’’سانحہ اے پی ایس پشاور‘‘شہیدوں کو سلام
' یہ تہذیبوں کا تصادم ہے ' وائٹ ہاؤس امریکا سے ’نائین الیون‘ کے بعد ایک خوفناک گونج کی یہ تکرار دنیا نے جب سنی تو دنیا کے پُرامن طبقات سراپااحتجاج ہوگئے مگر نہیں باز آیا مریکا جس کے نتیجے میں وحشی انتقام کی حیوانی' بربریت نما اس جنونی گونج میں اکیسیویں صدی کا انسانیت پرور چہرہ بالکل گہنا گیا اس نئی صدی کا دنیا نے کافی انتظار کیا تھا اسی نئی صدی کے مختلف حوالے آپ نے ہم نے بہت سنے تھے کہ 'اکیسیویں صدی'انسانیت کی ترقی کی صدی ہوگی جدید سانئسی ٹیکنالوجی کی صدی ہوگئی اور نجانے کیا نہیں کہا گیا تھا یہی تھی اکیسیویں صدی افسوس اس صدی کا آغاز بزعم خود 'مہذب' کہلانے والی اقوام کے سْرخیل امریکا نے انتقام کے آڑمیں مسلم ممالک کو تاک تاک کر نشانہ پر لیا اور خصوصی طور پر دنیائے اسلام کے واحد ایٹمی صلاحیت کے حامل پاکستان کے گرد امریکا نے اپنی سفاکانہ سفارتی کاری کے ایسے جال بچھائے اور ایسی مذموم سرگرمیاں اپنائیں کہ پاکستانی عوام ہکابکا دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے اناً فاناً افغانستان کی سرزمین دہشت گردوں کی پناہ گاہ میں تبدیل ہو گئی پاکستان کے قبائلی علاقوں سمیت پاکستان کا مغربی بارڈر عدم استحکام کا شکار ہوگیا2001 سے 2014 تک ملکی قبائلی علاقوں سے اور مغربی سرحد پار افغانی علاقوں سے طوفان نما بپھرتی امڈتی دہشت گردی کی خونریز لہروں نے خیبر پختونخواہ کے صوبائی شہروں سمیت صوبائی دارلحکومت پشاور کو ان برسوں کے دوران انسانی لہو سے نہلا دیاجیتے جاگتے انسانوں کے اعضاؤں کے چیھتڑے کبھی لاہور میں اُڑائے گئے، کراچی ‘کرئٹہ ‘ڈی آئی خان ‘بنوں‘ڈی جی خان‘اسلام آباد‘سرگودھا‘پاکستان کاکون سا ایسا علاقہ یا بڑا شہر نہیں تھا جہاں 2001 سے 2014 تک کے گزرے ہوئے عرصہ میں ’نائین الیون‘ کے واقعہ کے بعد اُبھرنے والی دہشت گردی نے انسانی لہو کی بارشیں نہ برسائیں ہوں ،یہ دہشت گردکیسے منظم ہوئے ا ِن کے پاس اسلحے کے ذخائر کہاں سے آئے؟ اتنے برسوں تک ان کی مالی معاونت کس نے کی؟ اِنہیں مختلف شہروں میں ’سوک سہولتیں‘ کس نے فراہم کیں؟یہ سوال 16 ؍دسمبر2014 کی ایک صبح کو اپنی پوری درندہ صفت حیوانی وحشت ناک
سنگینی کی سلگتی ہوئی تپش نے پل بھر میں قوم کو بیدار کردیا جب دہشت گردوں نے کروڑوں پاکستانیوں کو بھوکے شکار کی تلاش میں زمین پر گھورتے ہوئے عقاب کی مانند غصہ ور سکتے کے عالم میں لاکھڑا کیا16 ؍دسمبر2014 یہی تھا وہ دن جب دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول کی عقبی دیواریں پھاند کر اسکول میں داخل ہوکر آن کی آن میں ڈیڑھ سوسے زائد کم سن معصوم طلباء اور طالبات کی زندگیوں کے ہنستے مسکراتے ہوئے چہروں پر ہیوی مشین گنوں کی بوچھاڑ کھول دی معصوم بچوں کی تڑپتی ہوئی لاشوں پر تادیر فائرنگ کی جاتی رہی اساتذہ کو بچوں کے سامنے پہلے قتل کیا گیا یوں لگ رہا تھا جیسے اُس روز ’کربلا کاسورج‘ بھولا بھٹکا کہیں سے آکر پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طلوع ہوگیا ہو؟ آرمی پبلک اسکول کے گراونڈ میں دفاتر کے کوریڈورمیں اسکول کی پرنسپل شہید طاہرہ قاضی کے آفس کے سامنے دہشت گردی کے حملہ کے آخری لمحات تک اُس دن کے سورج نے کیسی ہولناک قیامتوں کوبرپا ہوتے ہوئے دیکھا اسکول میں طلباء وطالبات کی چیخ وپکارسن کر کچھ بچے اور بچیاں تیزی سے پرنسپل کے آفس کی جانب دوڑیں پرنسپل طاہرہ قاضی کو انداز ہوگیا کہ اسکول پر دہشت گردوں نے دھاوابول دیا ہے اُن کے گھر سے اُن کے بیٹے نے فون کیا پرنسپل قاضی نے فون اُٹھایا اور چیخ کر بولیں ’فون بند کردو بیٹا دہشت گردوں نے حملہ کردیا زیادہ بات مت کرو میں باہرنہیں آؤں گی جب تک اسکول سے آخر ی بچہ باہر نہیں نکل جاتا‘یہ کہکر فون بند کردیا اپنے آفس سے باہر نکل آئیں، معصوم بچے اپنی پرنسپل کے ساتھ باہر آگئے وہ سمجھے کہ شائد یہ لوگ ہماری پرنسپل کا احترام کریں گے؟ محترمہ طاہرہ قاضی کی متانت اور وقار کو دیکھ کر یہ درندہ صفت وحشی اور جنونی اور پاگل ہوگئے وہ اپنے ساتھ پیٹرول لائے تھے کیسے شیطانی درندے تھے جنہوں نے بچوں سمیت پرنسپل طاہرہ قاضی کو اُن کے آفس کے سامنے زندہ جلادیا کئی خاتون لیکچرز شہید ہوئیں اسٹاف کے کئی ممبر شہید ہوئے زخمی ہوئے انسانی نفرتوں کی یہ تھی وہ آگ جو پاکستان کے دشمنوں نے پاکستانیوں کو زندہ جلا کر اپنی اندرکی نفرتوں کی عصبیت کو ٹھنڈا کیا سلام ہے کروڑوں پاکستانیوں کا سلام عقیدت ہے طاہرہ قاضی سمیت اے پی ایس پشاور کے ہر شہید کو ، جنہوں نے اپنی قیمتی زندگیوں کے نذرانے پیش کرکے ’موت کے ان بزدل سوداگروں‘ کو شکست ِفاش دیدی تھی 16 ؍دسمبر2014 کا سورج جب غروب ہوا تو اُس وقت تک پوری قوم فکری اعتبار سے بیدار ہوچکی تھی، افواج ِ پاکستان کے سبھی کمانڈرصاحبان اپنے سربراہ اُس وقت کے چیف جنرل راحیل شریف کے ’فیصلہ کن ‘ فیصلے کے منتظر تھے جنہوں نے ملکی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا ملکی سلامتی کو لاحق منڈلاتے خطرات سے عہدہ براء ہونے کے اپنے آئینی فرض کو نبھا نے پر سیاسی قیادت نے مکمل بریفنگ لی اور ’نیشنل ایکشن پلان‘ کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد ملٹری کورٹس قائم ہوئیں پہلے ہی ہفتہ میں یکے بعد دیگر جیلوں میں مقید سفاک وسنگدل دہشت گردوں کو تخت ِ دار پر کھینچا گیا دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں پر موت کی سی پرچھائیاں نظرآنے لگیں دوسروں کا بے قصوروں کا معصوموں کا اجتماع قتل ِ عام کرنا آسان ہوتا ہے کوئی کسی بھول میں نہ رہے ملک میں ’نیشنل ایکشن پلان‘ ایک قانون کی صورت میں آج بھی نافذالعمل ہے اورعسکری آپریشن’ردالفساد‘ جاری ہے یاد رہے کہ ’آپریشن ردالفساد‘ ذہنی ،فکری، نظریاتی اورسماجی منافرت پھیلانے جیسی نفرتوں کے سدّباب کے اختتام تک جاری رہے گا فرقہ وارانہ تعصبات کے جذبات کو اُبھارنے اور اکسانے والوں پر قانون کا شکنجہ کسنے کا یہی واحد علاج ہے ’نیشنل ایکشن پلان ‘کو ملک بھر میں نافذالعمل کرنے کا آپریشن رکا نہیں جاری ہے، دہشت گردطبقات اپنے آپ کوآئین ِ پاکستان سے ماوراء نہ سمجھیں انسانیت کے دشمن جان لیں کہ ’پاکستانیوں کی نے قرآن ِ پاک باترجمہ پڑھنا شروع کردیا ہے جس سے عام پاکستانی بخوبی آگاہ ہوچکے ہیں کہ ’اللہ تعالیٰ نے ناحق کسی کو قتل کرنے سے بالکل منع فرمایا ہے ‘ اور ناحق انسان کو قتل کرنا ہی اصل دہشت گردی ہے ۔