آزادی میلہ اور تحریکِ انصاف

یوم آزادی کی چاند رات بھی قابل دید تھی ۔لاہور کی سڑکوں پر منچلوں کا راج تھا یا تحریک انصاف کی بہار تھی۔ تحریک انصاف نے آزادی میلے کو خوب انجوائے کیا۔ ایسے تاریخی موقع پر تحریک انصاف نے بھر پور عوامی قوت کا مظاہرہ کیا اور جشن آزادی منانے والوں نے بھی خوب ساتھ دیا سیاست میں ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے ۔پورے ملک میں ایسے لگ رہا تھا جیسے تحریک انصاف کے علاوہ کوئی اور عوامی سیاسی جماعت نہیں ۔کسی سیاسی جماعت نے ڈائمنڈ جوبلی یوم آزادی کیش کروانے کی کوشش نہیں کی۔ وفاقی حکومت میں ہونے کے باوجود پی ڈی ایم کی کوئی بھی سیاسی جماعت پبلک میں نہ جا سکی اور کچھ نہیں تھا تو تحریک انصاف کے جلسے کے مقابلے میں یوم آزادی کے نام پر ورکرز کنونشن ہی رکھ لیتے۔ ان سے بہتر تو شیخ رشید رہا۔ جس نے لال حویلی کے باہر میلہ لگا لیا۔ ملک کا 75 واں یوم آزادی عمران خان کے نام رہا۔ وہ رات گئے تک ملک کے میڈیا پر بھی چھایا رہا۔ ملک بھر سے لوگ اس کو سنتے رہے اور اس پر تبصرے بھی ہوتے رہے۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں کی سیاست سے لگتا ہے کہ عوامی سطح پر وہ عمران خان کے سامنے سرنڈر کر چکی ہیں۔ انھیں اندازا ہو گیا ہے کہ عوامی سطح پر شاید عمران خان کا مقابلہ مشکل ہے۔ اس لیے پی ڈی ایم عوامی محاذ سے دستبردار ہو کر انتظامی محاذ پر مورچہ زن ہے۔ انھیں اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ عمران خان لوگوں کے دلوں میں گھر کر چکے ہیں لہذا اب ساری حکومت پی ڈی ایم کی ساری سیاسی جماعتیں اور حکومت کے تمام تر ادارے فکر مند ہیں کہ عمران خان کو کیسے قابو کیا جائے ۔پوری دنیا سے عمران خان کے خلاف چیزیں ڈھونڈی جا رہی ہیں۔ حکومت ملک نہیں چلا رہی عمران خان کو بھگانے کے جتن کر رہی ہے ۔عمران خان کو نا اہل کرنے تحریک انصاف کو کٹ ٹو سائز کرنے کے لیے تمام تر توانائیاں صرف کی جا رہی ہیں۔ پی ڈی ایم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ عمران خان کو قابو کیے بغیر وہ عوام میں نہیں جائیں گے۔ عمران خان نے اگر عقلمندی کے ساتھ حالات کو فیسں کیا اور کوئی بلنڈر نہ کیا تو بے شک یہ جتنی مرضی تاخیر کر لیں عمران خان کو دوتہائی اکثریت لینے سے اب کوئی نہیں روک سکتا۔ کوئی حکومت عوام کو مطمئن کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ حکومت کی پوری کوشش ہے عمران خان کو جذباتی کر کے اس سے بڑی غلطی کروائی جائے اور اس سے فائدہ اٹھا کر اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ عوام میں اس وقت عمران کے کھمبے جیتنے والا ماحول بن چکا ہے عمران خان کو صرف الیکشن تک یہ ماحول برقرار رکھنا چاہیے ۔باقی سب ٹھیک ہے۔ اس وقت تحریک انصاف کو ڈمیج کرنے کے لیے تحریک انصاف کے ناراض لوگوں پر مشتمل بڑے سرمایہ داروں کے ذریعے تحریک انصاف کے نام سے ملتی جلتی نئی سیاسی جماعت بنوانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جنوبی پنجاب پر خصوصی کام کیا جا رہا ہے تحریک انصاف کے بڑے ناموں کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن عمران خان کی مقبولیت کا جادو کسی کو رسک لینے نہیں دے رہا ۔سیاسی مارکیٹ میں اس وقت صرف پی ٹی آئی کے شیئرز کے بھاو اوپر جا رہے ہیں۔ اس لیے کوئی بھی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا گھاٹے کا سودا کیوں کرے گا ۔ سب کو پتہ ہے اس وقت جو بھی عمران خان سے علیحدہ ہوا اس کی سیاست ختم ہو جائے گی۔ اس لیے اب عمران خان کو چھوڑ کر جانے کا کوئی رسک نہیں لے گا۔ تحریک انصاف کے لوگوں نے آدھا الیکشن تو ویسے ہی جیت لیا ہوا ہے کیونکہ وہ تسلسل کے ساتھ عوامی رابطوں میں ہیں ۔جبکہ ان کے مخالفین الیکشن سے گھبرائے ہوئے ہیں اور دوڑ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں ۔اب حکومت نے تحریک انصاف کو ایک اور موقع فراہم کر دیا ہے جن 9حلقوں میں ضمنی الیکشن ہو رہا ہے۔ وہاں جو کمپین ہو رہی ہے وہ تو ہو ہی رہی ہے لیکن اس کے علاوہ عمران خان نے بڑے شہروں میں پورے ملک میں جلسے کرنے کا اعلان کر دیا ہے ان کے ورکرز متحرک ہیں حالت یہ ہے کہ عمران خان دوگھنٹے کے نوٹس پر جلسہ کر لیتا ہے جبکہ مخالف سیاسی جماعتیں ایک جلسہ کرنے کے لیے مہینوں تیاری کرتی ہیں ۔تحریک انصاف نے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تمام ورکرز کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے عمران خان کا ایک میسج چند منٹوں میں کروڑوں لوگوں تک پہنچ جاتا ہے۔ دوسری جانب سیاسی محاذ آرائی بھی عروج پکڑ رہی ہے ۔ حکومت سمجھ رہی ہے کہ وہ انتقامی کارروائیوں کے ذریعے تحریک انصاف کو دبا لے گی جبکہ تحریک انصاف کے ورکرز دباو کی سٹیج سے بہت آگے نکل آئے ہیں۔ وفاقی حکومت ابھی تک یکطرفہ کارروائیوں میں مصروف ہے اسے یہ اندازہ نہیں کہ اب پنجاب اس کے پاس نہیں اور جب چوہدری پرویز الہی نے اپنے داو پیج آزمائے اور پنجاب حکومت ان ایکشن ہو گی تو کیا ہو گا۔ مسلم لیگ ن کے تو سابق کھاتے ہی کافی ہیں۔ مجھے تولگ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں مرکز اور پنجاب میں گھمسان کی لڑائی ہونے والی ہے۔ ویسے نون لیگ کو عثمان بزدار کا مرہون منت ہونا چاہیے جنہوں نے ساڑھے تین سال تک ن لیگ کو تتی ہوا بھی نہیں لگنے دی ۔مسلم لیگ ن چوہدری پرویز الہی کی صلاحیتوں سے بھی بخوبی واقف ہے وہ ابھی اپنی سیاسی بساط بچھا رہے ہیں چند روز بعد صورتحال واضح ہو گی کہ کون کہاں کھڑا ہے۔ اللہ خیر کرے محاذ آرائی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی اور سب جانتے ہیں کہ جب معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف چلے جائیں تو فائدہ کس کو ہوتا ہے۔ اگر سیاستدانوں نے اپنی ڈاڑھی کسی اور کے ہاتھ میں دینے کا فیصلہ کر لیا ہے تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