وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار یوں تو خاصے کم گو ہیں، اسی لیے وہ کبھی کبھار تنقید کی زد میں بھی رہتے ہیں، یہ شاید اس لیے بھی ہے کیوں کہ گزشتہ ایک دہائی سے اس صوبے پر حکومت کرنے والے وزیر اعلیٰ کا اسٹائل ”باتونی“ تھا، مائیک توڑنے والا تھا اور کبھی کبھار لاﺅ لشکر کے ساتھ بدتمیزی والا سٹائل بھی مشہور تھا۔ لیکن اس کے برعکس عثمان بزدار جیسے شریف النفس شخص کو اقتدار ملنا لوگوں کو ذہنی طور پر قبول نہیں ہو رہا۔ جس کا فائدہ اپوزیشن تنقید کر کے اُٹھا رہی ہے۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے ناقدین کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے ایک پریس کانفرنس کر ڈالی جس میں صحافیوں کے تند و تیز سوالات کے جوابات دیے انہوں نے اپنی حکومت کی سو دن کی کارکردگی پر روشنی ڈالی اور کہا کہ تجاوزات کیخلاف آپریشن کے دوران لاہور میں مجموعی طور پر7428 کنال واگزار کرائی گئی ہے۔ جبکہ اتفاق فانڈری سے 240 کنال اراضی جوواگزار کروائی گئی وہ اس کے علاوہ ہے۔واگزارکرائی گئی زمینوں کی مالیت پنجاب کے سالانہ بجٹ کے برابرہے، پورے پنجاب سے اربوں روپے کی سرکاری زمینیں واگزارکرائی گئی ہیںلیکن تجاوزات کیخلاف آپریشن کے دوران غریبوں کوتنگ نہیں کیاگیا۔
ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ سرکاری زمینوں پرگزشتہ حکومت کے عہدیداران کی ملی بھگت سے قبضہ کیاگیاتھا، سرکاری زمینوں پرقبضے میں اداروں کے افسران بھی شامل ہیں۔ ڈی جی خان میں چارلاکھ کنال سے زائدکی اراضی واگزارکرائی ہے جبکہ 34 ارب کی رقم بھی نکلوائی گئی ہے۔وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا کہناتھا کہ سابق وزیراعلیٰ کے پاس 2000 سکیورٹی اہلکارتھے،جبکہ ہمارے پاس صرف 60 اہلکار ہیں اور ہمارا کوئی کیمپ آفس بھی نہیں ہے۔ سابق وزیراعلیٰ کے چار دفاتر تھے۔تجاوزات کیخلاف آپریشن میں واگزار کرائی جانے والی زمینوں کیلئے بینک بنائیں گے۔ان کا کہناتھا کہ سرکاری زمینوں پر تجاوزارت سے متعلق تحقیقات جاری ہیں ، کرپشن اور بدعنوانی کو کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کیا جائے گا ، جس نے بھی سرکار کے پیسے کھائے اسے واپس کرنا پڑیں گے ، غیر قانونی ہاوسنگ سوسائٹیوں کا بھی پتا چلایا گیا ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے سابق حکمرانوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور ان کے ذمہ واجب الادا رقوم کے بارے میں بھی ذکر کیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ لاہورڈویژن میں56ہزار 264 کنال، گوجرانوالہ ڈویژن میں 22 ہزار788کنال، فیصل آباد ڈویژن میں 1 لاکھ 36 ہزار کنال، راولپنڈی ڈویژن میں 7ہزار 350کنال،ڈی جی خان ڈویژن میں 4لاکھ5ہزار 665کنال،بہاولپور ڈویژن میں 14ہزار563کنال،ساہیوال ڈویژن میں 36ہزار کنال،سرگودھا ڈویژن میں 56ہزار284کنال اورملتان ڈویژن میں 24ہزار کنال اراضی واگزار کرائی گئی ہے۔واگزار کرائی گئی اراضی کو متعلقہ سرکاری محکموں نے اپنی ملکیت میں لے لیا ہے اور اس اراضی کا ڈیٹا بینک بنا لیا گیا ہے اور اس کے بہترین استعمال کیلئے تجاویز و سفارشات مرتب کی جا رہی ہیں جبکہ ضلعی سطح پر انسداد تجاوزات کمیٹیاں بھی قائم کی گئی ہیں،ہم نے حتی المقدور کوشش کی ہے کہ اس آپریشن میں غریب لوگوں اور چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو تکلیف نہ پہنچے۔
