلئے عدلیہ کی پشت پر کھڑے ہیں،حکومت کی جانب سے اپنی خواہشات پر مبنی آئین و قانون سے متجاوز اقدام کرنا اور عدلیہ کے ساتھ ٹکرائو مول لینا فی الواقع سیاسی خودکشی کرنے کے مترادف ہے اس کے باوجود سے صدر آصف علی زرداری نے اپنے نادان مشیروں کے نرغے میں آ کر ججوں کے تقرر کے ایشو پر عدلیہ سے ٹکرائو کا راستہ اختیار کیا جس پر حکومتی اتحادی جماعتیں ہی نہیں، خود حکمران پیپلز پارٹی کے قائدین بھی حیران و پریشان ہیں کہ بیٹھے بٹھائے ’’آ بیل مجھے مار‘‘ کی دعوت کیوں دی گئی ہے جبکہ اس اقدام سے حکومت کے ساتھ ساتھ پورے جمہوری نظام کو سخت خطرات سے دوچار کردیا گیا ہے۔
متذکرہ نوٹیفکیشن کے اجراء کے ساتھ ہی چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ خواجہ محمد شریف اور مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے جرأت انکار کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس طرح فوری طور پر اس نوٹیفکیشن کو قبول نہ کرنے اور حلف نہ اٹھانے کا اعلان کیا اس سے مہم جوئی کے شوق میں مبتلا نادان حکومتی مشیروں پر یہ حقیقت واضح ہو جانی چاہئے کہ ملک میں قانون و آئین کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کیلئے اس وقت پوری عدلیہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے ساتھ کھڑی ہے اور حکومت یا حکومتی مشینری کے کسی کل پرزے کو کسی غیر قانونی یا غیر آئینی اقدام کی اجازت نہیں دے گی۔ جبکہ اب سسٹم کو بچانے کی خاطر موجودہ حکمرانوں کیلئے فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ قبول و برداشت کرنے والے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کیلئے بھی حکومتی اقدامات کی حمایت کرنا ممکن نہیں رہا اور گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے ہنگامی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے حکومت کو باور کرایا ہے کہ اس نے عدلیہ کے ساتھ ٹکرائو مول لے کر انتہائی خطرناک راستہ اختیار کیا ہے جبکہ ہم اداروں کی بالادستی کیلئے اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے دو روز قبل بھی اسلام آباد میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کے موقع پر انہیں باور کرایا تھا کہ وہ ججوں کے تقرر کے لئے چیف جسٹس پاکستان کی سفارشات کو عملی جامہ پہنائیں اس کے باوجود حکومت نے عدلیہ کے ساتھ ٹکراؤ کا راستہ اختیار کیا جو موجودہ حالات میں اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ این آر او کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد سے گریز کر کے حکومت کی جانب سے پہلے ہی عدلیہ کے ساتھ ٹکراؤ کا عندیہ دیا جا رہا تھا جس پر چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری نے بنک آف پنجاب کے کیس کی سماعت کے دوران باور کرایا کہ عدالتی فیصلہ کا احترام نہ کرنے والوں کو سلاخوں کے پیچھے جانا پڑے گا اس کے باوجود اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر کے لئے آئین اور الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلہ میں متعین کئے گئے پیرامیٹرز سے ہٹ کر حکومت نے اپنی من مرضی سے لاہور ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کے لئے جسٹس میاں ثاقب نثار اور سپریم کورٹ کی خالی اسامی پر جسٹس خواجہ محمد شریف کے تقرر کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جو چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری کی جانب سے بھجوائی گئی سفارشات کے قطعی برعکس اقدام تھا۔ آئین کی دفعہ 177 کے تحت اعلیٰ عدلیہ بشمول ہائیکورٹس و سپریم کورٹ کے لئے صرف چیف جسٹس پاکستان کی مشاورت سے ہی ججوں کا تقرر عمل میں لایا جا سکتا ہے جبکہ الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلہ کے تحت اعلیٰ عدلیہ میں جج کی خالی اسامی یا اسامیوں پر ایک ماہ کے اندر اندر تقرر عمل میں آنا ضروری ہے۔ اس کیس کے فیصلہ کے تحت تقرر کے لئے سنیارٹی کا اصول صرف ہائیکورٹ میں چیف جسٹس حضرات کے تقرر کے معاملہ میں وضع کیا گیا ہے اور سپریم کورٹ نے اپنے 2002ء کے ایک فیصلہ میں الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے قرار دیا ہوا ہے کہ سپریم کورٹ میں صرف سنیارٹی کی بنیاد پر کسی جج کا تقرر ضروری نہیں۔ اس کے باوجود حکومت نے الجہاد ٹرسٹ کیس کو بنیاد بنا کر چیف جسٹس پاکستان کی سفارشات کے قطعی برعکس سنیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس خواجہ محمد شریف کے بطور جج سپریم کورٹ تقرر کا نوٹیفکیشن جاری کردیا اور اسی نوٹیفکیشن میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس میاں ثاقب نثار کو بطور قائم مقام چیف جسٹس تعینات کرنے کے احکام جاری کئے جو بذات خود الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلہ کے منافی اقدام تھا کیونکہ اس فیصلہ میں سپریم کورٹ واضح طور پر قرار دے چکی ہے کہ چیف جسٹس کی خالی ہونیوالی آسامی پر قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر عمل میں نہیں لایا جاسکتا۔ جبکہ متذکرہ نوٹیفکیشن کی بنیاد پر حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلہ‘ چیف جسٹس پاکستان کی سفارشات اور آئین پاکستان کی بیک وقت خلاف ورزی کی ہے جس کی بنیاد پر آئینی ماہرین کی یہ آراء بھی سامنے آچکی ہیں کہ اس اقدام پر نوٹیفکیشن جاری کرنے والوں کے خلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت بھی کارروائی ہوسکتی ہے اور آئین کی دفعہ 62-63 کے تحت انہیں اسمبلی اور سینٹ کی رکنیت سے نااہل بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس طرح حکومت نے بیٹھے بٹھائے اپنے خلاف نئے قانونی، آئینی اور سیاسی محاذ کھول لئے ہیں جبکہ یہ صورت حال حکومت کے ساتھ ساتھ پورے سسٹم کی بساط لپیٹے جانے پر بھی منتج ہوسکتی ہے۔
یہ اچھی بات ہے کہ حکومت نے اپنی من مرضی سے ججوں کے تقرر کے معاملہ میں پسپائی کے بعد مزید حماقت سے گریز کیا جیسا کہ ملک میں جرنیلی آمر مشرف کی طرح ایمرجنسی نافذ کرنے کی افواہیں زیر گردش تھیں۔ حکومت کی جانب سے اب عدالت عظمیٰ کے روبرو ججوں کے تقرر کے معطل شدہ نوٹیفکیشن کے دفاع کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اس کا حق ہے۔ اب اس حد تک ہی رہا جائے‘ مزید مہم جوئی سے گریز کیا جائے اور اس کیس کے علاوہ دوسرے مقدمات بشمول این آر او کیس میں بھی عدالتی فیصلوں کا احترام کیا جائے تو سسٹم کو نقصان پہنچنے سے بچایا جاسکتا ہے۔ورنہ قانون و آئین کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کیلئے عدلیہ ہی نہیں، پوری قوم، سول سوسائٹی اور قومی سیاسی قائدین بھی متحد ہیں۔سپریم کورٹ کے تمام فاضل ججز دیگر سٹیشنوں سے سپریم کورٹ اسلام آباد میں آچکے ہیں‘ اٹارنی جنرل پاکستان قاضی منصور کی چیف جسٹس پاکستان سے مفصل ملاقات بھی ہو چکی ہے۔ وکلاء تنظیمیں لائن آف ایکشن کیلئے سرگرم ہو چکی ہیں اور متعدد سیاسی جماعتیں حکومت کے ماورائے آئین اقدام کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر چکی ہیں۔ وہ سسٹم کو بچانے کے نام پر کسی کے آمرانہ رویوں کو برداشت کریں گے نہ کسی کو ماورائے آئین وقانون اقدامات کی اجازت دیںگے، صدر زرداری نے جن نادان مشیروں کے کہنے پر متذکرہ نوٹیفکیشن جاری کیا، انہیں وہ اپنی پہلی ہی فرصت میں فارغ کردیں کیونکہ وہ ان کے اور سسٹم کے ہر گز خیرخواہ نہیں ہیں۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا یہ کہنا کہ عدلیہ کا مسئلہ کشمیر جیسا نہیں کہ حل نہ ہوسکے، ان دونوں اہم قومی ایشوز پر ان کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ انہیں آئین کے تحت ججوں کے تقرر کا ہی نہیں، یو این قراردادوں کے مطابق کشمیر کا مسئلہ بھی بہرصورت حل کرانا ہے۔
نظریۂ پاکستان کانفرنس کی قومی اہمیت
ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان میں سہہ روزہ ’’نظریہ پاکستان کانفرنس‘‘ ختم ہو گئی اِسکی نویں اور آخری نشست سے خطاب کرتے ہوئے صوبہ سرحد کے گورنر اویس احمد غنی نے کہا کہ ابھی جنگ ختم نہیں ہوئی دُشمن طاقتیں نیا محاذ کھولنے کیلئے پر تول رہی ہیں۔ صوبہ سرحد کے لوگ دل و جان سے پاکستانی ہیں اور ہم پاکستان کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ گورنر اویس احمد غنی نے کہا کہ ہماری نوجوان نسل بڑی ذہین ہے لیکن ہم بڑوں سے یہ غلطی ہوئی کہ ہم پاکستان کی سوچ اور نظریہ اِن تک ٹھیک طرح سے نہیں پُہنچا سکے مقامِ شکر ہے کہ اب یہ فریضہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ بہ طریقِ احسن انجام دے رہا ہے۔ سہہ روزہ نظریۂ پاکستان کانفرنس کی روزانہ تین تین نشستیں منعقد ہوئیں اِن میں گورنر سرحد کے علاوہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بھی ایک نشست کی صدارت کی اور اِس طرح باقی نشستوں میں بھی نامور زعماء پاکستان شریک ہوئے اور اُنہوں نے حاضرین طلباء و طالبات اور پاکستان کے ممتاز دانشوروں سیاسی لیڈروں کارکنوں اور باشعور عوام سے براہِ راست خطاب کیا اُنکے سوالات کے جواب دئیے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین اور نامور اخبار نویس جناب مجید نظامی بھی ہر نشست میں موجود رہے۔ نظرۂ پاکستان ٹرسٹ۔ اُس کمی کو پورا کر رہا ہے جو پاکستان بننے کے فوری بعد پاکستان کے برسرِ اقتدار تحریک پاکستان کے کارکنان کو کرنا چاہئے تھا۔ بابائے قوم کو تو اتنا وقت نہیں مِل سکا۔
قائدِ ملت لیاقت علی خان‘ شہید ہو گئے۔ اور اِسکے بعد قائداعظمؒ کی مسلم لیگ‘ اقتدار کے ایسے کھیل میں بٹ گئی جس میں نئی نسل کو کسی نے یہ سمجھایا ہی نہیں کہ تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کا محرک کیا جذبہ تھا۔ پاکستان بنانے کے لئے قائداعظمؒ کی زیر قیادت ہم کو کن لوگوں سے لڑنا پڑا۔ اور مسلمانوں نے کیا کیا قربانیاں دیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی سالمیت کے کیا تقاضے ہیں۔ ہماری نئی نسل کو یہ علم ہی نہیں کہ ہندو لیڈرشپ کی کیا نفسیات ہے اور یہ مکار‘ عیار اور دغا باز کِس طرح مسلمانوں کے دُشمن ہیں۔ اگر پاکستان کے قیام میں کام کرنے والے اور بابائے قوم کے صحبت یافتہ سیاسی لیڈر۔ اُس وقت نئی نسل کو نظریۂ پاکستان کا فلسفہ سمجھا دیتے۔ ہم اِس نظریہ کی روشنی میں پاکستان میں طلباء کا نصابِ تعلیم تیار کرتے۔ نئی نسل کو اسلام اور پاکستان کے ہم آہنگ نظریات سے آشنا کرا دیتے تو آج پاکستان دو حصوں میں تقسیم نہ ہوتا اور نہ ہی پاکستان اُن مشکلات میں اُلجھ جاتا جن میں آج ہم سب گرفتار ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا تھا کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔ آج ہندو‘ یہود اور نصاریٰ ہی پاکستان کے سب سے بڑے دُشمن ہیں۔ بھارت ایک طرف مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے قتلِ عام میں مصروف ہے دوسری طرف اُس نے امریکہ اور اسرائیل سے ساز باز کر کے پاکستان کے خلاف سازشیں تیار ہوئی ہیں۔ پاکستان کا پانی بند کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں۔ اپنے ایجنٹوں اور ٹائوٹوں کو پالا جا رہا ہے لوگ بھارت کے ہندوئوں کے غلام بنائے جا رہے ہیں۔ حکمران پاکستان کو مضبوط بنانے کی بجائے ہر طرح ملک و قوم کو لوٹ رہے ہیں۔ اقتدار کے لئے 17 کروڑ عوام کے مفادات کا سودا کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں صنعتیں لگانے کی بجائے بیرونِ ملک صنعتیں لگائی جا رہی ہیں۔ پاکستانی خزانہ کے اربوں روپے کی لوٹ مار کر کے بیرون ملک جمع کرا دئیے گئے ہیں۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ۔ نئی نسل کی تربیت کر رہا ہے اُنہیں ایسی مکروہ سیاست سے دور رکھنے اور محبِ وطن نظریات پر قائم رہ کر تعمیرِ ملت اور پاکستان کی تربیت دی جا رہی ہے۔ محبِ وطن شہریوں کو چاہئے کہ وہ پاکستان کے ہر ضلع‘ ہر شہر میں ٹرسٹ کی شاخیں قائم کر کے نظریۂ پاکستان کی ترویج و اشاعت میں حصہ لیں۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے نظریہ پاکستان کو سکولوں اور کالجوں کے نصاب کا حصہ بنا دیا ہے۔