تائیوان اور امریکی سامانِ حرب
جنگ عظیم دوئم کے بعد سے امریکہ کی خواہش رہی ہے کہ تمام دنیا میں کہیں نہ کہیں جنگ کے بادل منڈلاتے رہیں یا پھر کم از کم بہت سے امیر ممالک جنگ کے خوف میں مبتلا رہیں ۔ وجہ صاف ہے۔ بزنس سٹڈی میں پہلا اصول یہ پڑھایا جاتا ہے کہ آپ اپنی ’’پراڈکٹ‘‘ کے لیے ’’پلیس‘‘ یعنی جگہ بنائیں۔ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ امریکہ کے پاس تمام دنیا کو بیچنے کے لیے اسلحہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔کہیں بدامنی اور جنگ کا میدان گرم کر کے، کہیں ایک ملک کو کسی دوسرے ملک سے ڈرا کر، کہیں امن کے نام پر اور کہیں دہشت گردی کا شور مچا کر امریکہ نے تمام دنیا میں اسلحہ کی فروخت اور ’’تحفظ ‘‘ فراہم کرنے کی فیس کے طور پر صرف معاشی فوائد حاصل کیے ہیں۔
جنگ عظیم دوئم میں فتح کے بعد امریکہ نے اپنے اتحادیوں تک سے جنگ کے خرچے کے نام پر اصل سے کئی گنا زیادہ وصول کیا۔ امریکہ کے سب سے بڑے حواری ، برطانیہ کی مثال لیں تو برطانیہ نے جنگ عظیم دوئم میں استعمال ہونے والے اسلحے کی قیمت اور قرضے کی آخری قسط امریکہ کو 2006 ء میں ادا کی تھی۔ ایران عراق جنگ کے دوران امریکہ عراق کو اسلحہ بھی بیچتا رہا اور پھر عراق اور صدام حسین کا جو حشر ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اسکے بعد ایران سے سعودی عرب کو ڈرا کر سعودی عرب کی حفاظت کے نام پر وہاں فوجی اڈے (جن کا خرچہ سعودی ذمہ داری ہے) قائم کرنے کے علاوہ سعودی عرب کو اربوں ڈالر کے اسلحے کی فروخت کے ساتھ سعودی عرب سے تیل کی یقینی ترسیل، تیل کی تجارت امریکی کرنسی میں اور تمام دنیا (خاص طور پر عالم اسلام) میں سعودی حمایت بونس کے طور پر امریکہ کو میسر ہو رہی ہیں۔ بات صرف سعودی عرب تک نہیں۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ نے 2016ء میں خلیجی ممالک کو33 بلین ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا۔ امریکہ کی ’’ ڈیفنس سکیورٹی کوآپریشن ایجنسی‘‘ کے مطابق امریکہ نے صرف 2017 ء میں کویت کے ساتھ3266 ملین ڈالر، قطر کے ساتھ 700 ملین ڈالر، متحدہ عرب امارات کے ساتھ پانچ بلین ڈالر اور عراق کے ساتھ1319 ملین ڈالر کے اسلحے کی فروخت کے معاہدے کیے ۔ جی ہاں یہ وہی عراق ہے جسے 1990-91 ء میں خود امریکہ نے ہی تباہ و برباد کیا تھا۔ اسلحے کی فروخت سے پیسے کمانے کے لیے امریکہ کی ایسی ہی دوغلی پالیسیاں کوئی نئی بات نہیں ۔ 2017 ء میں سعودی عرب اور قطر کی کشیدگی کے فوری بعد امریکہ نے سعودی عرب کے ساتھ 350 بلین ڈالر کے اسلحے کی فروخت کا معاہدہ کیا اور اسکے بعد ایک ماہ کے اندر اندر قطر کے ساتھ بھی 12 بلین ڈالر کے F-15 طیاروں کی فروخت کا معاہدہ کر لیا۔ نیٹو کی بات کریں تو امریکہ نیٹو کی سرگرمیوں پر آنے والے اخراجات میںاپنی آمدنی کا 3.7 فیصد حصہ دیتا ہے لیکن اس کے بدلے میں امریکہ نے اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے ہمیشہ نیٹو ممالک کی سیاسی اور فوجی طاقت کو تمام دنیا میں استعمال کیا ہے۔ امریکہ کے علاوہ نیٹوکے کسی رکن نے ان افواج کو اپنے کسی مقصد کے لیے آج تک استعمال نہیں کیا۔ اور تو اور خود ہم بھی امریکہ کے جھوٹے وعدوں کے ڈسے ہوئے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کی وجوہات تلاش کریں تو ان میں بلا شبہ پاکستانی قیادت کی بہت سی سیاسی غلطیاں ملتی ہیں جن کا آغاز 1948ء میں ہی ہو گیا تھا۔ پھر 1971 ء میں بہت سی فوجی غلطیاں بھی ہوئیں۔ لیکن ان کی بڑی وجہ امریکہ کی پاکستان کو ’’ہلہ شیری‘‘ اور پاکستان کو دلایا گیا یہ یقین بھی تھا کہ چونکہ پاکستان امریکہ کا سب سے قریبی اتحادی ، اور ’’ سینٹو‘‘ اور ’’ سیٹو‘‘ نامی اتحادوں کا رکن بھی ہے اس لیے امریکہ کبھی بھی نوبت یہاں تک نہیں آنے دے گا کہ پاکستان دو لخت ہو جائے۔ لیکن امریکہ کا ’’ساتواں بحری بیڑہ‘‘ پاکستان کی مدد کے لیے روانہ تو ہوا لیکن آج تک پاکستان نہیں پہنچ سکا۔ جو ایف سولہ طیارے کبھی پاکستان پر احسان کر کے ہمیں فروخت کیے گئے تھے آج وہی ایف سولہ بھارت کو بیچنے کی کوششیں ہو ر ہی ہیں۔ موجودہ وقت میں امریکہ کی بیوفائی کی اعلیٰ ترین مثال یوکرائین کی جنگ ہے۔ امریکہ نے یوکرائین کے میزائل اور ایٹمی اثاثے ختم کرواتے وقت یوکرائین کو اسکی سرحدوں کی حفاظت کی ضمانت دی تھی۔ امریکی ’’ہلہ شیری‘‘ میں آ کر جب یوکرائین کے روسی مفادات کے خلاف کچھ اقدامات کے نتیجے میں روس نے یوکرائین پر حملہ کیا تو امریکہ اور نیٹو نے اب تک کچھ نہیں کیا اور نہ کریں گے۔
1895 ء میں جاپان نے چین کو شکست دے کر ’’ تائیوان‘‘ پر قبضہ کر لیا تھا۔لیکن دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد اس کا ’’ رپبلک آف چائنا‘‘ (تائیوان کا پرانا اور سرکاری نام) پر جاپان کا کنٹرول ختم ہو گیا۔لمبی خانہ جنگی اور کمیونسٹ افواج کی فتح کے بعد موجودہ چین (پیپلز ریپبلک آف چائینا) وجود میں آیا اور اسکا دعویٰ ہے کہ تائیوان تاریخی طور پر چین کا حصہ ہے اور دنیا میں صرف ’’ ایک چین‘‘ ہے۔ اگرچہ امریکہ تائیوان کو ایک الگ ملک کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتا۔ لیکن اسکے با وجود امریکہ تائیوان کی چین کے ساتھ لڑائی کی آڑ میں اسے اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کر رہا ہے۔
تائیوان اور چین کے درمیان موجودہ کشیدگی کی بنا پر امریکی صدر بائیڈن (یوکرائین کی طرح) تائیوان کا ساتھ دینے کے اعلانات کر رہے ہیں۔جن کا اصل مقصد یہ ہے کہ تائیوان امریکی اسلحہ خریدے۔ بظاہر اس وقت تک تائیوان امریکہ کی ’’ ہلہ شیری ‘‘ کے زیر اثر ہے لیکن اگر چین نے کوئی عملی اقدامات اٹھا لیے تو تائیوان بیچارے کا کیا بنے گا؟ سیاسی، معاشی اور تجارتی پابندیوں کے نعرے نہ روس کو روک سکے اور نہ چین کا کچھ بگاڑ سکیں گے۔ اللہ تائیوان کو امریکہ سے بچائے۔آمین!