محبت امن ہے اور امن کا ہے نام پاکستان
محبت امن ہے اور امن کا ہے نام پاکستان
میرا ایمان پاکستان ،پاکستان ، پاکستان
بزرگوار جمیل الدین عالی کا ملی نغمہ سننے کے بعد وطن سے محبت زیادہ شدید ہونے لگتی ہے ،اللہ پاک ہمارے وطن کو صبح قیامت تک شاد ،رکھے آباد رکھے آمین ۔پاکستان ہمیں اپنی جان سے بڑھ کر عزیز تر ہے ۔سبز ہلالی پرچم سے ہماری امیدیں اور مستقبل وابستہ ہے۔ قیوم ساقی نے خوب کہا اور درست کہا !
سوہنی دھرتی اللہ رکھے ، قدم قدم آباد تجھے
جب تک ہے یہ دنیا باقی ہم دیکھیں آباد تجھے
23مارچ 1940 کو لاہور منٹو پارک میں حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ کا تاریخ ساز اجلاس ہوا ۔دو روزہ اجلاس کی سب سے اہم بات قرارداد لاہور کی منظوری تھی ۔ یہ وہ قرار داد تھی جسے
کانگریسی ذہن اور ہندو پریس نے ” قراردا د پاکستان “ کہا۔ اللہ کریم نے مسلمانان برصغیر کی دعاﺅں کو شرف قبولیت بخشا اور محض سات برس کی جدوجہد کے بعد آزاد وطن مسلمانوں کو عطا کر دیا گیا ۔ پاکستان فیضان الہی کا پرتو (عکس) ہے ۔ پاکستان رسول محتشم کی عطا اور بزرگوں کی دعاو¿ں کا ثمر ہے۔راولپنڈی کے مرحوم محمد خان نقشبندی، مرحوم کرنل ظہور اختر کیانی ،مرحوم ثناءاللہ اختر بتایا کرتے تھے کہ آزاد وطن حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو کتنے خون کے دریا عبور کرنے پڑے۔ عفت مآب بہنوں کے دوپٹے تار تار ہوئے ۔ پاکستان کی بیٹیوں نے کنوو¿ں میں چھلانگیں لگا کر تحریک پاکستان کو کامیاب بنانے کی قیمت دی ۔ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے شاہدین کی زبانی تقسیم برصغیر کے حالات سن کر کلیجہ منہ کو آتاہے ۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے پوری زندگی اپنے بدن سے روح نکلنے تک حصولِ پاکستان اور استحکامِ پاکستان کے لیے واقف کر رکھی تھی۔ آپ نے برصغیر کے مسلمانوں کی آ زادی اور اُن کے لیے ایک الگ وطن کے حصول کے لیے جو انتھک محنت کی وہ ہماری تاریخ کا درخشاں باب ہے۔ اس پر لارڈ پیتھک لارنس نے آپ کو ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا گاندی قاتل کے ہاتھوں مرا اور جناح کو پاکستان کی لگن نے مار دیا۔ دیگر بہت سے مسلم اور غیر مسلم مفکر ،دانشور اور سیاسی رہنما بھی آ پ کی ذات میں جو اعلی درجے کی صفات پائی جاتی تھیں دل سے معترف تھے مسز لکشمی پنڈت جو کہ جوال لال نہرو کی بہن تھی نے قائداعظم کی عظمت کو ان الفاظ میں بیان کیا اگر مسلم لیگ کے پاس 100 گاندھی اور 200آزاد ہوتے اور کانگرس کے پاس ایک محمد علی جناح ہوتے تو ہندوستان کبھی بھی تقسیم نہ ہوتا۔ دشمن پاکستان کے قیام کو دیوانے کا خواب قرار دےتے تھے ۔اُن کو ہمارے عظیم قائد نے اللہ پاک کے کرم ،بزرگوں کی نظر اور اپنی دن رات کی تگ ودو سے دیوانے کے خواب کو اُلٹ کر اُس کی حقیقی تعبیر کر کے دکھا دی اور اُن کو اپنی آنکھوں سے 14 اگست 1947 کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کو معرضِ وجود میں آتے دیکھا دیا۔ اگر آج بھی بطور قوم ہم عہد کر لیں کہ ہم اپنے پیارے وطن میں بابائے قوم کی تعلیمات اور اُن کے سُنہری اصولوں پر صدقِ دل سے عمل پیرا ہوں تو کو ئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے تمام مسائل پر قابو نہ پا سکیں اور دنیا میں ایک عظیم قوم اُبھر کر سامنے نہ آسکیں۔وہ قومیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں رکھتی جو اپنے محسنین،قائدین اور مفکرین کی خدمات اور کارناموں کو فراموش کر دیتی ہیں۔قائد کی روح کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا واحد اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم مجموعی طور پر بطور قوم اُن مقاصد کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیں جن مقاصد کی خاطر ہمارے محبوب قائد نے پاکستان بنایا تھا۔افسوس ہم تحریک پاکستان کے کارکنوں اور اکابرین پاکستان کے اثاثے کی حفاظت کر سکے نہ اپنی اقدار کا تحفظ ....آج خرافات کا دور دورہ ہماری خامیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کر رہا ہے ۔ ہمارے بڑوں نے خود کو ” بیدار “ نہ کیا تو خرافات کا سیلاب سب کو بہا کر لے جائے گا۔ پاکستان کے نونہال جب ہم سے سوال کرتے ہیں کہ یوم آزادی پر باجے بجانے کا مقصد کیا ہے ؟ ہم خاموش ہوجاتے ہیں !کوئی ہے جو اس معصوم سوال جواب دے ؟