اس وقت جب پوری دنیا کے دانشور مسلمان رہنماء فلسطین کے حوالے سے اسرائیل اور امریکہ کے فیصلوں پر تدبیر کرتے نظر آ رہے ہیں وہیں پاکستان میں اس اہم مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان میں دھرنوں کا عظیم سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ جب بھی ایسا کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے طاہر القادری صاحب خصوصی طور پر پاکستان تشریف لے آتے ہیں تا کہ پاکستان کے جذباتی لوگوں کی توجہ اسلام دشمن قوتوں کی طرف مبذول نہ ہونے پائے۔ اسی کی مثال لے لیجئے پوری دنیا کے مسلمان یروشلم کو دارالخلافہ بنائے جانے اور اسرائیل کی وسعت پسندی پر پریشان ہیں مگر ہمارے ہاں ہر کوئی صرف دھرنوں کی بات کر رہا ہے۔ سب کو ماڈل ٹائون کا واقعہ یاد ہے اور یہ واقعہ سال میں ایک آدھ بار ہی یاد آتا ہے۔ جب کوئی مخصوص مفادات حاصل کرنے ہوتے ہیں تو اس فائل سے گرد جھاڑ کر اسے جھنڈا بنا لیا جاتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ طاہر القادری صاحب ایک عظیم دھرنا فلسطین اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے لئے بھی دیتے مگر نہ انہیں مسلمانوں کی فکر ہے اور نہ ہی پاکستان کی بلکہ ان کے لئے ان کے عظیم مقاصد زیادہ اہم ہیں جس کی سمجھ آج تک کسی کو نہیں آئی۔ بہرحال یہ طے ہے کہ وہ جب بھی آتے ہیں کوئی خاص ایجنڈا لے کر آتے ہیں۔ دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ ان کی باتوں میں اتنا سحر ہے کہ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کو دائیں بائیں بٹھانے کا انتظام کرلیا ہے۔ کس قدر حیرانی کی بات ہوگی جب دو جمہوری جماعتیں ایک جمہوریت پر یقین نہ کرنے والے شخص کے پیچھے کھڑی ہوں گی۔ تحریک انصاف کی بات چھوڑیں پاکستان پیپلزپارٹی اس کے بعد اپنا سیاسی وقار کیسے بحال کر پائے گی؟ تاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ ترکی کے صدر طیب اردگان نے اس موقع پر بھرپور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین کے معاملے پر او آئی سی کانفرنس منعقد کی ہے اور اس میں خصوصی طور پر وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کو دعوت دی گئی ہے۔ اگرچہ اس کانفرنس میں پاکستان کے وزیراعظم بھی موجود ہیں لیکن وزیراعلیٰ پنجاب توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی شخصیت کا سحر ہے یا ان کے کارناموں کی لمبی فہرست کہ لوگ اب انہیں آئیڈیلائز کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ ایک عالمی سطح کی کانفرنس میں وزیراعلیٰ پنجاب کی شرکت کرنا پنجاب کے لئے بھی باعث فخر ہے۔ خادمِ اعلیٰ کی پرخلوص جدوجہد صرف ایک صوبے تک نہیں بلکہ پورے پاکستان کی تعمیر و ترقی پر مبنی ہے اور او آئی سی میں شرکت بھی اسی جذبے کی ترجمانی کی شاہد ہے جو وہ مسلم اُمہ کو متحد کرنے کے لئے رکھتے ہیں۔ پوری مسلم اُمہ اس وقت شہباز شریف کی مخلصانہ کاوشوں کو سراہا ہے بلکہ ان کی مدبرانہ سوچ سے مستفید ہونے کو ترجیح دے رہی ہے۔ شہباز شریف کی شخصیت کا سحر پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے جس کی ایک مثال تو یہ ہے کہ پنجاب میں شروع کئے جانے والے بہت سارے منصوبے اب دیگر صوبوں میں بھی شروع کر دیئے گئے ہیں اور وہاں کے لوگ انہیں اس حوالے سے خاص احترام اور محبت دیتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ترقی کے نئے سفر شروع ہوئے۔ تاریخ شاہد ہے کہ خادمِ اعلیٰ نے ہمیشہ ایک قومی رہنما کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ وہ جب بھی پنجاب کی بات کرتے ہیں تو یہاں شروع کئے جانے والے منصوبے کا اثر پاکستان پر دیکھتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان سے آگے بڑھ کر مسلم دنیا کے اتحاد اور بہتری کے حوالے سے بھی ان کی سوچ طیب اردگان سے ملتی ہے جس کی وجہ سے لوگ انہیں طیب اردگان سے تشبیہہ دے رہے ہیں۔ دونوں بہت متحرک، فعال اور شفاف رہنما ہیں جن کی سوچ میں وسعت ہے، جو عمل پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے عوام کے ساتھ ساتھ مسلم اُمہ کو پستی سے نکال کر دنیا میں باوقار مقام دلانا جن کا مقصدِ حیات ہے۔ خدا کرے کہ خادمِ اعلیٰ کو پاکستان کی خدمت کا کھل کر موقع ملے اور ہم وہ دن دیکھیں جب ان کی فراست اور حکمتِ عملی سے پاکستان ترقی کی نئی منزلوں کو چھو لے۔ موجودہ افراتفری اور بیان بازی کے دور میں شہباز شریف واحد رہنما ہیں جو دانش اور پوری ذمہ داری سے معاملات کو سلجھانے کی کاوش کر رہے ہیں۔ وہ آپس میں گتھم گتھا ہونے کی بجائے مسائل پر توجہ فوکس کر رہے ہیں۔ انہیں علم ہے کہ دنیا پاکستان اور اسلامی ملکوں کے حوالے سے کیا سوچ رہی ہے اس لئے وہ ایک وسیع تناظر میں مستقبل کا نقشہ تشکیل دے رہے ہیں۔ سچی بات ہے کہ موجودہ حالات میں شہباز شریف پاکستان میں واحد رہنماء کے طور پر نظر آتے ہیں جو عوام میں مقبول بھی ہیں اور جن کی صلاحیتوں سے ملک کو فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پاکستان کو کوئی بڑا رہنما میسر ہوا ہے تو وہ صرف خادمِ اعلیٰ ہی ہیں۔ اصل بات اخلاص اور نیک نیتی کی ہوتی ہے۔ ملک سے وفاداری کی باتیں تو سب کرتے ہیں لیکن عمل کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ خدا اس ملک کی حفاظت کرے اور صحیح معنوں میں خدمت کرنے والوں کے ہاتھوں میں اس کی باگ ڈور دے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024