پاکستانی عوام مطمئن اور خوش کیوں…
میں نے 10دسمبر کو سہہ پہر 3:40 بجے راولپنڈی سے کراچی کے لئے پاکستان ریلوے کی گرین لائن میں اپنی نشست محفوظ کروا رکھی تھی۔ ریلوے اسٹیشن کے بالکل نزدیک ایسا ٹریفک جام ہوا کہ اِدھر میں اسٹیشن میں داخل ہو ا اُدھر ریل گاڑی نکلی۔ بیساختہ مجھے قائمؔ چاند پوری یاد آگئے: ’ قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند، دو چار ہاتھ جبکہ لبِ بام رہ گیا ‘ ۔پاکستان ریلوے کے قاعدے کے مطابق اگر میں گاڑی چھوٹنے کے 3گھنٹے کے اندر ریلوے سرٹیفیکیٹ (CM-327) بمعہ Cancellation (AD) سِلپ جو کہ ( ہیڈ کلکٹر اسٹیشن ماسٹر) سے دستیاب ہو تی، حاصل کر لیتا پھر اس کو بذاتِ خود جا کر منظور کراتا تو مجھے ادا شدہ ٹکٹ کی رقم پچاس فی صد واپس مل سکتی تھی۔نہ جانے ہمارے ہاں آسان کام کو مشکل کیوں بنا دیا جاتا ہے بہرحال ،میں نے معلوم کیا کہ کون سی گاڑ ی کراچی جا رہی ہے۔بتایا گیا 5 بجے ہزارہ ایکسپریس جانے والی ہے۔ مجھے اگلے روز کراچی پہنچنا ضروری تھا ۔ اتنا وقت نہیں تھا کہ مطلوبہ فارم لیتا ، اس کو بھرتا اور ہیڈ کلکٹر اسٹیشن ماسٹر سے منظور کروا کر گرین لائن کے ٹکٹ کی آدھی رقم لیتا۔میں پریشانی کے عالم میںلپک کر ہزارہ ایکسپریس کے ٹکٹ گھر پہنچا۔یہ عوامی درجے یعنی اکانومی ڈبوں کی گاڑی ہے۔ ٹکٹ 1700/ روپے میں آیا۔واضح ہو کہ گرین لائن کا ٹکٹ 5890/روپے کا تھا۔اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے ڈبے میں بیٹھ گیااور سفر شروع ہوا۔یہ ایکسپریس راولپنڈی سے 5:04 شام روانہ ہوئی ۔مجھے عوامی درجہ میں سفر کرنے کا ایک زمانے کے بعد موقع ملا تھا۔گو کہ میرے ڈبے کی حالت کوئی زیادہ اچھی نہیں تھی۔شیشے والی کھڑکیاں پوری بند نہیں ہوتی تھیں ۔چھت پر تین بلب ہولڈر تھے جن میں دو خالی تھے اور ایک میں بلب تھا۔ گاڑی کیا روانہ ہوئی میری پریشانی، کوفت اور ٹینشن بھی آہستہ آہستہ روانہ ہو گئی۔میں نے 30 گھنٹے اس ریل گاڑی میں گزارے۔ یہ منڈی بہائوالدین، سرگودھا جنکشن، جھنگ صدر، خانیوال جنکشن، مُلتان کینٹ، بہاولپور، خانپور جنکشن، روہڑی جنکشن، حیدرآباد جنکشن وغیرہ سے ہوتی ہوئی اگلے روز رات 11 بجے کراچی کینٹ پہنچی۔کئی لوگ راستے کے چھوٹے بڑے اسٹیشنوں پر اُترے اور چڑھے لیکن مجھے جو چیز متاثر کُن لگی وہ عوام کے چہرے پر اطمینان اور خوشی کی جھلک تھی۔دو روز پہلے راولپنڈی میں گیس ہیٹر چلے تھے۔رات کو سردی بڑھ گئی۔جیسا کہ ذکر ہو چکا کہ میرے ڈبے کی کھڑکیوں کے شیشے پوری طرح سے بند نہیں ہوتے تھے۔ معمولی سی درز سے بھی بہت ٹھنڈی ہوا آ رہی تھی۔کیا مرد کیا خواتین سب لوگ گرم کپڑے اور چادریں، لحاف و کمبل کے ساتھ ساتھ ذہنی طور سے بھی ایسے سفر کے لئے تیاری سے آئے تھے لیکن حیرت انگیز بات ہے کہ کسی نے بھی کوئی شکایت، کوئی گلہ نہ کیا۔نہ ہی پاکستان ریلوے کی شان میں ’’ قصیدے ‘‘ پڑھے گئے۔ اس کے برعکس مجھے تقریباََ سب ہی لوگ مطمئن، اور خوش وخُرّم نظر آئے۔ہمیں ملنے والی راحت اور تکلیف میں اللہ کی مصلحت ہوتی ہے۔