ذہنی امراض اور خود کشی کے رجحانات

خبر ہے کہ فیصل آباد میں غربت کے ہاتھوں پریشان باپ نے 2 بیٹیوں کا گلا کاٹ کر خود کو پھندا لگا کر خودکشی کرلی۔ عتیق نامی شخص نے غربت سے پریشان ہوکر انتہائی قدم اُٹھا لیا۔چند روز قبل ایک اور خبر نظر سے گزری تھی جس میں ایک نوجوان شاعر جو ایم بی بی ایس کے آخری سال کا طالبعلم بھی تھا اس نے گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کی تھی ۔اس طالبعلم اور عتیق کا بیٹیوں کو قتل کرکے خود کشی کرنا اپنے پیچھے کئی طویل وحشتوں کا شاخسانہ ہے ۔ ہم روزانہ اخبارات میں خود کشی یا خود کشی کی کوشش بارے خبریں پڑھتے رہتے ہیں۔ لیکن بعض واقعات ہم پر گہرا اثر چھوڑ دیتے ہیں، مذکورہ واقعہ بھی انہی واقعات میں سے ایک ہے جس پر مجھے ایک دوست کی خود کشی پر کہا گیا اپنا شعر یاد آ گیا کہ
اِک طویل وحشت نے اپنا گل کھلایا ہے
موت کے تعاقب میں زندگی جو دوڑی ہے
خود کشی کی وجوہات جو بھی ہوں۔ خدا وند تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو کر اس طرح کے انتہائی قدم کو کسی طرح بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ خود کشی کے ایسے واقعات کی وجہ عموماََ حالات تو ہوتے ہی ہیں لیکن اس کا بنیادی محرک انسانی نفسیات ہے جس پر بد قسمتی سے پاکستان میں کوئی خاص توجہ نہ ماضی میں دی گئی اور نہ آئندہ نظر آتی ہے، پاکستان میں ذہنی امراض کے علاج کیلئے ذرائع انتہائی محدود ہیں۔ماہرین نفسیات کے مطابق خود کشی کا تعلق ذہنی دباﺅ سے یا ڈپریشن سے ہے اور ڈپریشن کی ایک بڑی علامت خود کشی کے خیالات کا آنا ہے۔ ’خودکشی یا خودکشی کی کوشش کرنے والے افراد میں اکثر خوداعتمادی کی کمی ہوتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو حقیر سمجھتے ہیں اور اپنی شخصیت کے بارے میں احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بحیثیت معاشرہ ہم لوگوں کو سراہتے نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کی کوتاہیوں اور ناکامیوں کو نمایاں کرتے ہیں۔‘ ایسی اموات کے کہیں نہ کہیں ہم سب یعنی معاشرہ اور حاکم وقت ذمہ دار ہوتے ہیں۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، معاشرتی رویے، بیروزگاری، افلاس ، معاشی بد حالی میں کسی نہ کسی طرح ہمارا ہاتھ ضرور ہوتا ہے اور ان واقعات کی ذمہ داری حاکم وقت پر بھی ہوتی ہے۔
پاکستان اسلامی جمہوریہ مملکت ہے اور خوش قسمتی سے ہمارا دین اسلام تو تعلیمات ہی امن، محبت، یگانگت ، رواداری ، یقین محکم اور امید کی دیتا ہے لیکن اس سب کے باوجود ملک بھر میں خود کشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ بسا اوقات اپنی جان لینے کیلئے ایک ذرا سی بات یا ناخوشگوار واقعہ ہی کافی ہوتا ہے۔ انسان کے تمام حالات و واقعات کا اثر اس کی دماغی صحت پر ہوتا ہے جسے وہ عموماََ نظر انداز کر دیتا ہے اور یہی آنکھ چرانا اس کیلئے جان لیوا بن جاتا ہے ، اس صورت میں سب سے بڑی ذمہ داری اس کے اہل خانہ پر عائد ہوتی ہے ، آج کل نوجوان نسل زیادہ ڈپریشن کا شکار ہے اور یہ ڈپریشن انہیں اپنی جان لینے کی طرف راغب کرتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ڈپریشن کی بھی دو اقسام ہیں۔ ایک تو وہ جس کے بارے میں لوگ عام طور پر جانتے ہیں یعنی کہ کسی حادثے یا سالہا سال مایوسی کی زندگی گزارنے کے بعد جب مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آتا اور زندگی بے معنی لگنے لگتی ہے تو انسان اپنی زندگی ختم کرنے کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔دوسری قسم فنکشنگ ڈپریشن کی ہے جس میں انسان بظاہر خوش باش، اپنے معمولات میں مشغول اور متحرک نظر آتا ہے ، یہ قسم پہلی والی سے زیادہ خطرناک ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جو لوگ خودکشی کر گزرتے یا کم از کم اس کی کوشش کرتے ہیں ان میں بھی دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو واقعی اپنی زندگی ختم کرنا چاہتے ہیں اور دوسرے وہ جو اپنے اردگرد لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے ایسا قدم ا±ٹھاتے ہیں کیونکہ بقول ا±ن کے کوئی بھی شخص ان کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا۔پاکستان میں ذہنی امراض کے حوالے سے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے ، حکومت کو چاہئے کہ وہ ذہنی امراض کیلئے خاطر خواہ بجٹ مختص کرنے کے ساتھ ساتھ جامع حکمت عملی مرتب کرے جس کے تحت عوم کو شعور دیا جائے ، ان کے دلوں سے یہ بات نکالی جائے کہ ذہنی امراض پر بات کرنا ممنوعہ ہے یا ان کا مذاق اڑایا جائے گا۔ اس بابت ہمیں بھی اپنا کردار اداکرتے ہوئے ”لوگ کیا کہیں گے“ سے باہر نکلنا ہوگا۔ ماہرین نفسیات کے مطابق 'سوسائڈ واچ' بھی خودکشی کی روک تھام کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ ’اگر مریض میں خودکشی کی علامات نظر آئیں تو گھر کے افراد اور دوست احباب نگرانی کا نظام تشکیل دیتے ہیں تاکہ ایسے شخص کو تنہا نا چھوڑا جائے اور ہر وقت نظر رکھی جائے۔ اس نظام کے ذریعے یہ بھی یقینی بنایا جاتا ہے کہ مذکورہ شخص کے پاس ایسے وسائل یا سازوسامان موجود نا ہوں جن کے ذریعے خودکشی کی کوشش کی جا سکے۔‘اگر ہم اپنے ارد گرد موجود اپنے پیاروں ، دوست احباب کو توجہ نہیں دے سکتے ، ان کی بات نہیں سن سکتے، ان کے مسائل کے حل میں معاونت نہیں کر سکتے تو ہمارا مقصد حیات کیا ہے؟