عمران خان ایشیا کے پُرکشش مردوں میں شامل
یہ رپورٹ برطانوی میگزین ’’ایسٹرن آئی‘‘ نے مرتب کی ہے۔ رپورٹ میں ایشیا کے 50 خوبصورت اور پرکشش مردوں کا ذکر کیا گیا ہے، جس میں وزیر اعظم پاکستان 48 ویں نمبر پر ہیں۔ 67 سال کی عمر میں بھی اگر کوئی دلکش افراد کی فہرست میں جگہ پاتا ہے تو یہ اُس کا اپنا کمال نہیں ، سراسر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چہرہ باطنی کیفیات کا عکاس ہوتا ہے۔ اگر اندرون روشن ہو تو چہرہ بھی دلکش ہوتا ہے۔ ایسے چہرے میک اپ کے محتاج نہیں ہوتے ورنہ چہرے پر نحوبت اور پھٹکار برس رہی ہوتی ہے۔ اللہ کے بندوں کا تو ذکر ہی کیا اُن کے چہروں پر نور برس رہا ہوتا ہے جو دیکھتا ہے دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔ جدھر نگاہ اُٹھ جائے قلوب مسخر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ عمران خان اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہیں کہ شروع سے ہی مرجع خلائق ہیں۔ اب تک تین خوبصورت ترین خواتین ، حبالۂ عقد میں آ چکی ہیں۔ کشش کی انتہا ہے کہ ایک عابدہ اور زاہدہ خاتون بشریٰ بی بی نے بھی برضا و رغبت اپنے آپ کو اُن کے عقد میں دے دیا۔ اُن کے جلسوں نے حاضری کے لحاظ سے ریکارڈ توڑے۔ اکتوبر 2011ء کے مینار پاکستان کا جلسہ پاکستان کی تاریخ بدل دینے والا ثابت ہوا۔ اُن کے فلاحی کاموں کی فہرست طویل ہے ، ان میں لاہور کا شوکت خانم ہسپتال، جنوبی ایشیا کا خوبصورت ا ور انتظام کے لحاظ سے بہترین ہسپتال سمجھا جاتا ہے۔ سرطان (کینسر) کا پاکستان میں پہلا ہسپتال ہے‘ یہاں غریبوں کا علاج مفت ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
وزیراعظم کی منظوری، مراد سعید کو وفاقی وزیر بنا دیا گیا
بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نے مراد سعید کی کارکردگی سے خوش ہو کر انہیں وفاقی وزیر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مراد سعید خوش قسمت نکلے کہ پہلے سمسٹر میں ہی اگلی جماعت میں پہنچ گئے ، پوچھنے والے پوچھتے ہیں کہ وہ کون سی کارکردگی ہے جس نے وزیر اعظم کو اتنا خوش کر دیا کہ اُنہیں مکمل وزیر بنا دیا۔ ہمیں کچھ زیادہ نہیں معلوم لیکن دو باتیں جانتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ممتحن بہت سخت ہے۔ مراد سعید کی کوئی قابلیت ، اہلیت ، صلاحیت ا ور خوبی دیکھی ہو گی تو تبھی اگلے درجے میں ترقی دے دی، دوسری بات یہ کہ ہم انہیں ٹی وی ٹاکروں میں دیکھا کرتے ہیں۔ مقابل کو بات نہیں کرنے دیتے، اگر مقابل بات پر مصر رہے تو اُس کی سنتے ہی نہیں۔ ایک بات بڑے تواتر سے کہا کرتے ہیں کہ کسی کو این آر او نہیں دیا جائے گا۔ لوگ این آر او مانگنے والوں کے نام پوچھتے ہیں تو بڑی خوبصورتی سے ٹال جاتے ہیں۔ اُن کی ان باتوں پر مسلم لیگ ن کی رہنما اور ترجمان مریم اورنگزیب کو کہنا پڑا ، کیا مراد سعید نے این آر او کی ریڑھی لگا رکھی ہے۔ ریڑھی کے بارے میں تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن مراد سعید نے اپنا سودا خوب بیچا ۔ اب دیکھنا ہے کہ کابینہ کے اجلاسوں میں بھی زبان اسی طرح بے تکان چلتی ہے یا اچھے طالب علم کی طرح، اُستاد کو نہایت ادب اور خاموشی کے ساتھ سماعت کرتے ہیں۔ اب اُنہیں ٹی وی چینل اور کابینہ کے اجلاس میں فرق ملحوظ رکھنا ہو گا۔
٭٭٭٭٭
