14پاکستان! حصول مقاصد کا منتظر
اگست دنیا کی تاریخ میں عہد ساز دن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جب دنیا کی سب سی بڑی مسلمان ریاست معرض وجود میں آئی جو مسلم دنیا کی پہلی نظریاتی ریاست بھی تھی۔ پاکستان کی بنیادوں میں لاکھوں شہدا کا خون شامل ہے۔ مسلمانان برصغیر نے جس طرح آگ و خون کے دریا میں کود کے اس عظیم تحریک کو کامیاب بنایا اس کی مثال شاید ہی دنیا میں کئی اور ملے۔ بہت سے لوگ پاکستان کو تحفہ خدا وندی قرار دیتے ہیں۔ ویسے ماضی اور حال کے حالات کے پیش نظر نہ صرف قیام پاکستان بلکہ بقاء ہائے پاکستان واقعتاً معجزہ ہی ہے۔کانگریسی مسلمان اور خاص طور پہ کانگریس نواز علمائ قیام پاکستان کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے اس لحاظ سے قائد اعظم اور ان کی ٹیم کو بے سرو سامانی کے عالم میں سہہ محاذی جنگ درپیش تھی ایک طرف انگریز حکمران جن کی کانگریسی رہنماو¿ں سے ذاتی دوستیاں تھیں جس کی وجہ سے فطری طور ان کا جھکاو¿ ہندوو¿ں کی طرف تھا ویسے بھی ہندو انگریزی علوم پہ دسترس کے باعث اہم انتظامی عہدوں پر فائز تھے لہذا وہ انگریزوں کی مجبوری بھی تھے دوسری طرف ہندو جو اکھنڈ بھارت کا صدیوں پرانا خواب آنکھوں میں سجائے پورے برصغیر پہ حکومت کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور اس مقصد میں کامیابی کیلیے ان کی ریشہ دوانیاں عروج پر تھیں بغل میں چھری منہ میں رام رام ان کا صدیوں پرانا وطیرہ اور حربہ تھا جسے بیک وقت مسلمانوں اور حکمران انگریزوں پہ مہارت سے آزما رہے تھے جبکہ تیسرا اور خطرناک ترین محاذ اندرونی مخالفت کا محاذ تھا یعنی خود مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کانگریس کے پروپیگنڈہ کے زیر اثر قیام پاکستان کی شدید مخالف تھی ایک طرف کانگریسی مسلمانوں کا نظریہ "قومیںاوطان (وطن کی جمع) سے بنتی ہیں" پذیرائی حاصل کر رہا تھا اس نظریے کے حامیوں کا خیال تھا قومیت کی بناءمذیب پہ نہیں بلکہ وطن پہ ہے یعنی جو مسلمان ہندوستان میں بستے ہیں وہ پہلے ہندوستانی ہیں بعد مسلم ہندو سکھ وغیرہ جبکہ علامہ اقبال کا تصور امت اس سے قطعاً مختلف تھا آپ کے خیال میں مسلمان کا جدا گانہ مذہبی تشخص ہے جس کا کسی قیمت پہ دیگر ادیان کے ساتھ انضمام نہیں کیا جا سکتا امت مسلمہ نیل سے کاشغر تک ایک ہی بدن کی مانند ہے۔ اسی دو قومی نظریے کو قائد اعظم نے مزید واضح کرتے ہوئے کہا کہ برصغیر کی دونوں بڑی اقوام کا رہن سہن تہذیب و ثقافت کھانا پینا عبادت کے طرز مختلف ہیں حتیٰ کہ آپس میں رشتے ناطے تک نہیں کرتے ان حالات میں مسلمان اقلیت کو ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا درست نہیں۔ قائد اعظم اور اقبال کے بیانیے کو زبردست پذیرائی ملی اور ان کی انتھک کوششوں سے بلآخر مسلمانان ہند کا علیحدہ ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور دنیا کی سب سے بڑی مسلمان ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ قیام پاکستان کے وقت معروضی حالات کے پیش نظر استحکام اور بقائ کو شکوک وشبہات کی نظر سے دیکھا جا رہا تھا کچھ ماہرین اس کے قائم رہنے کے عرصہ کو چند ماہ اور کچھ چند سال قرار دے رہے تھے تب فقط اللہ کے کرم کے بھروسے پہ اعتقاد والے عظیم راہنما محمد علی جناح نے پورے یقین کے ساتھ کہا تھا کہ پاکستان ہمیشہ قائم رہنے کیلیے بنا ہے۔ پاکستان اپنے قیام کے ساتھ ہی مسائل کے انبار میں گھرا ہوا تھا معاشی، سیاسی، معاشرتی مسائل لاکھوں لٹے پٹے مہاجرین کی آمد وسائل کی قلت سرحدی معاملات میں بے ایمانی اور مالی مشکلات سمیت درجنوں مسائل درپیش تھے جن سے نبزد آزما ہونا تھا لیکن سب سے بڑا اور اہم مسئلہ جو پاکستان کو اپنے قیام سے آج تک درپیش ہے وہ دوربین مخلص اور انتظامی امور پہ دسترس رکھنے والی سیاسی قیادت کا فقدان ہے۔ میدان سیاست پہ چند گھرانوں کی اجارہ داری نے جمہوریت کو تب سے آج تک پنپنے نہیں دیا۔ پون صدی گزرنے کے بعد بھی ہمارے سیاستدان انتقام حسد اور رقابت جیسے منفی رحجانات سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکے یہ سیاستدان اپنے فرائض کا ادراک کرنے میں ہی بری طرح ناکام رہے ہیں لہذا جب ذمہ داری کا فہم و ادراک ہی نہ ہو تو اسے پورا کیسے کیا جا سکتا ہے ان نسبتاً ناخواندہ یا نیم خواندہ پس منظر کے حامل لوگوں نے مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) کو بھی نسلی تفاخر اور قبائلی عداوتوں کی آماجگاہ بنا ڈالا پارلیمان کی کاروائی دیکھتے شرم آتی ہے کہ اس مقدس ایوان کو جگت بازی طنز اور مزاح کا تھیٹر بنا دیا گیا ہے یہاں کسی کو احساس ہی نہیں کہ وہ کس عظیم مرتبے پر فائز ہیں وہ کن عظیم، عزم و استقلال کے استعاروں اور اصول پرست لوگوں کے وارث کے طور پر ان مسندوں پہ بیٹھے ہیں آج پون صدی گزرنے کے باوجود اگر قیام پاکستان کے ثمرات حاصل نہیں کیے جا سکے تو یقین کریں اس کے سب سے بڑے مجرم یہی نا اہل مسند نشین ہیں جنھوں نے محلاتی سازشوں اور آپس کی ریشہ دوانیوں کے علاو¿ہ کچھ نہیں سیکھا۔ان عاقبت نا اندیشوں نے عظیم راہنماو¿ں کی محنتوں اور قربانیوں پہ پانی پھیرنے اور ان کے علیحدہ وطن کے بیانیے کو غلط ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اسقدر منفی رحجانات اور عاقبت نا اندیشانہ سیاسی ماحول کے باوجود بھی بطور ریاست پاکستان نے صنعتی، عسکری، معاشی، کاروباری شعبہ جات کھیلوں سمیت بےشمار میں میدانوں میں انتہائی محدود وسائل میں ترقی کی بےشمار منازل طے کیں جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اس مٹی میں ہمت حوصلے کچھ کر گزرنے کی صلاحیت اور ہنر کی کوئی کمی نہیں اگر کمی ہے تو مخلص قیادت کی۔ میری دانست میں ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا اب بھی یکسو اور یکجا ہو کر ملک کی تعمیر و ترقی اور خود انحصاری کو نصب العین بنا لیا جائے تو حقیقی آزادی کی منزل دور نہیں کیونکہ ہماری سمت درست ہے رخت سفر بھی موجود ہے بس رفتار بہت کم ہے۔