وزارت داخلہ نے سابق چیف جسٹس جسٹس(ر) افتخارمحمد چودھری کی خواہش پر ان کو سکیورٹی خدشات پر بلٹ پروف گاڑی اور پروٹوکول کیلئے کیبنٹ ڈویژن کو ہدایت کردی جبکہ نئے چیف جسٹس نے جسٹس تصدق حسین جیلانی نے سکیورٹی کا روٹ لگانے سے منع اور پروٹوکول لینے سے انکار کردیا ہے۔
پاکستان میں پروٹوکول کلچر عام ہے حکومتی عہدوں پر براجمان ہر شخص پروٹوکول کا خواہاں ہوتا ہے لیکن وہ ملازمت سے جیسے ہی ریٹائر ہوتا ہے تو اس کے بعد بھی وہ ہٹو بچو کے کلچر سے باہر نکل کر عام آدمی کی طرح زندگی نہیں گزارنا چاہتا بلکہ اپنے سابقہ کارناموں کو حکومت کے سامنے رکھ کر پھر سکیورٹی اور پروٹوکول لینے کے چکر میں ہوتا ہے۔اگر حکومت ہر ریٹائرڈ آدمی کو سکیورٹی دینا شروع ہوجائے تو پھر عوام سے زیادہ سکیورٹی تو صرف وی آئی پی لوگوں کی حفاظت پر مامور ہوجائے گی اور عوام کا کوئی بھی پُر سا ن حال نہیں ہوگا اگر چیف جسٹس یا سیکرٹری داخلہ سخت فیصلے کرتا ہے تھانہ کا ایک ایس ایچ او بھی خطر ناک ملزمان کو گرفتار کرتا ہے پھر تو ہر ایس ایچ او ریٹائرمنٹ کے بعد سکیورٹی مانگنا شروع ہوجائے گا لہٰذا سکیورٹی کلچر کو ختم کرنے کیلئے اس مسئلے پر پارلیمنٹ میں بحث کی جائے اور پروٹوکول کلچر کو سرے سے ختم کرکے عوام الناس کو بھی سکھ اور سکون کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع دیاجائے سکیورٹی روٹ لگانے سے سڑکوں پر عام مسافر ٹرانسپورٹ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اکثر اوقات تو ایمبولینس بھی رش میں کھڑی رہتی ہے اور مریض تڑپ تڑپ کر جان دے دیتا ہے ۔نئے چیف جسٹس تصدق جیلانی نے سکیورٹی روٹ لگانے سے منع کردیا جبکہ پروٹوکول لینے سے بھی انکاری ہیں وہ لگے ہاتھوں پورے ملک سے اگر اس کلچر کو ختم کردیں تو عوام انکے احسان مند ہونگے اور قومی خزانے کا ضیاع بھی بچ جائے گا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024