دورہ تھر: پلانٹ سے پانی پی کر سارا دن پریشان رہا‘ وزیراعلیٰ نے ایک گھونٹ نہیں پیا: چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان آفت زدگان تھر کے آلام و مصائب کا بچشم خویش جائزہ لینے اور ان کا حل نکالنے کیلئے گزشتہ روز تھر جا پہنچے۔ انہوں نے واپسی پر تھر کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا کہ مٹھی کے ہسپتال میں آٹھ سال سے ایکسرے مشین خراب ہے۔ آپریشن تھیٹر ہے‘ لیکن ادویات اور سرجن نہیں۔ جو پانی میں نے وہاں پلانٹ سے پیا خود سارا دن پریشان رہا کہ یہ وہ پانی ہے جو لوگوںکو دیا جا رہا ہے جبکہ وزیراعلیٰ نے ایک گھونٹ پانی بھی نہیں پیا۔ ایک سکول میں گیا جس کیلئے سٹاف تھا نہ پینے کا پانی۔ مجھے تو یہ شرم آرہی تھی کہ لڑکیوں کے سکول میں واش روم نہیں۔ ہم گئے تو مریضوں کو چارپائیوں پر لٹایا ہوا تھا‘ ہم نکل گئے تو کیمپ کو اکھاڑ کر سامان ٹرک پر لاد کر چلے گئے۔ یہ تو ہم نے خود ٹی وی چینلز پر دیکھا کہ چیف جسٹس صاحب جو پانی پی رہے تھے وہ دور سے بھی گدلا نظر آرہا تھا اور وزیراعلیٰ پیرومرشد سید مراد علی شاہ اسے دیکھ کر دل ہی دل میں دعا مانگ رہے تھے کہ خدا نہ کرے چیف جسٹس کہیں انہیں دوسرا گلاس نہ پیش کر دیں۔ اس قوم پر اللہ کی رحمت کیوں ہوگی جس کے ایک طبقے کیلئے پینے کا پانی باہر سے درآمد کیا جاتا ہے اور دوسرا طبقہ چھپڑوں سے پانی پی رہا ہے۔ ایسے جوہڑوں سے جس کے پانی میں مویشیوں کا بول براز تک شامل ہوتا ہے‘ ایک طبقہ چھینک آنے پر چیک اپ کیلئے لندن کا رخ کر لے اور دوسرے طبقے کے ہسپتال کی ایکسرے مشین آٹھ سال سے خراب پڑی ہو۔ جن کے بچے اگر اندرون ملک پڑھ رہے ہوں تو وہ ایسے سکول ہوں جہاں دنیا جہان کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہوں اور رعایا کی بچیوں کے سکولوں میں بیت الخلاء تک نہ ہو۔ اللہ تعالی چیف جسٹس کی سعی کو مشکور کرے۔ شاید ان بھولے بسرے پاکستانیوںکے مقدر بھی سنور جائیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سینئر صحافیوں کا نیب حوالات کا دورہ‘ قیدیوں کی سہولت کے متعلق بریفنگ
نیب کی حراست میں ملزموں کے ساتھ مبینہ تشدد‘ جارحانہ رویہ اور کیمروں کے حوالے سے الزامات کو دور کرنے کیلئے صحافیوں کو لاہور نیب کی حوالات کا دورہ کرایا گیا۔ خبر میں ’’سینئر صحافیوں‘‘ کے نام نہیں بتائے گئے جن پر نیب کی شہرت کو داغدار کرنے والے الزامات پردہ چاک کرنے کی بھاری ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ ڈی جی نیب نے ملزموں کو فراہم کی جانے والی سہولتوں کی تفصیلات کا ذکر کرتے ہوئے بتا دیا کہ نیب کے تمام سیلز میں باقاعدہ روشندان موجود ہیں۔ یہ یاد رہے سیل‘ سیل ہے‘ کمرہ نہیں ہوتا۔ دراصل بعض لوگ نیچر کے ہی ایسے ہوتے ہیں کہ کسی کی نیک نامی ان سے برداشت نہیں ہوتی۔ جب تک وہ دوسروں پر کیچڑ نہ اچھال لیں انہیں چین نہیں آتا۔ اس کی بڑی مثال وہ لوگ ہیں جنہیں کوئی دو چار دن ان حوالات میں گزارنے کا موقع ملتا ہے‘ لیکن وہ اپنی اس ’’خوش قسمتی‘‘ پر رشک کرنے کی بجائے باہر آکر پراپیگنڈا شروع کر دیتے ہیں۔ دراصل ان کا مقصد دوسرے لوگوں کو ان حوالات میں آنے سے خوفزدہ کرنا ہے تاکہ وہ ان برکات و فیوض سے استفادہ نہ کر سکیں جن سے وہ خود فیض اٹھا چکے ہیں حالانکہ یہ توفیق مقدر سے ملتی ہے؎
ایں سعادت بزور بازو نیست
نیب والوں نے سینئر صحافیوں کوحوالات کا دورہ کراکے نیب سے دلی کدورت رکھنے والوں کی زبانوں کو ہمیشہ کیلئے تالا لگا دیا ہے بلکہ انہیں بولنے جوگا نہیں چھوڑا۔ معلوم ہوتا ہے کہ سینئر صحافیوں کا یہ دورہ چند گھنٹوں کا تھا۔ ہماری رائے میں اگر انہیں ایک دو روز کیلئے ان حوالات میں بطور مہمان ٹھہرا لیا گیا ہوتاتو تمام شکوک رفع ہو جاتے‘ لوگ آئندہ کیلئے دوسری حوالاتوں کی بجائے نیب کی حوالات جانے پر اصرار کرتے۔