قیام پاکستان کے بعد سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ استحصالی ریاستی نظام نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں سیاسی سماجی اور معاشی محرومیاں پیدا کیں جن سے بیرونی قوتوں نے فائدہ اٹھایا۔ بھارت آغاز سے ہی مشرقی پاکستان میں نفرت کے بیج بو رہا تھا۔ مستند شہادتوں کے مطابق شیخ مجیب الرحمٰن ظاہری طور پر تو پاکستانی آئین کے مطابق سیاست کر رہے تھے مگر خفیہ طور پر وہ علیحدگی پسندوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ جنرل ایوب خان نے تحریری طورپر خبردار کردیا تھا کہ امریکہ اور برطانیہ دونوں پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے نہیں دینا چاہتے۔ دونوں کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان ان کا مرہون منت رہے۔ افسوس جنرل یحییٰ خان نے ایوب خان کے اس صائب مشورہ پر توجہ نہ دی اور امریکہ کے چین کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کیلئے خفیہ سفارتکاری کی۔ شہادتوں کے مطابق امریکہ کے صدر نکسن نے جنرل یحییٰ خان کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اگر بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کی تو امریکہ پاکستان کا دفاع کرے گا۔ ہنری کسنجر نے اپنی کتاب وائٹ ہاؤس ائیرز میں تحریر کیا کہ جنرل یحییٰ خان نے امریکہ کے چین کے ساتھ تعلقات استوار کرانے کے لئے امریکہ سے کوئی معاوضہ بھی طلب نہ کیا۔ صدر نکسن نے امریکہ کو چین کے قریب لانے کے پاکستان کے کردار کا اعتراف اور ستائش کرتے ہوئے وزیر خارجہ کو پاکستان کے لئے دو بلین ڈالر انعام کے اعلان کا اختیار دیا تھا مگر پاکستان کی طرف سے ایسے کسی تقاضے کا عندیہ نہ پا کر ردہ خاموش رہے اور صدر کو جا کر مبارک دی کہ اس نے صدر کے دو بلین ڈالر بچائے ہیں ۔
پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے حکمران بڑی طاقتوں کے آگے سستے داموں بکتے رہے۔
1970ء کے انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان نے انتقال اقتدار میں تاخیر کی۔ وہ ہر صورت پاکستان کے صدر رہنا چاہتے تھے۔ ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا۔ بنگالیوں کے دلوں میں نفرت اور احساس محرومی کے جذبات پہلے ہی موجود تھے۔ جب ان کو یہ احساس ہوا کہ مغربی پاکستان کی قیادت ان کو اقتدار منتقل نہیں کرنا چاہتی تو وہ کھلی بغاوت پر آمادہ ہو گئے۔
بھارت نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھایا اور 31مارچ1971ء کو بھارتی پارلیمنٹ میں ایک قرارداد منظور کی کہ مشرقی پاکستان کے حریت پسندوں سے مکمل تعاون کیا جائے گا۔ امریکہ کے صدر نکسن ظاہری طور پر پاکستان سے تعاون کرتے رہے مگر انہوں نے عملی طور پر کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا کہ جس سے بھارت کو جارحیت سے باز رکھا جاتا۔ ہنری کسنجر کے مطابق امریکہ کو مئی 1971 میں قابل اعتماد ذرائع سے علم ہو گیا کہ بھارت کی وزیراعظم اندراگاندھی نے مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ 9 اگست 1971ء کو روس نے بھارت کے ساتھ دوستی کا سمجھوتہ کر لیا جس کے مطابق طے پایا کہ اگر دونوں میں سے کوئی ملک کسی اور ملک سے جنگ میں مصروف ہو گا تو دوسرا فریق کسی تیسرے ملک کی حمایت نہیں کرے گا۔ اس سمجھوتے کے بعد واضح ہو گیا کہ بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ اس کے باوجود امریکہ نے روس اور بھارت پر دباؤ نہ ڈالا‘ بھارت کی وزیراعظم اندراگاندھی نے نومبر میں اہم ملکوں کا دورہ کیا اور امریکہ میں صدر نکسن سے ملاقات کی جس کا مقصد جارحیت سے پہلے عالمی رائے عامہ کو سازگار بنانا تھا۔ کسنجر نے جولائی 1971ء میں چین اور برصغیر کا دورہ کیا اور واپسی پر نیشنل سکیورٹی کونسل کو بریف کرتے ہوئے کہا کہ بھارت جنگ پر تلا ہوا ہے اورجنرل یحییٰ کے پاس سیاسی مسائل حل کرکے بھارتی حملے سے بچنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ہنری کسنجر کے مطابق نومبر کے آخری ہفتے میں سی آئی اے نے امریکی حکومت کو یہ رپورٹ دی کہ بھارت اس وقت تک جنگ جاری رکھے گا جب تک پاکستانی فوج اور فضائیہ کی طاقت کو تباہ نہ کر دیا جائے اور بھارت پورے کشمیر کا کنٹرول حاصل نہ کرلے۔
