عبداللہ خان سڈنی سے لکھتے ہیں "اکرم چودھری صاحب السلام علیکم امید ہے آپ خیریت سے ہونگے۔ میں یہاں حصول تعلیم کے سلسلے میں موجود ہوں۔ کئی سال تک لاہور میں پڑھتا رہا ہوں اور اب اعلی تعلیم کے لیے آسٹریلیا میں موجود ہوں۔ میں جب سے آیا ہوں تو اپنے لوگوں کا آسٹریلیا کے لوگوں کے رویوں اور طرز زندگی کے بارے میں سوچتا اور موازنہ کرتا رہتا ہوں۔ مجھے شدید حیرت ہے کہ ہم پاکستان میں میں جن باتوں کو نہایت معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں یا جن باتوں یا جن معاملات پر ہم توجہ بھی نہیں دیتے آسٹریلیا میں لوگ کس حد تک روزمرہ طرح کے معاملات میں ان باتوں پر سختی سے کاربند ہیں۔ میں ایک مرتبہ امریکا بھی جا چکا ہوں ہو میرا بھائی بھائی تعلیم کے سلسلے میں ایک مرتبہ انگلینڈ گیا اور ان دنوں وہ ابھی یہاں سڈنی میں میرے ساتھ تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ بڑے دکھ سے لکھ رہا ہوں کہ پاکستان میں لوگوں کی اکثریت روز مرہ کے معاملات میں جس بداخلاقی،بددیانتی،بدتہذیبی،جھوٹ، غیبت اور بے حسی کا مظاہرہ کرتی ہے اسے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب کبھی ملک مین سیلاب یا زلزلے آتے ہیں یا ہم کسی قدرتی آفت کا شکار ہوتے ہیں تو پاکستانیوں کا ایثار و قربانی کا جذبہ بھی دیدنی ہوتا ہے۔ شاید یہ دنیا میں اپنی مثال آپ ہو لیکن عام زندگی میں یا جب حالات معمول پر ہوں تو جس بے رحمی سے ہم اپنے مسلمان بھائیوں کا گلا گھونٹتے یا ان کی مجبوری و بے بسی سے فائدہ اٹھاتے ہیں یہ ظلم بھی دنیا میں شاید کہیں کو دیکھنے کو نہ ملے۔
میں اپنے ہموطنوں کے سامنے اس ای میل کے ذریعے ایک واقعہ بیان رکھنا چاہتا ہوں۔ یہ ایک کوشش ہے کہ شاید آنے والے دنوں میں ہم بہتر اخلاقی رویوں کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ہم اسلام کی کی حقیقی روح کے مطابق لوگوں کا خیال کر سکیں، ناجائز منافع خوری سے بچیں، کسی کی حق تلفی نہ کریں، کسی کو غلط کام پر مجبور نہ کریں یا کسی کو اندھیرے میں رکھ کر غیر ضروری فائدہ نہ اٹھائیں۔ ہم یہاں پر ایک کرائے کے مکان میں رہتے ہیں، ہماری مالکن ایک چائنیز خاتون ہیں، ہم چار لوگ ان کیمکان رہائش پذیر ہیں۔ ہمارا ایک پانچواں ساتھی بعد میں ہمارے ساتھ شامل ہوا تو ہم نے مکان کی مالکن سے اضافی کرائے کی بات کی۔ میں نے کہا کہ ہم پانچویں ساتھی کے شامل ہونے کے بعد پچاس ڈالر اضافی ماہانہ ادا کریں گے لیکن خاتون نے یہ جواب دے کر حیران کر دیا کہ پچاس ڈالر بہت زیادہ ہیں میں اتنے پیسے نہیں لے سکتی۔ کافی دیر بات چیت کرتے رہے لیکن وہ خاتون کسی صورت پچاس ڈالر لینے پر رضامند نہ ہوئیں۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ دس ڈالر اضافی لے سکتی ہوں۔ میں نے کہا کہ دس ڈالر بہت کم ہیں ہم آپ کو بیس ڈالر اضافی ادا کریں گے۔ خاتون بیت مشکل سے بیس ڈالر ماہانہ پر رضامند ہوئیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ کہا کہ دس ڈالر تو ماہانہ کرایہ ہے جبکہ دس ڈالر میں ہر ماہ جمع کرتی رہوں گی اور جب کبھی گھر میں کسی چیز کی ضرورت ہو یا کہیں مرمت کروانی ہو یا کوئی اور کام ہو تو ہم ان دس ڈالرز میں سے پیسے خرچ کریں گے۔
