سہ فریقی مذاکرات:افغانستان میں قیام امن کی راہ ہموار کی جائے، پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان مفاہمتی یادداشت پر دستخط
پاکستان، افغانستان اور چین کے وزرائے خارجہ کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کے پہلے دور کا اختتام ہوگیا جس میں تینوں ممالک کے درمیان مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔افغان دارالحکومت کابل میں ہونے والے سہ فریقی مذاکرات میں افغان مفاہمتی عمل، علاقائی سلامتی اور امن و استحکام پر تبادلہ خیال کیا گیا۔مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی جب کہ چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی اور افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی اپنے اپنے وفود کی قیادت کررہے تھے۔تینوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ سیاسی معاونت کو بروئے کار لا کر افغانستان میں قیام امن کی راہ ہموار کی جائے۔مذاکرات میں افغانستان کی ترقی کے لئے پاکستان اور چین کی جانب سے مختلف شعبوں میں تکنیکی معاونت کی فراہمی سے متعلق امور زیر بحث آئے،سہ فریقی مذاکرات کے پہلے دورے کے اختتام پر تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان انسداد دہشت گردی اور سیکیورٹی تعاون بڑھانے سے متعلق مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔مفاہمتی یادداشت پر دستخط کی تقریب افغان صدارتی محل میں ہوئی اور اس موقع پر افغان صدر اشرف غنی بھی موجود تھے۔بعد ازاں پاکستان، افغانستان اور چین کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ پریس کانفرنس کی،پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ خطے میں معاشی ترقی، امن واستحکام کیلئے دہشتگردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی ناگزیر ہے، پاکستان اور افغانستان 40 برسوں سے دہشت گردی کا سامنا کررہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کا مقف انتہائی واضح ہے، پاکستان دہشت گردی کی ہر سطح پر مذمت کرتا ہے، عوام اور سیکیورٹی فورسز کثیر تعداد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ سہ فریقی فورم ورک فورس کی صلاحیت بڑھانے اور تکنیکی معاونت کیلئے استعمال کیاجاسکتاہے، فورم کے ذریعے معلومات کا تبادلہ انتہائی اہم ہوگا۔اس سے قبل سہ فریقی مذاکرات کے سیشن سے خطاب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان شروع سے ہی افغانستان میں امن کے لیے عسکری حل کی بجائے بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل کا حامی رہا ہے اوراب دنیا ہمارے اس موقف کی تائید کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سہ فریقی مذاکرات کا مقصد، الزام تراشی اور منفی بیان بازی سے گریز کرتے ہوئے انسدادِ دہشت گردی، سیکیورٹی، سرحدی انتظام اور معلومات کے تبادلے کے حوالے سے باہمی معاونت کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی ہے۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ فورم پاکستان اور افغانستان کے مابین پشاور کابل موٹروے اور کوئٹہ قندھار ریلوے لائن بنانے اور اسے سہ فریقی تجارت کے پیش نظر چین سے منسلک کرنے جیسے بڑے منصوبوں کے ذریعے باہمی روابط کو مستحکم کرنے میں بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پر عزم ہے، بہتر سرحدی نظام سے پاکستان اور افغانستان دونوں کو فائدہ ہوگا جس کے لیے ہمیں تعاون اور انٹیلی جنس روابط بڑھانے کی ضرورت ہے۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے چیلنج کا بہترین حل روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور ترقی ہے، سہ فریقی تعاون اس سلسلے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کا سب سے بڑا برآمدی شراکت دار ہے، پاکستان، چین اور افغانستان کی معیشت آپس میں جڑی ہوئی ہے۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ 40 برس سے افغانستان جنگ و جدل کا شکار ہے، ہمسایہ ملک کی حیثیت سے افغانستان کی صورتحال سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے عوام 40 برس سے عدم استحکام اور دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ پاکستان نے ہمیشہ افغان قیادت کی سربراہی میں مذاکرات کی حمایت کی ہے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم کابل اور لوگر میں ہسپتالوں کا جلد افتتاح کریں گے، یہ دونوں ہسپتال پاکستان کی جانب سے افغان عوام کے لیے تحفہ ہے۔