سوات میں طالبان کی موجودگی کی گمراہ کن خبریں
مسلح افواج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ چند روز کے دوران وادیِ سوات میں کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مسلح ارکان کی بڑی تعداد کی مبینہ موجودگی کے بارے میں سوشل میڈیا پر غلط فہمی پھیلائی گئی۔ زمینی حقائق کی تصدیق کے بعد یہ رپورٹس انتہائی مغالغہ آمیز اور گمراہ کن قرار پائی ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ سوات اور دیر کے درمیان چند پہاڑی چوٹیوں پر مسلح افراد کی کم تعداد میں موجودگی دیکھی گئی ہے جو آبادی سے بہت دور ہیں۔ بظاہر یہ افراد اپنے آبائی علاقوں میں دوبارہ آباد ہونے کے لیے افغانستان سے چوری چھپے آئے تھے۔ آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں یہ وضاحت بھی کی کہ پہاڑوں میں ان مسلح افراد کی محدود موجودگی اور نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے ملحقہ علاقوں کے لوگوں کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات کیے گئے ہیں۔ عسکریت پسندوں کی کسی بھی جگہ موجودگی کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور ضرورت پڑنے پر طاقت کے بھرپور استعمال سے نمٹا جائے گا۔ پاکستان میں سوشل میڈیا جس سرعت سے افواہیں پھیلانے اور جعلی یا غیر مصدقہ خبریں عام کرنے کے کاروبار میں ملوث ہے اس سے عوام الناس میں نہ صرف گمراہی پیدا ہو رہی ہے بلکہ اس سے ملک و قوم خصوصاً ریاست کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بعض لوگ دانستہ یا نا دانستہ طور پر ملک دشمن عناصر کے آلۂ کار بن کر یہ کام کر رہے ہیں۔ سوات میں طالبان کی موجودگی کی افواہیں بھی اسی طرح بلاتصدیق کے پھیلائی گئی جس کی وجہ سے عوام میں تشویش اور پریشانی پیدا ہو گئی۔ اب افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے نے تحقیق کے بعد یہ بیان جاری کیا ہے کہ سوات کے علاقے میں طالبان کی موجودگی کی خبروں میں صداقت نہیں، یہ سوشل میڈیا کی پھیلائی افواہ ہے جس سے یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ خدانخواستہ اس علاقے پر ہماری مسلح افواج کا کوئی کنٹرول نہیں۔ ایسی بے بنیا د اور گمراہ کن خبروں کے ذریعے ملک دشمن عناصر عوام میں خوف و ہراس پیدا کر کے مسلح افواج پر ان کے اعتماد کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ ایسی پروپیگنڈا مہموں کی بیخ کنی ضروری ہے۔