سپریم کورٹ میں کراچی سے تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے میئر کراچی وسیم اختر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کو تجاوزات سے پاک کرنے کے لئے انہوں نے اپنا سیاسی کیئریئر داؤ پر لگادیا ہے۔ میئر کراچی نے نہ تو ذاتی فیصلے کے تحت اینٹی انکروچمنٹ آپریشن کا آغاز کیا ہے اور نہ ہی اس آپریشن میں کسی قسم کا کوئی فرق روا رکھا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے زبانی طور پر تو میئرکراچی پر الزامات لگائے لیکن سپریم کورٹ میں ان کے خلاف کوئی بھی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا۔
اب سپریم کورٹ نے تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری رکھنے کا حکم دیا ہے لیکن بہتر طریقہ تو یہی ہوتا کہ تجاوزات کی زدمیں آنیوالے لوگوں کو پہلے متبادل جگہ دی جاتی اور پھر آپریشن کیا جاتا کیونکہ لوگ 50-50سال سے کاروبار و رہائش اختیار کئے ہوئے ہیں اور راتوں رات کارروائی کرکے بے دخل کرنا بھی زیادتی ہے۔سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ متبادل جگہ فراہم کرکے متاثرین کو ریلیف دے۔ میئر کراچی تو سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف زبانی جمع خرچ کے بجائے سپریم کورٹ میں پہلے ہی درخواست دے دیتیں کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن اس وقت تک نہیں ہونا چاہئے جب تک متاثرین کے لئے کاروبار ورہائش کی متبادل جگہ کا درست بندوبست کرکے ان کے حوالے نہ کردی جاتی اس وقت تک تجاوزات کے خلاف آپریشن نہ کیا جاتا۔ اس وقت یہ صورتحال ہے کہ معاشی حالات کے باعث کاروبار اور نوکریاں بالکل نہیں ہیں اور جو لوگ وابستہ روزگار تھے انہیں بھی راتوں رات بے روزگار کردیا گیا۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن کی تیزی نے کئی گھروں کے چولہے ٹھنڈے کردیئے۔ ایک بزرگ کی بات سن کر دل خون کے آنسو رورہا تھا کہ میری 5بیٹیاں ہیں اور اب بے روزگار ہوگیا ہوں۔ سپریم کورٹ نے درست فیصلے کئے ہیں اور کثیرالمنزلہ عمارتوں پر عائد پابندی کوہٹادیا گیا ہے کیونکہ انہیں یہ احساس ہوگیا تھا کہ کثیرالمنزلہ عمارتوں پر پابندی مزید عائد نہیں رکھی جانی چاہئے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار کی مدت ملازمت مکمل ہونے والی ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کو پاکستان کی تاریخ میں بہترین چیف جسٹس کا اعزاز حاصل ہے اور تاریخ میں ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا خصوصاً بڑے ڈیموں کی تعمیر کے لئے ان کی مہم اور عزم قابل تحسین ہے وہ انہوں نے ملک کی آنیوالی نسلوں پر احسان عظیم کیا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد اگر کوئی اس خام خیالی کا شکار ہے کہ ان کے بعد عدلیہ میں مفاد عامہ اور ملک کے وسیع تر مفاد کے معاملات پر عدلیہ کا رویہ تبدیل ہوجائے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ عدلیہ اب انشاء اﷲ ہمیشہ ملک کو اولین ترجیح رکھ کر مفاد عامہ کے بہترین فیصلے جاری رکھے گی۔ بحریہ ٹاؤن کراچی کے معاملات پر سپریم کورٹ میں کیسز چل رہے ہیں او رقانون کے مطابق ان پر جلد فیصلے ہونے چاہئیں۔ بحریہ ٹاؤن میں مقامی خصوصاً بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بھاری سرمایہ کاری ہے اور بحریہ ٹاؤن کے متعلق کیسز کے فیصلوں میں تاخیر سے بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح بحریہ ٹاؤن کراچی میں تقریباً 25000افراد وابستہ روزگار تھے۔ سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی زمین کی خریداری کے متعلق سماعت جاری رکھی ہوئی ہے۔ اسی طرح عدلیہ میں عام لوگوں نے بھی رجوع کیا ہے کہ ان کی زمین پر بحریہ ٹاؤن نے قبضہ کر لیا ہے۔ ماضی میں چیف جسٹس نے حمزہ شہباز اور ان کی اہلیہ کو چیمبر میں بٹھاکر معاملہ حل کرایا تھا۔ اب بحریہ ٹاؤن کے معاملے میں وسیع تر قومی‘ عوامی مفاد اور بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کے ساتھ ساتھ 25000لوگوں کو دوبارہ روزگار پر بحال کرنے کے لئے بہتر ہوگا کہ بحریہ کے خلاف درخواست دینے والے عام شہریوں اور بحریہ ٹاؤن کو آمنے سامنے بٹھاکر ان کی زمینوں کی موجودہ مناسب قیمت ادا کرنے کا حکم دیا جائے۔ اس طرح سے عام شہریوں کو ان کی زمین کی مناسب قیمت بھی مل جائے گی اور بحریہ ٹاؤن پر ان الزامات کا بھی خاتمہ ہوگا۔
سندھ گورنمنٹ اور ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی زمینوں کے متعلق بھی بحریہ ٹاؤن کو موجودہ مارکیٹ ریٹ دینے کا حکم دیا جائے تاکہ حکومت کو ان بنجر زمینوں کی مناسب ترین قیمت بھی مل سکے اور بحریہ ٹاؤن میں پلاٹ ‘ بنگلے اور فلیٹ میں کثیر سرمایہ کاری کرنے والے عام شہریوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی بھی محفوظ ہوسکے۔ کیونکہ جو بھی غیر قانونی کام ہوا ہے وہ بحریہ ٹاؤن اور اس کی انتظامیہ نے کیا ہے اس میں عام آدمی کا کوئی قصور نہیں اور نہ ہی عام آدمی کو اس کی سزا ملنی چاہئے۔ اگر بحریہ ٹاؤن پروجیکٹ ختم کیا جاتا ہے تو اس بات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے کہ عام آدمی کی بحریہ ٹاؤن کو ادا کی گئی ایک ایک پائی اسے واپس ملنی چاہئے۔
بحریہ ٹاؤن میں پراپرٹی کی خریدوفروخت کے عمل کے متعلق سپریم کورٹ کا نوٹس لینا خوش آئند ہے اور بحریہ ٹائون کی چہار دیواری کے اندر ہی پراپرٹی کا ٹرانسفر ہوجانا کسی حد تک مشکوک ہے کیونکہ پراپرٹی کی خریدو فروخت میں کئی صوبائی و وفاقی ٹیکسز لاگو ہیں اور ان ٹیکسز کی باقاعدگی سے پوری طرح وصولی خصوصاً کیپٹل گین ٹیکس کی وصولی کو ہر صورت یقینی بنایا جانا چاہئے۔ بحریہ ٹاؤن کے خلاف اس معاملے میں ڈی ایچ اے سے بھی ریکارڈ طلب کیا گیا ہے۔ بہتر تو یہ ہوگا کہ بحریہ ٹاؤن پراپرٹی کی خریدوفروخت کے عمل میں بحریہ ٹاؤن آفس میں ہی وفاقی و صوبائی اداروں کے ٹیکس‘ ریونیو کے دفاتر قائم ہوں جو موقع پر ہی سرکاری چارجزو مکمل معلومات درج کرکے وصول کرلیں اور اب تک بحریہ ٹاؤن نے جتنی بھی پراپرٹی کی ٹرانسفر کا عمل کرکے وفاقی و صوبائی ٹیکسز جمع کئے ہیںان کا حکومتوں کو مکمل ریکارڈ دیکر ادائیگی کرنی چاہئے۔
مستقبل میں بحریہ ٹاؤن پراپرٹی کے ٹرانسفر کے لئے متعلقہ رجسٹرار آفس کے ذریعے بھی طریقہ کار کا حکم دیا جاسکتا ہے کیونکہ ہر صورت اس بات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے کہ بحریہ ٹاؤن پراپرٹی سرکار کے پاس رجسٹرڈ بھی ہو اور اس کی درستگی کی سرکاری ضمانت بھی ہونی چاہئے اور پراپرٹی ٹرانسفر پر رائج تمام ٹیکسز کی مکمل ادائیگی بھی ہر صورت یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔ اسی لئے بحریہ ٹاؤن کے ان تمام معاملات پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل ہی فیصلے کردینے چاہئیں تاکہ بیرون ملک مقیم و مقامی عام پاکستانیوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی بھی محفوظ ہوجائے اور بحریہ ٹاؤن میں روزگار سے وابستہ 25000لوگوں کا روزگار بھی دوبارہ بحال ہوسکے۔اس متعلق جلد فیصلے سے معیشت پر گرانقدر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔بحریہ ٹاؤن کو بھی چاہئے کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کرکے اپنا کاروبار جاری رکھے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024