اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف کو چیئرمین پی اے سی بنانے کے حکومتی فیصلے سے اپوزیشن کا مطالبہ پورا ہو گیا ہے۔ سیاسی حلقوں اور تجزیہ نگاروں نے حکومت کے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ حکومت کے اس اعلان سے سیاسی ماحول میںبہتری آئے گی۔ ایوان کا وقار بھی بحال ہو گا اور قانون سازی کی راہ ہموار ہو گی۔تاہم ایک اہم سوال جو میڈیا پرزیر بحث بنا ہوا ہے کہ کل تک عمران خان میاں شہبازشریف کو چیئرمین بنانا تو درکناران کا نام سننے کو تیارنہیں تھے اور اپوزیشن کا یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے یہی وجہ ہے کہ حکومت کے اس فیصلے سے پی ٹی آئی کو اندرونی طور پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وفاقی وزیر عامرکیانی اور فواد چودھری کا یہ بیان کہ نہ جانے عمران کو اپوزیشن کا یہ مطالبہ ماننے کا مشورہ کس نے دیا ہے، لگتا ہے حکومت بلیک میل ہو گئی ہے۔ اس بیان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کہ پی ٹی آئی کے کچھ حلقے اس فیصلے سے ناخوش ہیں۔ بہر حال یہ کریڈٹ بھی حکومت کو جاتا ہے۔ اختلاف رائے پر قدغن نہیں ہے۔ ماضی میں وزیراعظم کے ہر قسم کے بیانات پر پوری لیڈر شپ اور خصوصی طور وزرا جھومتے نظر آئے کہ اختلاف کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ بہر حال یہ کریڈٹ ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد وزیر دفاع پرویز خٹک کی قیادت میں حکومتی وفد نے شہبازشریف سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی اور آڈٹ اعتراضات کاجائزہ لینے کیلئے خصوصی کمیٹی بنانے کا مطالبہ تسیم کرنے کے ساتھ ساتھ قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل پر بھی مشاورت ہوئی اور شہبازشریف کو چیئرمین پی اے سی بنانے پر اتفاق کر لیا گیا اس موقع پر اپوزیشن لیڈرکا بیان بھی قابل غور ہے کہ آدھے دھیلے کی کرپشن ثابت ہو جائے تو سیاست چھوڑ دوں گا۔ یاد رہے کہ میاں شبہاز اس بات کا برملا اظہار کر چکے ہیں کہ انہوں نے کسی قسم کی کوئی کرپشن نہیں کی اس فیصلے سے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اپوزیشن کوساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔ حکومت اوراپوزیشن کے باہمی تعلق کی فضا سے ایوان کا ماحول خوشگوار ہونے کے علاوہ قانون سازی بھی آسان ہوجائے گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024