اس خفیہ رپورٹ کے بعد نکسن اور کسنجر کو مغربی پاکستان کی سلامتی کی فکر لاحق ہوئی۔ جنرل یحییٰ خان نے 2 دسمبر 1971 کو امریکہ سے انیس سو انسٹھ کے وعدے کے مطابق پاکستان کی آزادی اور خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کے لئے مدد طلب کی۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے جواب دیا کہ اس معاہدے کی روشنی میں امریکہ پاکستان کی مدد صرف اس صورت میں کرنے کا پابند ہے جب اسے کسی کمیونسٹ ملک کی جانب سے خطرہ ہو۔ امریکہ نے 1965ء کے بعد ایک بار پھر پاکستان کے ساتھ کھلی بے وفائی کی۔
امریکی صدر نکسن نے 9 دسمبر 1971 کو روس کے صدر کو پیغام دیا کہ برصغیر میں جنگ سے امریکہ اور روس کے بڑھتے ہوئے تعلقات کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے‘ ہم فائربندی پر زور دے رہے ہیں۔ اگر بھارت نے مغربی پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کی تو امریکہ خاموش نہیں رہے گا۔ امریکی صدر نکسن نے 12 دسمبر 1971ء کو روس کے وزیراعظم برزنیف سے ہاٹ لائن پر رابطہ کرکے خبردار کیا کہ امریکہ بھارت کے مغربی پاکستان پر حملے کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گا۔ جب بھارت نے مشرقی پاکستان میں فیصلہ کن برتری حاصل کر لی تو امریکہ نے اپنا بحری بیڑہ خلیج بنگال کی جانب روانہ کردیا جس کا واحد مقصد یہ تھا کہ بھارت مغربی پاکستان پر حملہ کرنے سے باز رہے۔ 1970ء کی پاک بھارت جنگ کے بارے میں خفیہ دستاویزات پبلک ہوچکی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ مشرقی پاکستان کی حفاظتً میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا اور اس کی خفیہ ہمدردیاں بھارت کے ساتھ تھیں مگر جب مغربی پاکستان کو خطرہ لاحق ہوا تو اسے اپنے علاقائی مفادات خطرے میں نظر آنے لگے لہٰذا اس نے اپنے قومی مفادات کے تحت سرگرم سفارت کاری کرکے بھارت کو مغربی پاکستان پر حملہ کرنے سے باز رکھا۔ اگر امریکہ چاہتا تو وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے بھارت کو مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے سے بھی باز رکھ سکتا تھا مگر اس نے خفیہ طور پر بھارت کے ساتھ تعاون کیا اور امریکی بحری بیڑہ سرسے پانی گزر جانے کے بعد روانہ کیا۔
صدیق سالک اپنی کتاب وٹنس ٹو سرینڈر میں لکھتے ہیں کہ جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کا حکم دے کر بھارت کو جارحیت کا نادر موقع فراہم کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو مغربی پاکستان کے لیڈر تھے ان کا یہ خیال تھا کہ اگر مجیب الرحمن کے چھ نکات تسلیم کرلئے جائیں تو اس کے نتیجے میں مغربی پاکستان بھی چار حصوں میں تقسیم ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے غیرجانبدار مورخ متفق ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے سخت مؤقف اختیار کرکے مغربی پاکستان کے اتحاد اور یکجہتی کو بچا لیا۔ سقوط ڈھاکہ کا سبق یہ ہے کہ پاکستان کا جاگیردارانہ‘ سرمایہ دارانہ ریاستی استحصالی نظام پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یہ نظام پاکستان کے عوام کو متحد کرنے کی بجائے تقسیم کر رہا ہے جس کا حکمران اشرافیہ کو قطعی طور پرکوئی احساس نہیں ہے اگر ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں مستقل طور پر مضبوط اور مستحکم بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں غیرمنصفانہ اور استحصالی ریاستی نظام کو ہنگامی طور پر بدل دینا ہوگا۔
ریاستی نظام کو اسلام کے سنہری اصولوں امانت‘ دیانت‘ صداقت‘ مساوات‘ انصاف اور عوامی فلاح کے مطابق تشکیل دینا ہو گا۔ پاکستان کو فلاحی ریاست بناکر ہی مضبوط اور مستحکم کیا جاسکتا ہے اور بیرونی طاقتوں کی سازشوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔کر نل ریٹائرڈ زیڈ آئی فرخ تجزیہ نگار ہیں۔ ستمبر 1970ء میں مشرقی پاکستان میں تعینات تھے۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے 1970ء کے انتخابات اور فوجی آپریشن کو دیکھا۔
اُنہوں نے پاک بھارت جنگ میں حصہ لیا اور بعد میں بھارت میں جنگی قیدی رہے۔ انہوں نے ’’بچھڑ گئے‘‘ کے نام سے خودنوشت تحریر کی ہے جو بڑی دلچسپ اور جامع ہے۔ ان کی کتاب کی تعارفی تقریب سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری کی صدارت میں ہوئی۔ مجیب الرحمن شامی‘ ارشاد عارف‘ بریگیڈئیر فاروق حمید‘ فرخ سہیل گوئندی‘ شاہد رشید‘ جنرل سہیل جعفری‘ ناصر شیرازی اور راقم نے اظہار خیال کرتے ہوئے مصنف کو سقوط ڈھاکہ پر بہترین کتاب لکھنے پر زبردست خراج تحسین پیش کیا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024