انتہا پسندانہ ہندو سوچ کا واضح اظہار

بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں لوک سبھا سے تارکینِ وطن کی شہریت سے متعلق متنازعہ ترمیمی بل کثرتِ رائے سے منظور ہو چکا ہے۔ متنازعہ شہریت بل پر بھارتی ایوان میں شدید ہنگامہ ہوا جبکہ کانگریسی رہنما ششی تھرور نے کہا’’ شہریت ترمیمی بل کی منظوری گاندھی پر قائداعظم محمد علی جناح کی سوچ کی جیت ہے۔ یہ مجوزہ بل بھارتی آئین کے بنیادی اصولوں کے خلاف جاتا ہے اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو یہ گاندھی پر قائداعظم کے افکار کی جیت ہوگی‘‘۔ اس مسودہ قانون کے تحت بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے انڈیا آنے والے ہندو، بودھ، جین، سکھ، مسیحی اور پارسی مذہب سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دینے کی تجویز دی گئی ہے لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ بھارت کے مسلم رکنِ پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے بل کی مخالفت کی اور اس کی کاپی پھاڑ دی، ان کا کہنا تھا کہ بل میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر یہ بتایا جائے کہ مسلمانوں کے خلاف اتنی نفرت کیوں ہے؟ انھوں نے کہا کہ حکمران جماعت بی جے پی کی جانب سے اس بل کو لانے کا مقصد بنگالی ہندوؤں کے ووٹ حاصل کرنا ہے۔ یہ مسودہ قانون ہٹلر کے قوانین سے بھی زیادہ برا ہے۔
بھارت میں جب سے انتہاپسند ہندو نریندر مودی نے دوسری بار عنان اقتدار سنبھالی ہے وہاں رہنے والے45کروڑ مسلمانوں کیلئے زندگی مزید دوبھر ہو گئی ہے۔ یہ قانون سازی ’ہندوراشٹرا‘ کے تصور کو عملی شکل دینے کی طرف ایک اور بڑا قدم ہے۔ اس تصور کی تعبیر کیلئے دائیں بازو کے ہندو رہنما کئی دہائیوں سے سرگرم عمل ہیں۔ یہ’ ’ہندتوا‘ ‘کی انتہا پسندانہ سوچ اور خطے میں تسلط پسندانہ خیالات کا زہریلا ملاپ ہے۔ یہ مذہب کی بنیاد پر ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا واضح اظہار ہے۔ بھارت کی جانب سے خود کو ہمسایہ ممالک میں ستائی ہوئی اقلیتوں کا گھر ظاہر کرنے کے دعوے بھی انتہائی قابل مذمت ہیں۔ گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام، سمجھوتہ ایکسپریس کے سانحہ، گائے کے محافظ جتھوں کے ہاتھوں لاتعداد لوگوں کاقتل، گھرواپسی اور ایسی ہی کئی دوسری شروع کی گئیں بدنام زمانہ سکیموں کے علاوہ مسیحیوں، سکھوں، جین اوردلت جیسے نچلی ذات کے ہندووں پر بہیمانہ تشدد انتہاپسند ہندو نظریات رکھنے والے حکمران طبقے کا اعزاز اورپہچان ہے۔ 80 لاکھ بے گناہ اور نہتے کشمیریوں پر ظلم وستم جاری ہیں، نو لاکھ سے زائد بھارتی قابض افواج ان پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہیں، یہ سب حقائق انتہا پسند بھارتی ذہن کی پوری طرح تشریح اور تعارف پیش کرتے ہیں۔ بھارتی قانون سازی نے ایک بار پھر بھارتی ’جمہوریت‘ اور ’سیکولرازم‘ کے کھوکھلے دعووئوں کو بے نقاب کردیا ہے۔ اکثریت کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے آر ایس ایس اور بی جے پی کی دیگر عقائد کے لوگوں کو نکال باہر پھینکنے والی سوچ پوری دنیا کے سامنے آچکی ہے اور مسلمانوں سے شدید نفرت کس درجے پر ہے، اس کا بھی واضح اظہار ہوچکا ہے۔
