جس شاخ پہ بیٹھا تھا وہی کاٹ رہا تھا
چیف جسٹس پاکستان نے چکوال میں غیر قانونی طور پر سیمنٹ فیکٹریوں کو این او سی جاری کرنے والے سیاسی افراد اور سرکار ی حکام کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ خرابیوں کے ذمہ داروں کو قبروں سے نکال کر ٹرائل کرنے کا وقت آگیا ہے میرے بعد بھی کھاتے بند نہیں ہونگے ۔خدا کرے ایسا ہی ہو کیونکہ ملک کی ترقی کے لئے سیاسی افراد اور سرکاری حکام کو قانونی شکنجے میں لانا ضروری ہے ان دونوں طبقوں کی پارٹنر شپ نے ملک کو دو طبقوں کا پاکستان بنادیا ایک امیروں اور اشرافیہ کا پاکستان دوسرا غریب اور محروم طبقے کا پاکستان۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے بالکل درست کہا ہے کہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ملک کی ترقی کے لئے لازمِ ملزوم ہیں پانامہ کیس کے فیصلے سے نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی گئی ہے حکمرانوں کو قانون کے تحت لانے کا کام سپریم کورٹ نے کیا جو کام چیف جسٹس نے کیئے وہ جمہوری حکومتوں کو کرنے چاہیئے تھے قانون کی حکمرانی کا جن اب بوتل سے باہر نکل چکا ہے اب اسے کوئی روک نہیں سکتا ہر طاقتور کو قانون کے تحت لایا جا رہا ہے اب کوئی نہیں سو چے گا کہ وہ قانون سے بالا تر ہے پاکستان کو اس وقت بہت سے مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے انشا ء اللہ ہم ان مسائل سے جلد نکل جائیں گے ڈیم منصوبہ کبھی پانچ
سال میں بھی نہیں بنتا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وزیرِ اعظم بھی قانون کے تابع ہو گا پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے آنے والے دنوں میں قرضوں سے بھی نکل جائیں گے ہم شارٹ ٹرم سوچ کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوئے ہیں بڑھتی ہوئی آبادی قومی مسئلہ ہے جس میں پوری قیادت ، سول سوسائٹی اور علماء کو بھی آگے آنا پڑے گا ۔ ماضی کی حکومتیں صرف پانچ سال کا سوچتی تھیں کہ اگلا الیکشن کیسے جیتیں گے ان کی اسی سوچ کی وجہ سے ہم بہت سے مسائل کے ساتھ ساتھ پانی جیسے سنگین مسئلے میں بھی پھنس گئے ہیں میں نے یہ بھی کہتے سنا کہ اچھا ہوا مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا وہ بوجھ تھا ۔ آج وہی بنگلہ دیش آگے کی طرف جا رہا ہے ہم بڑ ے بڑے قبضہ گروپوں پر ہاتھ ڈال رہے ہیں پاک فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ میڈیا صرف چھ ماہ ترقی دکھائے آگے وقت بہت اچھا یا بہت خراب ہے آج
پرانی فوج نہیں ہے ایک ایک اینٹ لگا کر پاکستان دوبارہ بنا رہے ہیں بھارت جنگ کرنے آئیگا تو دیکھ لیں گے ۔ ماشاء اللہ ملک میں ایسے ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جس کا ایک سال قبل تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا عوام میں بھی بیداری کی لہر نظر آتی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ مہنگائی میں اضافہ ہونے کے باوجود عوام مستقبل سے مایوس نہیں ہیں البتّہ روایتی اور فرسودہ سیاسی جماعتیں بہت پریشان ہیں کیونکہ حکومت کی طرف سے ہر بات صاف صاف اور کھول کھول کر بغیر کسی لاگ لپٹ کے عوام کو بتائی جا رہی ہے محسوس ایسا ہوتا ہے کہ اب تک جمہوریت اور قانون کو کھوکھلے نعرے کے طور پر سیاسی جماعتیں اور حکمراں طبقہ استعمال کرتا رہا کیونکہ
جمہوریت اور قانون کا نام لے کر ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کے چہرے دن بہ دن بے نقاب ہوتے جا رہے ہیں اور اب وقتِ حساب آپہنچا۔ کیونکہ پاکستان چند سیاسی خاندانوں اور ان کے وارثوں کی ملکیت کا نام نہیں ہے پاکستان کو کسی نے پلیٹ پر رکھ کے پیش نہیں کیا اور نہ پاکستان کسی نے ہمیں تحفے میں دیا یا پاکستان لاٹری میں نکل آ یا ‘ یاپھر ہمیں ایسے بیٹھے بٹھائے مل گیا ۔جی نہیں بالکل نہیں۔یہ ہمارے بڑوں کی انتھک قربانیوں اور مسلسل جدو جہد کا نتیجہ ہے جسے حاصل کرنے کے لئے ہمارے آبا ؤ اجداد نے خون کے دریا عبور کیئے اس کے لئے ہمارے اجداد نے خونی سفر طے کیئے آج یہ پاکستان اپنے ہی حکمراں طبقے کے ہاتھوں زخمی ہو کر غیروں کی امداد کا منتظر ہے چنانچہ وقت کا تقاضہ بھی ہے اور عوام کا مطالبہ بھی کہ جس کسی نے بھی اس ملک کو نوچا ہے لوٹا ہے اسے عبرت کا نشان بنا دینا چاہیئے ۔ چیف جسٹس صاحب نے بالکل صحیح کہا ہے کہ ملک میں خرابیوں کے ذمہ داروں کو قبروں سے نکال کے ٹرائل کا وقت آگیا ہے ملک کی موجودہ صورتحا ل پر ممتا ز و معروف شاعر عارف شفیق نے کیا خوب کہا ہے :
میں ہی نہیں ہر فرد ہی کیوں میرے وطن کا
جس شاخ پہ بیٹھا تھا وہی کا ٹ رہا تھا