پاکستان ریلوے کی ایک بہت آرام دہ گاڑی کا چھوٹنا پھر 18 گھنٹے 15منٹ کے بجائے 30 گھنٹے کا سفر کرنا ، عوام کا بغور مشاہدہ کرنا ، اُن سے بات چیت کرنا میرے لئے ایک سنہری موقع تھا۔میں نے اپنے اس سفر میں ایک نہایت چونکا دینے والی بات دیکھی!! وہ یہ کہ پاکستانی عوام مجموعی طور پر خوش اور مطمئن نظر آئی۔نہ تو یہ ضلع تھرپارکر کا شہر ’ مٹھی ‘ تھا نہ ہی یہاں عدالتِ عالیہ کے منصفِ اعلیٰ موجود تھے۔نہ ہی یہ ’ جعلی ‘ یا کرایئے کے مسافر تھے۔ یہ جیتے جاگتے حقیقی پاکستانی عام لوگ تھے۔’ ہزارہ ایکسپریس ‘ حویلیاں ، ہری پور ہزارہ اور ٹیکسلا سے آ رہی تھی۔ میرے ساتھ راولپنڈی سے اس ڈبے میں دو حضرات اور ایک فیملی چڑھی تھی۔پھر زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اس سفر میں آتے جاتے رہے۔جیسے لالہ موسیٰ ، منڈی بہائو الدین، ملک وال اور سرگودھا اسٹیشنوں سے چڑھنے ولے۔یہ ہی عوام کی نمائندگی کرنے والے لوگ تھے۔عوام کی نمائندگی عوام ہی کرتے ہیں۔ کسی ایک مسافر نے بھی ’’ ہائے مر گئے۔اب ملکی معیشت کا کیا ہو گا؟ ڈالر کہاں جا رہا ہے؟ ہمارے لئے حکومتوں نے کیا ،کیا؟فلاں سیاستدان چور ہے، فلاں ملک کو لوٹ کر کھا گیا…‘‘ قسم کی فضول اور لا حاصل بحث نہیں کی۔اپنی ہی باتیں کیںجو اس بات کی عکاسی کرتی تھیں کہ یہ پیاز کے ساتھ روٹی کھا کر مطمئن اور خوش رہنے والے لوگ ہیں۔بلا شبہ حقیقی طمانیت ان کے چہروں پر بالکل صاف نظر آتی تھی۔ اگر یہ سطور ہمارے سیاستدان، خاص طور پر سنسنی اور ہیجان پھیلانے والے ٹاک شو کرنے والے اور ملک کی گمبھیراور تشویشناک تصویر بنا کر پیش کرنے والے پڑھ رہے ہوں تو اُن سے درخواست ہے کہ وہ بھی ایسے لوگوں میں خاموشی سے بیٹھ کر مشاہدہ کریں۔ انہیں ادراک ہو جائے گا کہ پاکستانی عوام ماشاء اللہ مطمئن اور خوش ہیں۔مجھے تو خود اپنے آپ پر حیرت ہوئی جب اِن عوامی نمائندوں کا مشاہدہ اور ان کی باتیں سنیں تو میں اپنی پریشانی ہی بھول گیا۔یہی نہیں بلکہ یقین جانیئے ایسا محسوس ہوا گویا میںذہنی طور پر بالکل تر و تازہ ہو گیا ۔میں نے یورپ اور امریکہ میں خاصا وقت گزرا ۔ہمارے عوام کو وہاں کے عوام جیسی سہولیات میسر نہیں لیکن اس کے باوجود جو اطمینان اور خوشی اس سفر میں عوام کو قریب سے دیکھ کر محسوس ہوئی وہ امریکی عوام میں مفقود ہے۔ آج مجھے کراچی آئے تیسرا دن ہے لیکن ابھی تک ماشاء اللہ ایک دم فریش ہوں…ہلکا پھلکا۔یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کا انعام ہے کہ عوام کی بہت بڑی اکثریت خوش اور مطمئن ہیں۔ عوام کے غضب اور بے چینی کی جو تصویر ٹی وی ٹاک شو میں پیش کی جاتی ہے وہ عوام کی صحیح ترجمانی نہیں کرتی۔ یہ خوشی اور اطمینان طاقت، مرتبہ، دبدبے، ٹی وی پر روزانہ آنے اور روپے پیسے سے کبھی حاصل نہیں ہوتا۔یہ حالات کا خود اپنے وسائل سے مقابلہ کرنے اور راضی بہ رضا رہنے سے ملتا ہے۔اے کاش کہ ہمارے پالیسی ساز، حکمراں اور سیاست دان بھی خوش اور مطمئن نظر آئیںلیکن اس کے لئے تو پھر راضی بہ رضا رہنا پڑے گا!!
بقول زیبؔ عثمانیہ:
خود کو جو دنیا میں جو راضی بہ رضا کہتے ہیں
اپنی ہستی سے وہ ایک بات سوا کہتے ہیں
موت آتی ہے تو اک فرض ادا ہوتا ہے
اُن کو دھوکہ ہے قضا کو جو قضا کہتے ہیں