سابق حکومتوں کی فضول خرچی کی انتہا پر بھی وزیراعلیٰ نے روشنی ڈالی اور کہا کہ سابق دور میں وزیراعلیٰ کے جاتی امرائ،96ایچ ماڈل ٹاو¿ن،180ایچ ماڈل ٹاو¿ن اور41ایس ڈی ایچ اے میں چار مختلف کیمپ آفس تھے،ہمارے دور میں میرے پاس کوئی کیمپ آفس نہیں ہے،سابق دور میں وزیراعلیٰ اوران چار کیمپ آفس کیلئے 2ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکارڈیوٹی دیتے تھے جبکہ اب صرف60 اہلکار سکیورٹی ڈیوٹی پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں،سابق دور میں جاتی امراءکی سکیورٹی پر 55کروڑ روپے سرکاری وسائل سے خرچ کیے گئے جبکہ ہمارے دور میں اس حوالے سے ایک پائی بھی خرچ نہیں کی گئی، تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار سنبھالنے سے لیکر اب تک وزیراعلیٰ آفس میں پٹرول کی مد میں 30لاکھ روپے ماہانہ کی بچت کی ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اس صوبہ پنجاب میں ایک ایسا وزیر اعلیٰ جس کو لوگ بہت کمزور سمجھتے تھے، اوراُس کے بارے میں بہت سے منفی پراپیگنڈے بھی کیے گئے، انہوں نے جو کام کیا وہ واقعی قابل خراج تحسین ہے۔ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تو انہیں ہر جانب سے انتہائی تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن پنجاب کے وزیراعلیٰ نے کوئی بڑھک مارے بغیر ہی سادگی سے ایسا کارنامہ سرانجام دیا جس کی تعریف کئے بغیر کوئی نہ رہ سکا۔وہ کارنامہ قبضہ گروپوں سے اربوں روپے مالیت کی اراضی واگزار کرانے کاہے۔پورے لاہور میں اس وقت کوئی شاہراہ اورچھوٹی بڑی مارکیٹ ایسی نہیں جہاں زمینوں اوردکانوں کو قبضہ گروپوں سے آزاد نہ کرایا جارہا ہو۔اس سے قبل پاکستان میں مضبوط حکومتیں اور انتہائی مضبوط وزراءاعلیٰ اقتدار میں رہے ہیں جن کا نام سن کر نہ صرف حکومتی اہلکار بلکہ پولیس افسران اور بیوروکریٹس کی بھی ٹانگیں کانپتی تھیں لیکن قبضہ گروپوں پر آج تک کوئی بھی حکومت ہاتھ نہیں ڈال سکی تھی حالانکہ میاں شہباز شریف کے سابق دونوں ادوار میں لاہو رسے تمام نام نہاد بدمعاشوں کا بھی ” ان کاﺅنٹر “کی صورت میں جیسے خاتمہ کیا گیا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن قبضہ گروپوں کو ہاتھ ڈالنے سے وہ بھی کتراتے ہی رہے۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ موجودہ گورنر پنجاب چودھری سرور جو سابق دور میں مسلم لیگ (ن) کے بھی گورنر تھے وہ بھی اسی وجہ سے اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے کہ وہ اپنے دوستوں کی زمینیں قبضہ گروپوں سے واگزار نہیں کراسکے تھے نہ ہی ان کے خلاف حکومت کی جانب سے کسی قسم کی کارروائی کراسکے تھے۔عوام موجودہ حکومت کی جانب سے کئے جانے والے وعدوں کے وفا ہونے کی منتظر ہے۔بہرحال حکومت نے تجاوزات کے خاتمے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ قابل تحسین توہے لیکن اس کے نتیجے میں ہم اُن سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ چھوٹے لوگوں کا خیال رکھیں اور بڑے لوگوں ، قبضہ گروپوں کو نہ چھوڑیں۔ لاہور کی مارکیٹوں میں جو آپریشن جاری ہے وہ بلا امتیاز ہونا چاہیے کیوں کہ یہ شکایات ضرور آتی ہیں کہ کچھ لوگوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے،اور کچھ لوگوں کو پکڑ لیا جاتا ہے۔
اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کچھ ایسی جگہیں بھی ہیں جہاں مزدور طبقہ روزی روٹی کما رہا ہے، اُن کی روزی روٹی کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
کیوں کہ آج میں نے اُن لوگوں کو بھی دعائیں دیتے دیکھا ہے، جو منشاءبم جیسے قبضہ گروپوں کے سرغنہ کے ہاتھوں اپنا سب کچھ لٹا بیٹھے تھے، پنجاب حکومت اب تک قبضہ گروپوں سے سینکڑوں نہیں ہزاروں ایکڑ اراضی واگزار کراچکی ہے لیکن ناجائز قبضے چھڑوانے اور مارکیٹوں میں جاری اس توڑپھوڑ کے نتیجے میں بے روزگار ہونے والے ہزاروں افراد کے بارے میں بھی فوری طور پر سوچا جانا چاہیے۔ اُن کے لیے فوری طور پر متبادل روزگار کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔ ان کے لیے ہزاروں خالی کرائے جانے والے پلاٹوں میں فوری طور پر شیڈ لگاکرسٹال اور ٹھیلے لگانے کا انتظام کردیا جائے تاکہ عام مزدور کم سے کم متاثر ہو۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے میری رائے کو ”مسترد“ نہیں کیا جائے گا۔ کیوں کہ مجھے یقین واثق ہے کہ سردار عثمان بزدار بڑے کام اجتماعی رائے سے کرتے ہیں۔ لیکن روزمرہ امور میں وہ مکمل طور پر آزاد ہیں۔ ابتدائی 100دن سے واضع ہو رہا ہے کہ وہ ایک مکمل با اختیار وزیر اعلیٰ ہیں۔لیکن ابھی تک پنجاب میں جس طرح تقرر و تبادلے ہوئے ہیں۔ ان سے بھی یہی لگ رہا ہے کہ سردار عثمان بزدار مکمل کمان میں ہیں۔ وہ چیف سیکریٹری اور آئی جی کو آزادانہ احکامات دے رہے ہیں اور ان کے احکامات پر عمل بھی ہو رہا ہے۔ وہ ہر افسر کو حکم دے رہے ہیں اور ہر افسر ان کا حکم مان رہا ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ پہلے کمیٹی سے منظوری لے کر آئیں پھر آپ کی بات مانیں گے۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ پنجاب میں سردار عثمان بزدار کی حکومت قائم ہو گئی ہے۔ وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئے ہیں۔ گاڑی ان کے کنٹرول میں ہے باقی سب سواریاں گاڑی میں بیٹھی تو ہیں لیکن گاڑی کا کنٹرول سردار عثمان بزدار کے پاس ہی ہے۔بہرکیف عوام کو یہ سوچ بدلنا ہوگی اور تحریک انصاف کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ میڈیا ایک دو دھاری تلوار ہے۔ یہ جتنا باہر کاٹتا ہے اتنا ہی اندر کاٹتا ہے۔مجھے اُمید ہے کہ میڈیا جو سچ ہے وہی دکھائے گا ، اگر کہیں کرپشن ہو رہی ہے اُسے دکھانا چاہیے۔ اگر کہیں ادارے ٹھیک نہیں ہور ہے اُسے بھی آشکار کرنا چاہےے مجھے یہ بھی اُمید ہے کہ چند دن میں سردار عثمان بزدار کوئی ڈمی یا ریموٹ کنٹرول وزیر اعلیٰ نہیں لگیں گے۔ جس طرح کہتے ہیں ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ اسی طرح سردار عثمان بزدار کے پہلے 100 دن ہی بتا رہے ہیں کہ جوان میں دم ہے!۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024