انہوں نے کہا کہ تینوں ممالک کے باشندے کے درمیان گہرے روابط ہیں جبکہ پاکستان اور افغانستان کے مابین مذہبی، ثقافتی اور تاریخی ہم آہنگی ہے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو خاص اہمیت دیتی ہے، خطے کے خوشحال، مستحکم اور پرامن مستقبل کے لیے ہم تینوں ممالک کا مل کر کام کرنا بہت ضروری ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ ہم اپنے افغان بھائیوں اور بہنوں کی گزشتہ 4 دہائیوں سے میزبانی کرتے آرہے ہیں۔۔اس دورے میں شاہ محمود قریشی کے ہمراہ سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اور وزارت خارجہ کے دیگر اعلی حکام بھی موجود تھے۔پریس کانفرنس کے دوران افغان وزیر خارجہ نے کہا کہ علاقائی روابط سے بڑھانے سے افغانستان میں امن قائم ہوگا، دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی بنائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم چین کے ون بیلٹ ون روڈ کی حمایت کرتے ہیں۔اس سے قبل افتتاحی سیشن سے خطاب میں افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی نے کہا کہ دہشت گردی ہمارا مشترکہ مسئلہ ہے، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کا مزید تعاون درکار ہے۔انہوں نے کہا کہ چین کی جانب سے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو سراہتے ہیں اور ہم پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ افغان وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ مذہب، ثقافت اور دیگر معاملات پر مشترکہ تعلقات ہیں۔جب کہ چینی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان، پاکستان مسائل کو پرامن طریقے سے حل کرنے پر رضامند ہوگئے، تینوں ممالک دہشتگرد گروپوں کے خلاف مشترکہ جنگ پر متفق ہیں۔ذرائع کے مطابق پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کے تین ادوار ہوں گے۔مذاکرات کے پہلے دور میں افغانستان کی سیاسی صورتحال اور افغان طالبان سے مفاہمتی عمل کے حوالے سے بات چیت کی گئی ، مذاکرات کے دوسرے دور میں خطے میں تعاون جبکہ تیسرے دور میں سکیورٹی تعاون پر بات ہوگی۔تینوں وزرائے خارجہ کی افغان صدر سے ملاقات بھی ہوگی۔دوسری جانب وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی کابل میں چینی ہم منصب سے باہمی ملاقات بھی ہوگی۔ پاکستانی وفد میں سیاسی، سول و عسکری حکام شامل ہوں گے۔اس سے قبل پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی پاکستان، چین اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی مذاکرات میں شرکت کے لیے کابل پہنچے تھے۔کابل پہنچنے پر افغانستان کے نائب وزیر خارجہ ادریس زمان، افغانستان میں پاکستان کے سفیر اور وزارتِ خارجہ افغانستان کے سینئر حکام نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا استقبال کیا تھا۔کابل میں وزیر خارجہ کے ہمراہ سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اور وزارت خارجہ کے دیگر سینئر حکام بھی موجود تھے۔افغان دارالحکومت روانگی سے قبل شاہ محمود قریشی نے سہ فریقی مذاکرات کے سلسلے میں چین کے اقدام کی تعریف کی تھی۔انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اور چین دونوں افغانستان میں امن، استحکام، خوشحالی اور ترقی چاہتے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ ہم دوستی اور امن کا پیغام لیے افغانستان جارہے ہیں۔شاہ محمود قریشی نے زور دیا تھا کہ خطے کو پائیدار ترقی اور استحکام کے راستے پر آگے بڑھانے کے لیے امن ضروری ہے۔واضح رہے کہ وزرائے خارجہ کی سطح پر سہ فریقی مذاکرات کا یہ دوسرا دور ہے، اس سے قبل پہلے سہ فریقی مذاکرات گزشتہ سال بیجنگ میں ہوئے تھے.