ٹوڈل مل جیسے مشیروں کی ضرورت اور وزیراعظم عمران خان
شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں صحرامیں ایک مسافر کا کھانا پانی کا ذخیرہ ختم ہوگیا۔اس کی حالت خراب ہونے لگی کہ اسے ایک بیگ نظر آگیا۔اس نے بڑے اشتیاق سے بیگ کھولا کہ شاید اسے خوردو نوش کا سامان مل جائے لیکن بیگ میں سونے چاندی کے زیورات تھے اور اسے اس وقت روٹی پانی کی ضرورت تھی۔ماضی میں حکمرانوں نے اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ عوام کی اصل ضرورت کیا ہے؟ دراصل ان لیڈروں میں فہم و فراست کی کمی تھی اور لوگ ان میں Collective Wisdom کی صلاحیت نہیں تھی اس لئے وہ لوگ آج اس بات کا خمیازہ بھی بھگت رہے ہیں کہ عوام یا ملک کی مجموعی صورت حال کو سامنے رکھ کر آگے بڑھنے کی بجائے کسی اک میگاپروجیکٹ کے پیچھے پڑجایا کرتے تھے اور پاپولر فیصلے کیا کرتے تھے۔آج ملک کی معاشی صورت حال کے پیش نظر وزیراعظم عمران خان کو دوست ممالک کے دورے کرنا پڑے جن میں چین بھی شامل ہے۔کسی بھی دوست ملک سے امدادی پیکج پر بات کرنا بھی بری بات نہیں مگر محض امداد لینے کے ساتھ ساتھ ان کے سسٹم کو سمجھنے کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ مشکل ترین صورت حال سے نکلنے کے لیے ان ممالک نے کہاں سے روشنی حاصل کی تھی اور کیا اقدامات کیے تھے۔چین پاکستان سے ایک برس بعد آزاد ہوا۔اور شروع میں ان کے حالات دنیا کے سامنے ایسے نہیں تھے کہ چین پر فخر کیا جاسکتا۔ان کے لیڈروں نے مجموعی صورت حال کو سامنے رکھ کر حالات کو بہتر بنانے کے لیے انقلابی اقدامات کیے۔ان کے لیڈر ڈینگ شاؤپنگ نے ہمایوں کے مشیر خاص راجہ ٹوڈل مل کی فراست سے بہت کچھ سیکھا راجہ ٹوڈل مل ہمایوں بادشاہ کا ایسا مشیر تھا جو وزیر خزانہ بھی تھا اور ریفارمسٹ بھی تھا اس نے ریونیو سسٹم متعارف کروایا۔وہ اتنا باصلاحیت تھا کہ شیر شاہ سوری نے بھی اسے اپنے ساتھ رکھا تاکہ اس کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاجاسکے۔شیر شاہ سوریؒ کے ساتھ رہ کر اس نے پشاور سے کلکتہ تک سڑک بنوائی۔آج سڑکوں کے حوالے سے شیر شاہ سوری کا نام سامنے آتا ہے۔مگر راجہ ٹوڈل مل کے wisdom کاذکر کم ہوتا ہے۔اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسی بڑے لیڈر کو راجہ ٹوڈل مل جسے مشیروں کی کتنی ضرورت ہوتی ہے۔ہمارے ہاں حکمرانوں نے تاریخ کی کامیاب شخصیات یا ماضی کے باصلاحیت مشیروں کے بارے معلومات لینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی ورنہ جس مصیبت میں آج ہمارا ملک گرفتار اسی سے نجات حاصل کرنا آسان ہوسکتا تھا،اس سلسلے میں اگر چین کے لیڈر ڈنگ مشیانگ پنگ کو دیکھا جائے کہ اس نے کس طرح چین کو محض گیارہ برس میں مشکل صورت حال سے باہر نکالا یعنی چین کے لیڈر نے ہمایوں کے مشیر راجہ ٹوڈل مل سے بہت سارا سبق سیکھا ہے چونکہ ان کرداروں پر ہم غور نہیں کرتے لیکن ان کرداروں سے حکومتیں پالیسی بنانے کے لئے بہت کچھ حاصل کرسکتی ہیں۔راجہ ٹوڈل مل کے آگے برطانیہ نے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔وزیر اعظم عمران خان بھی ملک کو مشکل صورت حال سے نکالنے کے لئے Collective wisdomکو اپنا کر آگے بڑھنا ہوگا جس کے ذریعے اپنے ملک اور عوام کی بنیادی مشکل سے آگاہی کے ساتھ ساتھ مستقبل کی پلاننگ شامل ہے۔جسمیں تعلیم اور صحت کے مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ ایگری کلچر کو بحال کرنا اور ٹیکنیکل تعلیم کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔پچھلے دنوں وزیراعظم عمران خان نے انڈوں اور کٹوں کی بات کی تو یہ بالکل نئی بات لگی اور ایلیٹ کلاس تشکیل دینے والوں اور امیروں کی آسائش کو سوچنے والوں کے لئے یہ کوئی اعلٰی معیار کی زبان اور بات نہیں تھی مگر دراصل ہمارے ملکی مسائل میں ایک لیڈر جب اپنی عوام اور ملک کے مسائل کو ان کے برابر کی سطح پر جاکر سوچنے گا تو یقیناً وہ بات اس کے منہ سے نکلے گی جو گلی محلے کے لوگوں کی زبان اور ضرورت میں شامل ہوتی ہیں اور بڑے لیڈر کو ایڈریس انہیں باتوں کو کرنا ہوتا ہے جو اس کے ملک کی عوام کی مشکلات ہیں۔مگر ان ساری باتوں میں وزیر اعظم عمران خان ایک تو دوسرے ملکوں کے سسٹم کو سمجھنے پر بھی توجہ دیا کریں اور اس کے ساتھ ہی راجہ ٹوڈل مل جیسے باصلاحیت میشران کا انتخاب کریں جیسا کہ اس نے ریونیو سسٹم بھی بنایا اور ریفارمسٹ بھی تھا چین کے لیڈر ڈینگ شیائینگ پنگ نے نے اپنی ٹیم میں گروپ بنائے اور انہیں دوسرے ممالک بھیجا تاکہ ان کے کامیاب سسٹم کا مطالعہ کریں اور اسے اپنے ملک کے سسٹم میں شامل کیا جائے چین کے ماؤزے تنگ نے کچھ عرصہ پورے دن میں ایک وقت کا کھانا کھانے کا اصول بنایا انہوں نے پر تعیش اور فیشن ایبل قیمتی لباس کی جگہ ایک جیسا یونیفارم متعارف کروایا اور اس قسم کی قربانیوں کے بعد وہ ملک اس وقت دنیا کی نمبر ایک اکانومی کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں اور یہی وہ ملک ہے جس پر مغرب نے پابندیاں لگادی تھی اور جسے سب سے بڑا یتیم خانہ سمجھا جاتا تھا ہمارے ملک کی جو صورت حال ہے اس میں قوم کو قربانیاں دینا پڑے گی جس طرح ایٹمی طاقت بناتے وقت ذولفقار علی بھٹو نے اعلان کیا تھا کہ گھاس کھا لیں گے مگر ملک کو ایٹمی طاقت بنائیں گے آج ملک کی معیشت کو بحال کرنے اور کرپشن فری پاکستان بنانے کے لئے مشکل صورت حال کو برداشت کرکے بہتر حالات کی طرف جانا ہوگا قائداعظمؒ نے سادگی اور بچت کو اپنا کر اس ملک کو بدحالی سے نکالنے کی کوشش کی تھی۔ایک واقعہ ہے کہ علامہ مشرقی قائداعظم سے ملاقات کے لئے گئے علامہ مشرقی کا اصول تھا کہ کسی کے گھر میں جاتے تو کھانے کے پیسے ادا کردیتے تھے قائداعظم نے علامہ مشرقی کو شربت کا گلاس پیش کیا تو انہوں نے گلاس کے نیچے پانچ پیسے رکھ دیے قائداعظم نے پوچھا یہ کیا کررہے ہیں تو علامہ مشرقی نے بتایا کہ ہماری پارٹی کا یہ اصول ہے کہ جو کھاتے پیتے ہیں اس کے پیسے دیتے ہیں قائداعظم نے پانچ پیسے واپس کرتے ہوئے کہا …بازار میں شربت کے گلاس کی قیمت آٹھ پیسے ہیں۔آج وزیر اعظم عمران خان کی باتیں بہت سارے لوگوں کو بہت عجیب محسوس ہوتی ہیں مگر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پی ٹی آئی نے پہلے ہی یہ بتا دیا تھا کہ قائداعظم کا پاکستان بنائیں گے اور قائداعظم کے پاکستان میں کرپشن اور عیاشیوں کی گنجائش نہیں التبہ عمران خان کو بحیثیت وزیراعظم ناکام ملکوں کے کامیاب ہونے کی پالیسیوں کا جائیزہ لے کر ان کے سسٹم سے بہت کچھ سیکھانا ہوگا اور اچھے مشیران کی ٹیم بنانا ہوں گی۔