کہنے کو تو ایک معمولی سا واقعہ ہے لیکن یہ بہت بڑا سبق ہے۔ مکان کی مالکن بچاس ڈالرز سے زیادہ بھی تقاضا کر سکتی تھیں لیکن انہوں نے دس ڈالر پر اکتفا کیا۔ یہ ان کا اخلاقی معیار یا احساس ذمہ داری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہمیں حقیقی ترقی کے لئے ایسے ہی رویوں کی ضرورت ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ میرا یہ پیغام پاکستان کے لوگوں تک ضرور پہنچائیں گے تاکہ کہیں نہ کہیں کوئی تو اس سے ضرور سبق حاصل کرے گا۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کی بہتر اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے لوگوں کے اخلاقی معیار اور احساس ذمہ داری کو بہتر بنانے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تمام چیزیں عین اسلامی ہیں۔ ہمیں اسلام کی حقیقی روح اور جو پیغام ہمیں قرآن سے ملتا ہے اسے اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں جو سبق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ سے ملتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے ملتا ہے ہے انہیں اپنانے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے"۔
عبداللہ خان کا پیغام ہم نے قوم کے سامنے رکھا ہے اور یہ ای میل پڑھنیںکے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ ہم نے بہت ترقی کی ہے لیکن ہم نے اس ترقی میں اخلاقی پستی کی طرف سفر بھی بہت تیزی سے طے کیا ہے۔ آج پاکستان کو بے پناہ مسائل کا سامنا ہے باوجود اس کے کہ ہم بہت ساری چیزوں میں خود کفیل ہیں۔ اپنی ضرورت کی بہت ساری چیزیں ہم خود بناتے ہیں، خود اگاتے ہیں، غذائی ضروریات بارے ہمیں دنیا پر بہت زیادہ انحصار نہیں کرنا پڑتا۔ ہم غذائی معاملات میں خود کفیل ہیں۔ قیام پاکستان کے حالات یا اس کے بعد حالات کو دیکھیں تو ملک میں بہت بڑی تبدیلی نظر آتی ہے۔ معیار زندگی بہت بلند ہوا ہے۔ ہم ہر وقت لڑتے رہتے ہیں۔ یہ بھی کہتے رہتے ہیں کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا ہے۔ ہم اپنے حکمرانوں سے کم ہی خوش رہتے ہیں بھلے وہ کوئی فوجی حکمران ہو یا سیاسی حکمران ہو ہم ہر وقت گلے شکوے اور ناشکری کرنے میں آگے آگے رہتے ہیں۔ ہم ہر وقت دوسروں کو برا بھلا کہنے میں مصروف رہتے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو یہ سوچتے یا سمجھتے ہوں گے کہ ہم جس مقام پر ہیں کیا یہی مقام ہمارے لئے بہتر ہے یا ہمیں اس سے بہت بہتر جگہ پر ہونا چاہیے تھا۔ ہم نے اپنے ملک کی ترقی کا پیمانہ اور معیار شاید یہ بنا لیا ہے کہ کتنے پکے گھر ہیں، کتنی پکی سڑکیں ہیں کتنے بڑے شاپنگ مالز ہیں، کتنے بڑے بڑے ہوائی اڈے ہیں، فوڈ انڈسٹری کی بڑی بڑی کمپنیاں پاکستان میں کام کر رہی ہیں۔ مہنگے پرفیوم، مہنگے کپڑے یا جو دنیا کی ایجادات ہیں ہمارے پاس ہیں یا نہیں ہیں۔ ہم ان تمام مادی چیزوں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں کون سی گاڑیاں پاکستان میں ہیں کون سی نہیں ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں کون سی ایسی چیزیں پاکستان میں ہیں کون سی نہیں ہیں۔ ہم ان چیزوں میں الجھے ہوئے ہیں اور انہی چیزوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شاید آج عمومی طور پر پاکستان میں یہی سوچ ہے، شاید یہی ترقی ہے کہ آپ کتنے آسودہ ہیں کتنے اچھے کپڑے پہنتے ہیں، کتنی پرآسائش زندگی گزار رہے ہیں، کتنی آرام دہ گاڑیاں ہیں اور کتنے اچھے اچھے کھانے میسر ہیں۔
اگر ہم ان چیزوں کو دیکھتے ہیں تو اس معاملے میں پاکستان اتنا پیچھے نہیں ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ قلم اور کتاب کے معاملے میں انصاف نہیں کر پائے یا تحریر و تحقیق کے معاملے میں وہ کام نہیں کر پائے جو کرنا چاہیے تھا ناانصافی اور مناسب کے باوجود ان دونوں شعبوں میں بھی پاکستان میں بہت بڑے بڑے نام اور بڑی بڑی شخصیات نے ملک و قوم کا نام روشن کیا ہے۔ بہتر زندگی کی ضروریات یا اعلی طرز زندگی، بے پناہ ترقی کے باوجود بھی ہم دنیا سے پیچھے کیوں ہیں۔ ہم دنیا کا مقابلہ کیوں نہیں کر پا رہے بدقسمتی سے اس حوالے سے حکومتی سطح پر نہ تعلیمی اداروں میں اس طرف توجہ دی جاتی ہے۔ وہ مذہبی تعلیمی ادارے ہیں یا وہ دنیاوی تعلیم کے ادارے ہیں۔ ڈگری ہولڈرز کی تعداد تو بڑھ گئی لیکن اخلاقی اعتبار سے تاریخ کے بدترین دور اے گذر رہے ہیں۔ ہم بنیاد کو نظر انداز کر کے ایسے سفر پر دوڑ رہے ہیں جس کی کوئی منزل نہیں ہے ہم اس سفر میں تیزی اور اس شدت کے ساتھ لگے ہوئے ہیں کہ جو کبھی ہمیں منزل تک پہنچا ہی نہیں سکتا۔ ہم اس سمت میں کام کر رہے ہیں یا دوڑے چلے یا بھاگے جا رہے ہیں کہ یہ سفر کبھی ختم ہی نہیں ہو گا۔ گردنیں کاٹے جا رہے ہیں جانے کیا کچھ کر رہے ہیں لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ منزل ہماری کیا ہے۔ جب اپنی منزل کا علم نہیں ہے جو مرضی کر لیں کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ہم دو تین دھائیاں پیچھے چلے جائیں تو ہمارے معاشرے میں عزت احترام، شرم و حیا، رواداری، حسن سلوک اور بہت سی خوبیاں موجود تھیں۔ یہ ہمارے بزرگوں ہمارے آباؤ اجداد کی وراثت تھی۔ انہوں نے آنے والی نسلوں کی تربیت کس انداز میں کی کہ جھوٹ نہیں بولنا، ظلم برداشت نہیں کرنا، مظلوم کا ساتھ دینا ہے، محلے میں سب کا خیال رکھنا ہے، بہن بھائیوں کے ساتھ اچھے رویے رکھنے ہیں، ہمسایوں کا رشتہ داروں سے بڑھ کر خیال کرنا ہے، بددیانتی نہیں کرنی لیکن جیسے جیسے ہم اپنی بنیاد سے ہٹتے گئے،جیسے جیسے ہم مذہب کے فلسفے سے دور ہوتے گئے اپنے آباؤ اجداد کی روایات، ان کے طرز زندگی کو بھلاتے چلے گئے ہم اخلاقی طور پر کمزور ہوتے چلے گئے آج تمام برائیوں سے بڑھ کر اخلاقی کمزوری ہے اخلاقی زوال ہی ہمارے زوال کی سب سے بڑی وجہ ہے جب تک ہم اخلاقی طور پر مضبوط نہیں ہوں گے بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024