بشریٰ اقبال ملک جرمنی میں اردو کی استاد ہیں۔ اُن کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔ و ہ ادیب، آرٹسٹ اور سماجی کارکن ہیں۔ بشریٰ اقبال ملک نے 1994ء میں اُس وقت کے صوبہ سرحد میں پاک ویمن رائٹرز فورم کا آغاز کیا۔ تقریباً 14 برس بعد پاک ویمن رائٹرز فورم کے تحت 2008ء میں ینگ ویمن رائٹرز فورم کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ ایک مددگاری تنظیم ہے جو نوجوان خواتین لکھاریوں، آرٹسٹوں اور دانشوروں کو اپنا ویژن اور ٹیلنٹ ڈویلپ کرنے اور اپنی صلاحیتوں کو بڑھاوا دینے میں وسائل اور فنی مہارت فراہم کرتی ہے۔ اس طرح ایک نیٹ ورک کے تحت نوجوان خواتین لکھاری، آرٹسٹ اور دانشور اپنی صلاحیتوں اور کوششوں کے ساتھ باہمی رابطے میں رہ سکتی ہیں۔ اس فورم کے تحت ہرعمر اور سب پاکستانی زبانوں کی نئی نوجوان خواتین لکھاریوں کو تلاش کیا جاتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس فورم میں تعمیری اور مثبت ماحول کو برقرار رکھنے پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ اس کے لئے فورم کے تحت نامور سینئر لکھاریوں اور دانشوروں کے ساتھ نوجوان خواتین لکھاریوں کی ملاقاتوں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ ینگ ویمن رائٹرز فورم کے مقاصد میں یہ بات بھی شامل ہے کہ نوجوان خواتین لکھاریوں کی تخلیقات اورسوچوں کو دوسری پاکستانی زبانوں اور بین الاقوامی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے۔ نئی نسل کی خواتین لکھاریوں کی ذہنی تربیت اور جدید رجحانات کو سمجھنے کے لئے اُن کے انٹرنیشنل ایکسپوژر کا خیال بھی رکھا جاتا ہے۔فورم میں نوجوان خواتین لکھاری دانش، فلسفہ، شاعری اور نثر پر تبادلہ خیال کرتی ہیں اور اپنی نئی تخلیقات کو تنقید کے لئے سب کے سامنے کھلے دل سے پیش کرتی ہیں۔ اِس وقت ینگ ویمن رائٹرز فورم کے اسلام آباد، لاہور، کراچی، حیدرآباد اور بہاولپور سمیت پانچ چیپٹر نوجوان خواتین لکھاریوں کو آزادانہ اظہار خیال کے لئے مئوثر پلیٹ فارم مہیا کررہے ہیں۔ اسلام آباد چیپٹر کی نوجوان خواتین لکھاریوں میں پریزیڈنٹ اینڈ کوفائونڈر رابعہ بصری، وائس پریزیڈنٹ عاصمہ شاہ، جنرل سیکرٹری تحریم حسن، ،میڈیا ہیڈ عروج احمد جبکہ دیگر اہم عہدے داروں میں فرحین خالد، صفیہ شاہد، نوسیقا سید، نوشین قمر، اُم کلثوم، سیدہ نازش ظہور، قندیل کاظمی، حنا خان اور قیصرہ اکرام وغیرہ شامل ہیں۔انہوںنے حال ہی میں اسلام آباد میں نوجوان خواتین لکھاریوں کے ایک بڑے ادبی میلے کا اہتمام کیا۔ اسکے دو سیشنز تھے۔ ’’روشنی سے روشناس‘‘ کے عنوان کے تحت پہلا سیشن بصارت سے محروم مگر بصیرت کی دولت سے مالا مال تخلیق کاروں کی تخلیقی کاوشوں اوران کی پذیرائی کرنے پر مشتمل تھا۔ اس میں روبینہ شاد، ڈاکٹرتیمورحسن،حافظ ہارون احمد ہمادان اور رابیل پیر زادہ نے اپنا اپنا کلام سنایا۔ اس اجلاس کی نظامت فرحین خالد نے کی جبکہ دوسرے سیشن کا مقصد نوجوان خواتین لکھاریوں کی تخلیقی ادبی سرگرمیوں کو سراہنا تھا۔ اس کے مہمانانِ اعزاز میں نا مور سینئر لکھاری حمید قیصر اورممتازسماجی کارکن عمر اکمل شامل تھے۔ نظامت کے فرائض صفیہ شاہد اور سعدیہ بتول نے سرانجام دیئے۔ اس سیشن میں تین لکھاریوں کے ادبی کام کو زیربحث لایا گیا جس میں افسانہ نگار، کالم نگار اور ڈرامہ نگار فرحین خالد، بچوں کا ادب تخلیق کرنے والی مریم جہانگیر اور جدید لب و لہجے کی حامل شاعرہ سارہ خان شامل تھیں۔ ان لکھاریوں کی تخلیقات نے حاضرین سے بے پناہ داد وصول کی۔ ان خواتین کے ادبی کاموںپر تبصرے بھی کیے گئے۔ تبصرہ کرنے والوں میں شاعر ارشد ملک، نقاد نوشین قمر اور شبیہہ زہرہ شامل تھیں۔ اس کے علاوہ تقریب کے اوپن مائیک سیگمنٹ میں ارشد ملک نے اپنی نظم ’’مجھے تم مسکراتی اچھی لگتی ہو‘‘ اور عاطف سعید نے اپنی نظم ’’کہا تھا ناں‘‘ سنائیں جبکہ ینگ ویمن رائٹرز فورم اسلام آباد چیپٹر کی صدر اورکوفائونڈر رابعہ بصری نے حاضرین کی فرمائش پر اپنا کلام سناکر دادوتحسین سمیٹی۔اس ادبی میلے میں حاضرین کی کثیر تعداد شامل تھی جنہوں نے رابعہ بصری اور ان کی ٹیم کی ادبی اور انتظامی صلاحیتوں کی بہت تعریب کی ۔ فرحین خالد نے اس موقع پر کہا کہ ’’بحیثیت خاتون لکھاری ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنی تحریروں میں عورت کے تصور کو بہتر بنائیں‘‘۔ فرحین خالد نے مائیکرو فکشن کے حوالے سے اپنا درج ذیل افسانہ ’’سوہنی دھرتی‘‘ بھی پیش کیا جو صرف ڈیڑھ سو الفاظ پر مبنی تھا۔ سوہنی دھرتی۔ ’’آج میں پچیس سال بعد وطن واپس جارہا تھا۔ وارفتگی کا عالم بیان سے باہرتھا۔ وہی سفید لباس پہنا جو تیار کرایا تھا۔ جس ملک کی امیگریشن نے پیروں میں بیڑیاں ڈالے رکھیں وہ میرے دل سے پیارے وطن کی محبت کھرچ نہ سکی تھی۔ ماں سے کیا وعدہ بھی نہ نبھا پایا تھا مگر آج جہاز میں سوار ہوتے ہی پرسکون ہوگیا تھا۔ کہیں بیٹھا ایک بچہ ہر تھوڑی دیر بعد ماں سے دریافت کرتا کہ امی، پاکستان کب آئے گا؟ تو میں مسکرا دیتا۔ اس کا حال بھی میرے جیسا تھا۔ اللہ اللہ کرکے سفر کٹا۔ بیٹے کا سہارا لئے باہر پہنچا تو سارے رشتے دار پھول لئے جذباتی انداز میں ملے مگر مجھے تو ماں کی آغوش پکار رہی تھی۔ ہم سیدھے قبرستان پہنچے۔ بیٹے نے میرے کان میں کہا، فی امان اللہ اور مجھے سوہنی دھرتی میں سپردخاک کردیا‘‘۔ فرحین خالد نے بہت خوبصورتی اور کم الفاظ کے ساتھ اپنے سے پہلی نسل کی وطن سے محبت کے احساس کو اجاگر کیا ہے لیکن اُس نسل کو روزگار کے لئے دھرتی ماں سے زندگی بھر دور رہنے کا احساس بھی دلایاہے۔ نوجوان لکھاری فرحین خالد کی یہ تخلیق پرانی نسل کے شعور کے لئے ایک بڑا گِلہ ہے۔ ینگ ویمن رائٹرز فورم کی ممبر زحیرت انگیز طور پر منظم ہیں، اُن کی تخلیقات میں فالتو موضوعات تو ایک طرف فالتو الفاظ بھی شامل نہیں ہیں۔ یہ نوجوان لکھاری اپنی مشرقی اقدار پر فخر کرتی ہیں۔ قابل رشک بات یہ ہے کہ ینگ ویمن رائٹرز فورم کی سب ممبران مہذب اور اپنے سے سینئر لکھاریوں کا بہت احترام کرنے والی ہیں جو آج کی نوجوان نسل میں بہت کم ہو گیا ہے۔کشور ناہید، تسنیم منٹو،جمیلہ ہاشمی،نثار عزیز، پروین شاکر، حاجرہ مسرور، خدیجہ مستور،بانو قدسیہ، ادا جعفری، فاطمہ ثریا بجیا، حسینہ معین اور ثمینہ راجا جیسی مایہ ناز شخصیات نے خواتین لکھاریوں کے لئے تپتے صحرا میں جو راستہ بنایا تھا وہاں اب ینگ ویمن رائٹرز فورم کی صورت میں سرسبز نخلستان آباد ہورہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب پاک ٹی ہائوس لاہور، گورنمنٹ کالج لاہور اور حلقہ اربابِ ذوق پاکستان کی ادبی اور ثقافتی قیادت کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ ان اداروں کے زوال پذیر ہونے سے ایک خلا پیدا ہوگیا۔ ینگ ویمن رائٹرز فورم کے ٹیلنٹ کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ینگ ویمن رائٹرز فورم مستقبل میں پاکستان کی ادبی قیادت کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024