فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کے گزشتہ اجلاس میں پاکستان کسی نہ کسی طور پر ملائیشیا، چین اور ترکی کی حمایت حاصل کر کے بلیک لسٹ ہونے سے بچ گیا تھا۔ لیکن یہ تلوار ابھی بھی ہمارے سروں پر لٹک رہی ہے اور فروری 2020 میں ہونے والے اجلاس میں ہمیں ایک بار پھر کٹہرے میں کھڑا ہونا ہے۔ اکثر معاملات میں پاکستان درست وقت پر اقدامات کرنے کی بجائے اس وقت کا انتظار کرتا ہے جب مصیبت سر پر آ جائے اور پھر ایک دم بھاگ دوڑ شروع ہو جاتی ہے جس میں تدبیر سے زیادہ قسمت پر بھروسہ کیا جاتا ہے۔ FATF جیسے اہم معاملے میں بھی پاکستان کا میڈیا اور حکام اس وقت سب کچھ بھولے ہوئے ہیں۔ اگلے برس فروری آنے کے ساتھ ہی ہر جانب شور اٹھ جائے گا۔ حالانکہ اگر ہم اکتوبر 2019 میں پاکستان کے بارے میں پیش کی جانے والی FATF کی رپوٹ دیکھیں اور اسمیں پیش کی گئی چالیس سفارشات (دوسرے الفاظ میں مطالبات) کا مطالعہ کریں جن کے متعلق ہمیں ممبر ممالک کو مطمئن کرنا ہے تو 2 ماہ کا باقی رہ جانے والا عرصہ کچھ بھی زیادہ نہیں لگتا۔
اس رپوٹ میں کچھ ایسی باتیں بھی کہی گئی ہیں جو ہمارے کچھ قومی اداروں کی کارگردگی پر سوالیہ نشان ڈالتی ہیں اور ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ مثال کے طور پر مذکورہ رپوٹ کے مطابق ’’سٹیٹ بنک آف پاکستان‘‘ کو منی لانڈرنگ اور ’’ٹیرر فنانسنگ‘‘ کے بارے میں مکمل اور واضح سمجھ اور دسترس حاصل نہیں ہے (صفحہ نمبر۵)۔ یہی بات SECP کے بارے میں بھی کہی گئی ہے۔ رپوٹ کے مطابق دہشتگردی کے ساتھ ساتھ پاکستان کو درپیش دوسرے اہم معاملات میں کرپشن، منشیات کا کاروبار، فراڈ، ٹیکس چوری،سمگلنگ اور منظم جرائم بھی شامل ہیں ہیں ( صفحہ نمبر۷)۔ رپوٹ میں ان سب چیزوں کے ذکر ہونے کا مطلب ہے کہ دو ماہ بعد ہونے والے اجلاس میں ان سب کے بارے میں پاکستان سے سوال کیا جائے گا۔ کیا ہم ان سب کا خاتمہ کر چکے ہیں یا انکے خاتمے کی جانب کم از کم اہم اور بڑے اقدامات کر چکے ہیں؟ بہر کیف رپوٹ اور اسمیں پیش کی جانے والی سفارشات لمبی چوڑی ہیں اور یہاں پر انکی تفصیلات میں نہیں جایا جا سکتا لیکن ایک بات عیاں ہے کہ پاکستان کا اس بارے میں اب تک کوئی جامع پروگرام اور تیاری نظر نہیں آ رہی۔
شاید پاکستان کا خیال ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری امن مذاکرات میں امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے اس لیے عین وقت پر امریکہ پاکستان کی مدد کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ میرے خیال میں افغان پالیسی میں بڑی تبدیلیوں کا وقت آ چکا ہے اورافغانستان کی وجہ سے امریکہ اور مغربی ممالک سے فوائد حاصل کرنے کی پالیسی اب تبدیل ہوتی دنیا میں بہت زیادہ عرصہ تک ہمیں فائدہ نہیں دے سکتی۔
FATFٖٖ کا بنیادی مقصد رشوت خوری ، منظم جرائم ، اور دیگر غیر قانونی ذرائع سے کمائے گئے پیسے کی غیر قانونی ترسیل اور خاص طور پر پیسے کی ایسے گروپوں کو ترسیل جو دنیا میں دہشت گردی پھیلا رہے ہوں کو روکنا اور اس مقصد کے لیے عالمی قوانین بنانا ہے۔ اس طرح اسکے مقاصد میں ایک اہم مقصد دہشت گردی کا سد باب بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ دہشت گرد گروپوں کو زندہ رہنے کے لیے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ پیسہ ان کو غیر قانونی ذرائع سے ہی ترسیل کیا جاتا ہے۔ اس وقت اس تنظیم کے 37 ارکان ہیں جن میں 35 ممالک اور دو علاقائی تنظیمیں ہیں۔ اسرائیل اور سعودی عرب اس تنظیم سے بطور ’’ مبصر‘‘ منسلک ہیں۔ پاکستان ایک ذیلی تنظیم ’’ ایشیا پیسیفک گروپ‘‘ (APG) کے ذریعے سے اس تنظیم سے وابستہ ہے۔ تنظیم کا طریقہ کار یہ ہے کہ ممبر ممالک کسی بھی ملک یا تنظیم کا نام جاری کیے جانے والی فہرستوں میں ڈالنے کی قرارداد پیش کرتے ہیں۔ اگر رکن ممالک میں سے کم از کم تین ممالک اس قرارداد کی مخالفت کریں تو یہ قرار داد مسترد ہو جاتی ہے۔یہ تنظیم دنیا کے ممالک اور مالیاتی اداروں کی چار اقسام میں درجہ بندی کرتی ہے۔ ایک فہرست ’’ بلیک لسٹ ‘‘ کہلاتی ہے۔ اس میں وہ ممالک ہوتے ہیں جو اس تنظیم کے خیال میں مناسب قانون سازی کے لیے دنیا اور عالمی اداروں سے ’’ عدم تعاون‘‘ کر رہے ہوں۔ یعنی دوسرے الفاظ میں جان بوجھ کر پیسوں کی سمگلنگ اور رشوت ستانی میں ملوث ہوتے ہیں۔ ایک ’’ گرے لسٹ‘‘ جس میں ان ممالک کے نام شامل ہوتے ہیں جو عدم تعاون تو نہیں کر رہے ہوتے لیکن انہوں نے اس سلسلے میں ناکافی قانون سازی کی ہوتی ہے اور ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد ایک ’’ واچ لسٹ‘‘ ۔ اس میں وہ ممالک ہوتے ہیں جن کے بارے میں ابھی مکمل طور پر کوئی فیصلہ نہیںکیا گیا ہوتا اور امکان ہوتا ہے کہ ان ممالک کے بارے میں حتمی فیصلہ اس تنظیم کے آنے والے اجلاس میں کیاجاتا ہے۔
گرے یا بلیک لسٹ میں نام کی شمولیت رکوانے کے لیے تو تین ممالک کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب ایک بار نام اس لسٹ میں شامل ہو جائے تو اس نام کو نکلوانے کے لیے کم از کم 15ممالک کی حمایت درکار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گرے لسٹ میں نام کی شمولیت کی وجہ سے پاکستان کو سالانہ تقریباََ دس بلین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے ۔ اگر خدانخواستہ پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کر دیا گیا تو یہ نقصان اس سے زیادہ ہو سکتا ہے۔
یہاں تصویر کا اک دوسرا رخ بھی ہے جو قابل غور ہے۔ کرپشن ہو یا سمگلنگ یاکوئی اور غیر قانونی کاروبار ، اس سے کمایا گیا پیسہ (بلیک منی) ’’ منی لانڈرنگ‘‘ کے ذریعے سے امریکہ، برطانیہ یا پھر کسی نہ کسی دوسرے ترقی یافتہ مغربی ملک کو ہی بھیجا جاتا ہے۔ اب اگر پاکستان ( یاکسی بھی دوسرے ملک سے) پیسہ ان ممالک میں جا رہا ہے تو ظاہر ہے کہ ان ممالک میں بھی منی لانڈرنگ کے نیٹ ورک موجود ہوتے ہیں جن کے ذریعے یہ پیسہ وصول کیا جاتا ہے ۔ بھارت سے کراچی اور بلوچستان میں امن امان خراب کرنے کے لیے جو پیسہ بھیجا جاتا ہے اس کے لیے جو نیٹ ورک استعمال ہوتا ہے وہ بھارت میں شروع ہوتا ہے ۔ اسی طرح پانامہ پیپرز جنکا پاکستان میں چرچا رہا اور جن کی وجہ سے پاکستان کی سیاست میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں ان کے مطابق جو منی لانڈرنگ ہوئی اس میں مغربی ممالک کے بہت سے بنک اور منی لانڈرنگ نیٹ ورک بھی ملوث تھے۔ چوری کا مال بیچنا بھی جرم ہوتا ہے اور خریدنا بھی۔ ناجائز پیسہ جائے یا آئے دونوں صورتوں میں ناجائز ہوتا ہے۔ FATF پاکستان اور اس جیسے ممالک پر تو چڑھائی کر رہا ہے لیکن جن ممالک میں بقول اسکے پاکستان سے پیسہ جاتا ہے۔ ان ممالک اور ان ممالک کے بنکوں اور اداروں کے بارے میں یہ تنظیم ہمیشہ خاموش رہی ہے حالانکہ وہ جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ ظاہر ہے کہ موجودہ حالات میں اس تنظیم کو مطمئن کرناپاکستان کی مجبوری ہے لیکن ہمیں سفارتی اور عالمی محاذ پر تصویر کے دوسرے رخ کو بھی اجاگر کرنا چاہئیے اور مطالبہ کرنا چاہئیے کہ امریکہ اور عالمی طاقتوں کے دیگر ’’ نور نظر‘‘ ممالک میں موجود منی لانڈرنگ نیٹ ورکس کی بھی اسی طرح تحقیق اور پچھ پرتیت ہونی چاہئیے جیسے پاکستان اور اس جیسے ممالک کی ہوتی ہے۔
٭…٭…٭
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024