مودی حکومت کی جانب سے بھارتی پارلیمنٹ میں مسلم مخالف متنازعہ بل پیش کرنے اور اسے منظور کئے جانے کے معاملے پر وزیراعظم عمران خان نے ٹویٹ کی اور کہا کہ ہم لوک سبھا میں متنازعہ شہریت سے متعلق قانون سازی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ بھارتی لوک سبھا میں بل پاس کیا جانا انسانی حقوق کے تمام قوانین اور پاکستان کے ساتھ دوطرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ توسیع پسندی دراصل آر ایس ایس کے ہندو راشٹرا ڈیزائن کا ایک حصہ ہے جس کو فاشسٹ مودی سرکارکے پراپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا۔پاکستان کی قومی اسمبلی نے بھارتی لوک سبھا میں منظور کئے گئے متنازعہ شہریت بل کے خلاف مذمتی قراردادمتفقہ طور پر منظور کر لی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کا اقدام انسانی حقوق کے خلاف ورزی ہے، یہ بل فوری طور پر واپس لیا جائے۔ وفاقی کابینہ نے بھی لوک سبھا میں منظور کئے جانے والے متنازعہ شہریت بل کی شدید مذمت کرتے ہوئے قرار دیا کہ بھارت کے ایسے اقدامات نے اس کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کے غیرمسلم باشندوں اور تارکین وطن کو بھارتی شہریت دینے سے متعلق بھارتی لوک سبھا میں حالیہ قانون سازی جھوٹ اور دھوکے پر مبنی ہے اور یہ اقدام انسانی حقوق کے عالمی منشور اور ہر طرح کے امتیازات، مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر ہر قسم کے تعصبات کے خاتمے کیلئے بین الاقوامی معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ لوک سبھا کی قانون سازی پاکستان اور بھارت کے درمیان مختلف دوطرفہ معاہدوں بالخصوص دونوں ممالک کی اقلیتوں کے حقوق اور سلامتی سے متعلق معاہدے کی بھی صریحا خلاف ورزی ہے۔
بھارتی حکومت کی جانب سے شہریت کا متنازع بل منظور کرنے پر جہاں بھارت میں شدید احتجاج جاری ہے وہیں بین الااقوامی سطح پر بھی اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔بھارتی ہندو قوم پرست حکومت کے اس اقدام پر امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی آزادی مذہب نے ایک بیان میں اس بل کو ’غلط سمت میں خطرناک قدم‘ قرار دیا، ان کے مطابق مذکورہ بل اور مجوزہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزن کا مقصد بھارتی شہریت کے لیے مذہب جانچنا ہے اور اس سے لاکھوں مسلمانوں کی شہریت منسوخ کردی جائے گی۔ امریکی جریدے بلوم برگ نے بھی بھارت کی اصل صورتحال بے نقاب کردی۔ بلوم برگ کا رپورٹ میں کہنا ہے کہ بھارت پرنظریاتی جنونیوں کی حکومت ہے، تنقید کرنے پر ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے۔ بھارت کی سیاست اور سول سوسائٹی پرہندوبالادستی کی تحریک نے قبضہ کرلیا ہے، بھارت پرنظریاتی جنونی حکومت کررہے ہیں۔ بلوم برگ کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیرمیں چارماہ سے لاک ڈائون کرکے مسلمان اقلیت کواجتماعی سزادی جارہی ہے اور بھارت میں میڈیا،عدلیہ اورفوج جبرکا شکار ہیں۔امریکی جریدے کی رپورٹ کے مطابق مسلمان مخالف پروگرامزہوتے ہیں،حکومت پرتنقید کرنے والوں کی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے۔ مودی کی ہندوانتہا پسند اور متعصبانہ پالیسیوں کے باعث بھارتی معیشت طویل مدت کے خساریکی جانب گامزن ہے۔ مجوزہ قانون کی مخالفت میں بھارت کے مختلف شہروں میں مودی سرکار کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، مظاہرین نے مودی کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ آسام میں طلبہ کی جماعتوں کے ایک اتحاد نارتھ ایسٹرن سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے ریاست کے تقریبا تمام تعلیمی اداروں میں مظاہرہ کیا ۔
آسام میں کوئی ایسی یونیورسٹی نہیں جہاں دن میں مظاہرے اور رات میں مشعل کے ساتھ جلوس نہ نکل رہے ہوں۔ آسام کے رہائشیوں کے مطابق برسوں بعد اس قسم کے شدید مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ کھاسی طلبہ یونین کی کال پر ریاست میگھالیہ میں معمول کی زندگی مفلوج ہو گئی ہے۔ تعلیمی اداروں کے ساتھ دکانیں اور بازار بھی بند ہیں۔دیگر ریاستوں میں بھی نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ نریندرمودی کے حالیہ اقدامات سے بھارت بہت جلد ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیگا۔