سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کیخلاف سینٹ‘ قومی اسمبلی سے اپوزیشن کا واک آئوٹ
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر/ وقائع نگار) مسلم لیگ (ن) کے اسیر ایم این اے خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے کے خلاف جمعہ کو اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے واک آئوٹ کیا۔ اس معاملہ پر حکومت کے اتحادی بھی اپوزیشن کا ساتھ دینے لگے ہیں اور قومی اسمبلی میں یہ معاملہ، سرکاری بنچوں کی حصہ دار بی این پی(نیشنل) کے سربراہ اختر مینگل نے اٹھایا۔ اپوزیشن کے احتجاج کے باعث قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس پیر تک ملتوی کر دیئے گئے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں ہوا۔ وقفہ سوالات کے بعد حکومت میں شامل بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی طے پانا خوش آئند ہے۔ انہوں نے اپنے مخصوص تلخ لہجے میں کہا کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ چلیں حکومت نے پی اے سی کی سربراہی تو اپوزیشن لیڈر کو دے تو دی لیکن سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کر کے مزا بھی کرکرا کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے مسلم لیگ (ن) کے معاملہ سے کچھ لینا دینا نہیں لیکن معاملہ اصول کا ہے۔ میں سمجھتا ہوں، ارکان پارلیمنٹ کا حق ہے کہ ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے جائیں۔ انہوں نے بین السطور احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو لاپتہ افراد ہیں، ہمارے پروڈکشن آرڈر تو کوئی جاری نہیں کرتا مگر خواجہ سعد رفیق کا تو جاری کیا جائے۔ اس ایوان کو مغل دربار نہ بنایا جائے۔ سعد رفیق کا پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے پر مایوسی ہوئی۔ شہباز شریف نے کہا کہ اختر مینگل نے بڑے اچھے طریقے اور انداز میں یہ معاملہ اٹھایا۔ ہم بھی تین روز سے آپ کی خدمت میں یہ معاملہ پیش کر رہے ہیں۔ انہوں نے سپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ براہ کرم خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کریں اور ہمیں شکریہ کا موقع دیں۔ پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف نے بھی خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کیا تاہم سپیکر اسد قیصر نے اپوزیشن کے مطالبات کا کوئی جواب نہیں دیا جس کے ساتھ حزب اختلاف کے ارکان ایوان سے واک آئوٹ کر گئے۔ ایوان بالا کے اجلاس میں متحدہ اپوزیشن نے سپیکر کی جانب سے رکن قومی اسمبلی خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما پیر صابر شاہ کے خلاف نیب کی انکوائری پر احتجاج کیا۔ اپوزیشن نے حکومتی روئیے پر سخت تنقید کی اور واک آؤٹ کیا تاہم بعد میںاپوزیشن کی جانب سے کورم کی نشاندہی پر ڈپٹی چیئرمین کو سینٹ کا اجلاس پیر تک کے لیے ملتوی کرنا پڑا ہے۔ جمعہ کے روز ایوان بالا کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین سینٹ سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت شروع ہوا تو سینٹ میں قائد حزب اختلاف اپوزیشن لیڈر راجا ظفر الحق کا کہنا تھا کہ پیر صابر شاہ کے خلاف نیب کارروائی کی خبریں آئی ہیں کسی کو کوئی نوٹس دیئے بغیر تمام اخبارات میں خبر آجاتی ہے۔ سینٹ اجلاس میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کا معاملہ بھی زیر غور آیا اور شیری رحمن نے ایوان میں روپے کی قدر میں کمی سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پیش کیا۔ وزیر خزانہ کی عدم حاضری پر شیری رحمن نے احتجاج بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ ایوان میں موجود نہیں توجہ دلائو نوٹس پر جواب کون دے گا۔ سینیٹرآصف سعید کرمانی نے کہا کہ نیب حکومت کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بنا ہوا ہے۔ سینیٹر آصف کرمانی نے مطالبہ کیا کہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو ہاؤس میں بلایا جائے تاکہ جو کچھ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے متعلق کہا گیا، اس پر وہ وضاحت دیں۔ قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ اپوزیشن اپنی بات کر کے چلی گئی، اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن گیلریز کے لیے کام کر رہی ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ اپوزیشن بار بار واک آؤٹ کررہی ہے تو کیا میں بار بار جا کر ان کو مناؤں؟ کیا اپوزیشن کو منا کر واپس لانا میری ہی ذمہ داری رہ گئی ہے؟ ایوان سے وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے بھی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ رات کو میڈیا میں گورنر سٹیٹ بینک سے منسوب غلط بیان چلایا گیا۔ انہوں نے ماضی میں روپے کی قدر میں اضافے پر بات کی تھی۔ گزشتہ حکومت کی وجہ سے تجارتی خسارہ بڑھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت فیصل آباد میں 120 ایکسپورٹ ملز بند ہیں۔ حماد اظہر کے خطاب کے دوران نیشنل پارٹی کے سینیٹر اشوک کمار نے اپوزیشن کے واک آئوٹ کے بعد کورم کی نشاندہی کی۔ حماد اظہر نے کہا ہے کہ سابق حکومت نے ملک میں ڈالر کی قدر کو مصنوعی طور پر کم کرنے کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر سے 8ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی ہے حکومت کو تباہ حال معشیت ورثہ میں ملی ہے اس وقت ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 12ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ سینٹ میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ جمہوریت میں جبری گمشدگیاں نہیں ہو سکتیں۔ حکومت سے اس معاملے پر بات چیت شروع کردی ہے اور تمام سٹیک ہولڈرز سے بھی مشاورت کی جائے گی۔ اجلاس میں وقفہ سوالات میں سینیٹر غوث نیازی نے پوچھا کہ کیا پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ انسانی حقوق کی صورتحال بہتر بنانے پر دیا گیا؟ کیا یورپی یونین نے آسیہ بی بی کا نام ای سی ایل ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکلوانے کی درخواست جی ایس پی پلس کی بنیاد پر کی؟جس پر شیریں مزاری نے جواب دیتے ہوئے بتایا کہ جی ایس پی پلس کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کے 7 کنونشن پر عمل درآمد کرنا ہے اس سلسلے میں کئی قوانین بنائے جا چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے سندھ میں گیس سپلائی منقطع کرنے پر تحریک التوا جمع کروا دی۔