اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں
ایک اور منحوس دن آیا اور کئی احباب کو گورستان کارستہ دکھاکر ختم ہوگیا۔صبح اٹھا تو فون پر برادرم نعمان عزیز ایڈووکیٹ کی آواز سنائی دی۔ پوچھ رہے تھے جنازہ کتنے بجے ہے۔یہ سن کرافسوسناک تعجب ہواکہ کس کے متعلق پوچھ رہے ہیں ۔حیرت وغم سے پوچھنے ہی والا تھا کہ دوسری طرف سے نعمان صاحب گویا ہوئے کہ بھاء اعظم جو آج صبح صبح گوجرانوالہ کلب میں وفات پاگئے ہیں ان کے جنازے کا وقت کیا ہے ۔ کیونکہ آپ کا ان کے بھائی آصف عنایت سے رابطہ رہتاہے اس لئے آپ سے پوچھ لیاپھر فاروق انصاری صاحب کا بھی فون آگیا وہ بھی جنازگاہ اور وقت کے متعلق دریافت کررہے تھے ۔فون بند کیا توفیس بک کھل گئی ایک مقامی روزنامہ کے صفحہ اول پر بھاء اعظم کی تصویر تھی سفید شلوار قمیض، پانی سے شرا بور ،سرایک طرف ڈھلکا ہوا۔آنکھیںبند ہوچکی تھیں۔وہ دنیا سے منہ موڑ چکے تھے۔آصف عنایت کو فون کیا تو معلوم ہواکہ علی الصبح بھاء اعظم گھر کے معصوم بچوں کو ساتھ لے کرکلب کے سوئمنگ پول پر گئے ،وہیں اچانک پانی کے اژدھے نے نگل لیا۔بچے روتے رہے آس پاس بھی کوئی نہ تھا جو مدد کو پہنچتااور آخر کار شہر کا ایک بڑا نام گوجرانوالہ بروسٹ کے مالک ،میرے دوست معظم بٹ مرحوم ، سابق سپرنٹنڈنٹ جیل ،گلزار بٹ، DSP ذوالفقار بٹ،بابربٹ اور آصف عنائت کے باپ جیسے بھائی اور گوجرانوالہ کا ایک "منہ متھا"یہ دنیا چھوڑ کر قبرستان کو آباد کرنے چلاگیا۔میں کرسی پر ٹیک لگاکر جو بیٹھاتو"بھاء "کے ساتھ گذرے ہوئے ناقابل فراموش لمحات ایک فلم کی طرح چلنے لگے۔میں نے بھی چھت کو گھورتے ہوئے ایک سکتے کے سے عالم ساری فلم دیکھی بڑی المیہ فلم تھی ۔انکے والد حاجی عنائت صاحب بڑی محبت کرنے والے آدمی تھے ان کا اور ان کے بیٹے میرے ہمدم معظم بٹ کا وقت رخصت بھی نظروں میں گھومنے لگا۔ کیاکیا محفلیںاور مجلسیں آبادکیں حاجی صاحب اور ان سب بھائیوں نے کہ رشک آتا تھا۔پھر ماسوائے بھاء اعظم کے باقی لاہور جیسے پیر تسمہ پا شہر میں جابسے ۔"بھائ"جیساہنس مکھ ،درازقد،کسرتی بدن ،طنزو مزاح کے جس رکھنے والاہمدرد،ملنسار اورخلوص میں ڈھلا ہوا انسان جس نے کبھی پیچھے سے وار کرنا سیھاہی نہیں تھا اب کہاں ملے گا۔
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن !
