پی آئی سی پر وکلاء کے حملے پر ہائیکورٹ کی برہمی‘ وکلاء کے احتجاجی مظاہرے اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدور کا جوڈیشل انکوائری کا تقاضا
لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں عدالت عدلیہ کے ڈویژن بنچ نے پی آئی سی حملے میں گرفتار وکلاء کی رہائی کیلئے دائر کردہ چار مختلف درخواستوں کی سماعت کے دوران گزشتہ روز وکلاء کے اس حملے کا سخت نوٹس لیا اور درخواست دہندگان کے وکیل اعظم نذیر تارڑ کو باور کرایا کہ آپ نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا‘ اس طرح تو جنگوں میں بھی نہیں ہوتا‘ ہم بڑی مشکل سے اس کیس کی سماعت کررہے ہیں‘ وکلاء نے جو کیا وہ جنگل کا قانون ہے۔ گزشتہ روز دوران سماعت اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے فاضل عدالت کو بتایا کہ اب تک 81 وکلاء کو گرفتار کیا جاچکا ہے جنہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ہم کوئی بھارت سے جنگ لڑنے نہیں آئے۔ اس پر فاضل جج مسٹر جسٹس علی باقر نجفی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ نے ہسپتال پر حملہ کیا‘ وکلاء کو ہسپتال پر حملہ کرنے کی جرأت کیسے ہوئی‘ کیا آپ وضاحت دے سکتے ہیں کہ حملہ کیوں کیا گیا۔ فاضل بنچ کے رکن جسٹس انورالحق پنوں نے درخواست دہندگان کے وکلاء سے استفسار کیا کہ آیا اسکی بھی توقع ہے کہ کوئی بار کونسل اس پر کوئی کارروائی کرے۔ اس پر اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم نے ٹی وی پروگرامز میں اس واقعہ کی مذمت کی ہے۔ جسٹس باقر نجفی نے باور کرایا کہ آپ کے پروفیشن میں کالی بھیڑیں ہیں‘ آپ کواندازہ ہی نہیں کہ ہم کس دکھ میں ہیں۔ اگر آپ کہتے ہیں تو ابھی اس کیس کو ٹرانسفر کردیتے ہیں‘ دکھ اس بات کا ہے کہ آپ اس پر وضاحت دے رہے ہیں۔ اس پر اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ ہم وکلاء کیخلاف کارروائی کرنے جارہے ہیں۔ اس موقع پر جسٹس انورالحق پنوں نے سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بڑی عجیب سی ہے جس میں کہا گیا کہ یہ ڈاکٹر کی موت ہے۔ فاضل عدالت نے وکلاء کی گرفتاریوں پر پولیس سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 16 دسمبر تک ملتوی کر دی جبکہ بنچ کے فاضل رکن مسٹر جسٹس انوارالحق پنوں نے ان درخواستوں کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے فائل چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بھجوا دی۔
دریں اثناء پی آئی سی واقعہ کے حوالے سے وکلاء کے ایک وفد نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے ملاقات کی اور ان سے عدالت عالیہ کا نیا بنچ تشکیل دینے کی استدعا کی۔ اسی طرح وکلاء جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران نے لاہور ہائیکورٹ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی سے ملاقات کرکے وکلاء کی ہڑتال کے باعث ان سے عدالتی امور روکنے کی استدعا کی جس پر فاضل جج نے انہیں باور کرایا کہ عدالت اپنا کام جاری رکھے گی۔ انہوں نے وکلاء کو مشورہ دیا کہ سینئر اور نوجوان وکلاء پھول لے کر پی آئی سی جائیں اور ڈاکٹرز کو گلے لگا کر معاملہ حل کریں۔ وکلاء پڑھا لکھا طبقہ ہے‘ آپ اپنا اچھا تاثر دیں۔ اس موقع پر وکلاء نے ہڑتال کے باعث عدالت میں پیش نہ ہونے والے اپنے ساتھی وکلاء کے مقدمات عدم پیروی کی بنیاد پر خارج نہ کرنے کی استدعا کی جس پر فاضل جج نے انہیں باور کرایا کہ کوئی وکیل پیش نہیں ہونا چاہتا تو اسکی مرضی۔ مقدمات عدم پیروی پر خارج نہیں کئے جائینگے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر وکلاء کے 11 دسمبر کے حملے سے وکلاء برادری اور پیشۂ وکالت کا تقدس بری طرح مجروح ہوا ہے جس کا ازالہ اب قانون و انصاف کی عملداری سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس افسوسناک واقعہ کے حوالے سے جو بھی توجیہات پیش کی جائیں اس سے ہسپتال پر حملے کا جواز نہیں نکل سکتا اس لئے اب زیادہ مناسب یہی ہے کہ وکلاء تنظیمیں‘ انکے عہدیداران اور سینئر وکلاء اس حملے کا دفاع کرنے کے بجائے اس کیس کو قطعی انجام تک پہنچانے کیلئے قانون و انصاف کے متعلقہ اداروں کی معاونت کریں اور اپنی صفوں میں تطہیر کا عمل شروع کریں تاکہ آئین و قانون کے رکھوالوں پر آئندہ ایسا کوئی داغ نہ لگ سکے اور ملک میں طاقتور اور عام آدمی کیلئے الگ الگ قانون و انصاف کا تصور زائل ہو۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ وکلاء تنظیموں اور سینئر وکلاء تک نے ہسپتال پر حملے کی مذمت کے بجائے اس حملے کے دفاع میں مختلف تاویلیں پیش کرنا اور جواز نکالنا شروع کر دیئے اور پھر گرفتار وکلاء کی رہائی کیلئے ملک بھر میں ہڑتالوں‘ عدالتی بائیکاٹ اور جلوس نکالنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جس سے ماحول میں پیدا ہونیوالی تلخی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھنے کا اندیشہ لاحق ہے۔ حد تو یہ ہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدور اور نامور وکلاء حامد خان‘ جسٹس (ر) ملک محمد قیوم‘ میاں اسرارالحق اور شمیم الرحمان نے بھی ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں گرفتار وکلاء کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے مقامی پولیس اور انتظامیہ کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور حملے کا یہ جواز پیش کیا کہ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس کے وکلاء پر تشدد سے یہ معاملہ شروع ہوا تھا۔ انہوں نے پی آئی سی کے واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کا تقاضا کرتے ہوئے میڈیا کو بھی موردالزام ٹھہرایا کہ وہ صرف تصویر کا ایک رخ دکھا رہا ہے اور ڈاکٹروں نے وکلاء کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اور اب گرفتار وکلاء کو جس طرح تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے‘ میڈیا کی آنکھ اس طرف نہیں جاتی۔
بے شک انہوں نے پی آئی سی کے واقعہ پر افسوس اور جاں بحق افراد کے اہلخانہ سے تعزیت کا اظہار بھی کیا اور ان سے معافی بھی مانگی مگر انہوں نے ساتھ ہی ساتھ پی آئی سی پر دھاوا بولنے والے وکلاء کا دفاع کرنا بھی ضروری گردانا۔ اسی بنیاد پر گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ کے فاضل جج نے برہمی کا اظہار کیا کہ وکلاء کے اس اقدام کے جواز نکالے جارہے ہیں۔ اس واقعہ میں پولیس اور انتظامیہ کی کوتاہی اپنی جگہ ہے جس پر مفصل چھان بین کی ضرورت ہے اور اس معاملہ میں جوڈیشل انکوائری کرائی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں تاکہ اسکے پس پردہ محرکات سامنے آسکیں کہ وکلاء کی پی آئی سی پر حملہ کیلئے صف بندی کی اطلاع ملنے اور سیف سٹی کے کیمروں کے ذریعے وکلاء کی ہائیکورٹ سے پی آئی سی تک دوران جلوس اشتعال انگیز گفتگو اور حرکات و سکنات کا مشاہدہ کرنے کے باوجود انہیں راستے میں روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی اور اسی طرح پی آئی سی کی حفاظت کے خصوصی انتظامات کیوں نہ کئے گئے۔ اسی طرح جوڈیشل انکوائری میں ڈاکٹروں اور وکلاء کی جانب سے دوطرفہ اشتعال انگیزی میں اضافہ کیلئے جاری کی گئی ویڈیوز کے پس پردہ مقاصد کا بھی کھوج لگایا جاسکتا ہے جس سے آئندہ کیلئے ایسے واقعات کا سدباب کیا جاسکتا ہے تاہم انتظامیہ اور پولیس کی غفلت اور فریقین کے اشتعال انگیز اقدامات کو جتھہ بند ہو کر ہسپتال پر حملے کا جواز نہیں بنایا جا سکتا جہاں دکھی انسانیت پہلے ہی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہوتی ہے۔
اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ متذکرہ واقعہ کی بنیاد پر ڈاکٹروں نے بھی ہسپتال بند کرکے‘ ہڑتال کرکے اور مریضوں کی دیکھ بھال روک کر کوئی قابل فخر کارنامہ سرانجام نہیں دیا جبکہ ان کا مقدس پیشہ تو ان سے انکے بدترین دشمن کے علاج معالجہ میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھنے کا متقاضی ہوتا ہے۔ وکلاء برادری نے تو عذر گناہ بدتر ازگناہ کے مصداق عدالتوں کے بائیکاٹ اور مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کرکے اور جلوس نکالنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا جو ہنوز جاری ہے۔ اس سے لامحالہ ملک میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کا تصور مجروح ہوتا ہے اور جس کی لاٹھی اسکی بھینس کا تاثر پختہ ہوتا ہے جبکہ عدل گستری کی گاڑی کا اہم کل پرزہ ہونے کے ناطے قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری میں وکلاء کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ اگر وہ خود ہی قانون ہاتھ میں لے کر اتھل پتھل ایجنڈے کی تکمیل پر جت جائینگے تو اس معاشرے کو کیسے انصاف کی بنیادوں پر کھڑا کیا جاسکے گا۔
اس معاملہ میں یقیناً تطہیر کا عمل شروع کرنے کی ضرورت ہے جس میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں پیدا ہونیوالی اضطراب اور بے چینی کی کیفیت کے پس پردہ محرکات کا ٹھوس بنیادوں پر جائزہ لیا جائے اور اس اضطراب‘ بے چینی اور اشتعال انگیزی کا باعث بننے والے عوامل کے تدارک کی متقاضی اصلاحات کا عمل شروع کر دیا جائے‘ بصورت دیگر ہمارے معاشرے کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے اور خانہ جنگی کی نوبت لانے سے ہرگز نہیں بچایاجا سکے گا۔ اس کیلئے وکلائ‘ ڈاکٹروں اور دوسرے روزگار و کاروبار سے وابستہ افراد کو اخلاقی قدروں کی پاسداری کرنے اور قانون کا پابند بنانے کیلئے منظم تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بحیثیت قوم ہم اخلاقی انحطاط کا شکار ہوتے قعرمذلت میں جاگریں۔ خدارا! اب پی آئی سی کے واقعہ سے ہی سبق حاصل کرکے سدھار کا کوئی راستہ نکال لیں جو ہماری آج کی بنیادی ضرورت ہے۔