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
جی کو قرار نہ آیا،دوبارہ فیس بک کھولی کہ ایک بارپھر بھاء اعظم کی شکل دیکھ لوں ۔مگر وہاں عابدکھوکھر ایڈووکیٹ کی تصویر لگی ہوئی تھی ،نیچے لکھی عبارت نے دل دہلا دیا کہ بارایسوسی ایشن گوجرانوالہ کے سنیئر رکن وفات پاگئے ہیں نماز جنازہ کا اعلان بعد میں کیا جائیگا۔ ذہنی طور پر بڑی تکلیف ہوئی کہ ابھی ایک کی موت کے تذکرے ذہن میں تھے کہ ہمارے محترم عابد کھوکھر صاحب نے بھی قبرستان کی راہ اختیار کرلی۔موحوم سیشن کورٹ والی سٹرک پارکررہے تھے کہ اچانک ایک موٹر سائیکل سوار نے انہیں زمین پر دے مارا۔75 سال کے لگ بھگ عمر ہونے کے باوجو ذہنی وجسمانی طور پر بڑے چاک وچوبند تھے۔آخر وقت تک کامیاب وکالت جاری رکھی ۔سب سے ہنس کرملنا اور تواضع کرنا ان کا خاصاتھا۔منحنی ساجسم مگر ارادے کے مضبوط۔اگر حادثے کا شکار نہ ہوتے تو کچھ اور جی لیتے مگر وہ فرشتہ اجل کب چوکتا ہے مقررہ وقت پر آن پہنچتا ہے مزید کچھ پڑھنے سننے کی ہمت نہ رہی ۔فون ایک طرف رکھ کر چائے کا ایک کپ پی کر طبیعت کو کچھ سنبھالنے کی کوشش کی ۔گہر ی سوچ میں ڈوب گیا کہ زندگی کیا ہے بس" ایک لمحہ" اسکے بعد کا کسی کو کیا معلوم ۔فون کی گھنٹی ایک بار پھر بجی تو خوف ساطاری ہوگیامگر دوسری طرف نوجوان وکلاء خواجہ حسن اور جہانگیر سندھو اپنے چیمبر میں کافی پینے کی دعوت دے رہے تھے ۔انکی محبت بھری دعوت نے جی کو مزید ماندہ ہونے سے بچالیا۔ دونوں نوجوان وکلاء سے عابد کھوکھر کی باتیں ہوتی رہی کہ اچانک نظر ایک بار جو پھر فیس بک پر پڑی جہاں ہمدم دیرینہ خواجہ اشرف جان ایڈووکیٹ کی تصویر لگی ہوئی تھی ۔مگر جو کچھ تصویر کے نیچے تحریر تھااس نے ہلا کر رکھ دیا۔اف میرے خدایاخواجہ صاحب نے بھی اس زمانے اور اسکی محفلوں سے اٹھ کرقبرستان کی راہ لے لی اور پیپلز کالونی کے قبرستان کو قیامت تک کیلئے اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔70کی دہائی کے اواخر میں گوجرانوالہ سے روزانہ طلبہ کا ایک گروپ تین بجے سٹی ریلوے اسٹیشن سے حمائت اسلام لاء کالج لاہور شام کی کلاسیں لینے لاہور جاتا جس میں خواجہ اشرف جان ۔ملک شوکت ،اشناس بٹ اور جاوید بسراء (جیداکانا) شامل ہوتے۔ زندگی کے لگ بھگ تین سال انہوں نے کالج کی زندگی سے خوب لطف اٹھایا ۔روزانہ لاہور آناجانا کالج میں قانون کی تعلیم حاصل کرنا پھر شہر بھر کی خاک چھان کر رات گئے واپس آنا ان سب کا معمول تھا۔اب اشناس بٹ کے علاوہ باقی سب نے قبرستان کی راہ لے لی ۔خواجہ اشرف جان سول لاء کے بہت کامیاب وکیل تھے ۔نامور وکلاء کی فہر ست میں اپنا نام لکھوایا۔زندگی بھر شرافت کو اپنی پہنچان بنائے رکھا۔سادہ مزاج اور عاجز آدمی تھے ۔ان کا دکھ نہ بھولنے والا ہے۔انکے بیٹے خواجہ احسن اشرف جان کو فون پر پرسہ دیکر سوچا کہ آج تو شائد فیس بک پر قیامت کا سماں ہے ۔ اسی اثناء میں معلوم ہوا کہ ہمارے ایک محترم دوست باقرشاہ ایڈووکیٹ کے والد کی بھی وفات ہو گئی ہے اور انہوں نے بھی قبرستان کی راہ ماپ لی ہے۔ دل نے جب بہت کسیلا کھینچا تو سب کیلئے سب گھر والوں نے دعائے مغفرت کی ۔انشاء کا ایک شعرگنگنا کر کچھ حقیقت کی سمجھ آئی کہ۔
کمر باندھے چلنے کو یاںسب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں