جغرافیائی آزادی سے ذہنی آزادی تک
14 اگست 2020 کو پاکستان کا 74واں یوم آزادی اور آزادی کی 73ویں سالگرہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں جوش وخروش کے ساتھ منائی گئی-14 اگست 1947 کو متحدہ ہندوستان کو تقسیم کرکے مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں پر مشتمل پاکستان قائم کیا گیا جو معجزے سے کم نہیں تھا- پنجاب اور بنگال کا بٹوارہ ہوا-باونڈری کمشن نے ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی ایماء پر پاکستان سے کھلی نا انصافی کی اور مسلم اکثریت کے کئی سٹریٹیجک نوعیت کے علاقے ہندوستان کے حوالے کر دئیے-پاکستان کی محترم شخصیت جسٹس ریٹائرڈ افضل حیدر تقسیم ہند کے واحد زندہ عینی شاہد ہیں ان کے والد گرامی سید محمد شاہ مسلم لیگ کے مقدمہ کی تیاری کے لئے تشکیل دی گئی وکلاء کی ٹیم میں شامل تھے اس ٹیم نے باؤنڈری کمشن میں پاکستان کا مقدمہ پیش کیا محترم افضل حیدر وکلاء ٹیم کے معاون تھے-ان کا انکشافات پر مبنی تفصیلی انٹرویو اردو ڈائجسٹ کے ماہ رواں کے شمارے میں شائع ہوا ہے جو تقسیم ہند کے سلسلے میں آخری گواہی ہے-پاکستان کی جغرافیائی آزادی کے بعد پاکستان کے بانی اور پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کی سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ پاکستان جغرافیائی طور پر تو آزاد ہو گیا ہے مگر یہ یہ آزادی اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک پاکستان میں انگریز کی حاکمانہ ذہنیت کو مکمل طور پر ختم نہیں کر دیا جاتا اور پاکستان ذہنی طور پر بھی آزاد نہیں ہو جاتا-قائداعظم بیماری کے باوجود عسکری اور سول افسروں کے اجلاس طلب کرکے ان کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہے کہ پاکستان آزاد ہو چکا ہے لہذا ہمیں آزادی کے تقاضوں کے مطابق اپنے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنا پڑے گا اور عوام کی خدمت حاکم کے طور پر نہیں بلکہ خادم کے طور پر کرنی پڑے گی- قائد اعظم کو مکمل ادراک تھا کہ جب تک انگریزوں کے رائج قوانین کو تبدیل نہیں کیا جاتا اس وقت تک پاکستان حقیقی طور پر آزاد نہیں ہو سکے گاانہوں نے سٹیٹ بنک کا افتتاح کرتے ہوئے اپنے آخری خطاب میں دو ٹوک الفاظ میں فرمایا ہم اپنا سیاسی اور معاشی نظام بنائیں گے اور اسے پاکستان میں نافز کریں گے-ان کی زندگی میں پاکستان کا آئین تشکیل نہ دیا جا سکا جس کی روشنی میں نئی قانون سازی ہوئی تھی-
قائداعظم کی رحلت اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سکندر مرزا غلام محمد چودھری محمد علی اور جنرل ایوب خان نے منصوبہ بندی کر کے پاکستان کی فکری اور نظریاتی آزادی کے عمل کو روک دیا-تاریخ کے ریکارڈ میں ایسی شہادتیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے خفیہ منصوبہ بندی کر کے یہ کوشش کی کہ پاکستان میں انگریزوں کا نظام رائج رہے - چنانچہ سامراجی ملکوں نے پاکستان کے اندر اپنے سہولت کاروں کے ساتھ ساز باز کرکے قائد اعظم اور علامہ اقبال کے نظریات کے بارے میں کنفیوڑن پیدا کر دیا- ایسے سیاستدانوں کو سیاسی منظر سے ہٹا دیا گیا جو تحریک پاکستان کے ساتھ جڑے ہوئے تھے اور پاکستان کو مکمل طور پر آزاد اور خودمختار بنانا چاہتے تھے- ان کی جگہ ایسے افراد کو لایا گیا جو انگریزوں کے تربیت یافتہ تھے-اگر قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصورات کے مطابق پاکستان کی تشکیل نو کر دی جاتی تو تحریک پاکستان کا ایجنڈا مکمل ہو جاتا اور پاکستان جغرافیائی آزادی کے ساتھ فکری نظریاتی اور ذہنی آزادی بھی حاصل کر چکا ہوتا-پاکستان میں رائج انگریزوں کے ریاستی نظام کی بنا پر آج پاکستان کی جو افسوسناک اور تشویشناک صورتحال بن چکی ہے اسے چوہدری محمد سلیم نے اپنی منفرد اور مستند کتاب "پاکستان پر مافیا کا قبضہ " میں مدلل انداز میں پیش کیا ہے -وہ لکھتے ہیں" دنیا کے بہت سے دیگر ممالک میں جو مختلف اقسام کے" مافیا گروہ "ہوتے ہیں وہ حکومت کا حصہ نہیں ہوتے مگر اس کے برعکس پاکستان میں مافیا گروہ نہ صرف حکومت کا مستقل حصہ ہیں بلکہ خود حکومت ہیں-ان جرائم پیشہ جتھوں نے ہمارے ملک پر قبضہ کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان عملی طور پر ایک مافیا ریاست میں تبدیل ہو چکا ہے ان لوگوں نے سیاسی اقدار اور شناخت کے اصولوں کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے- مافیا کے کاروبار جائیدادیں شادی بچے رہائشیں ہر چیز ملک سے باہر ہیں - اس ملک کے ساتھ ان کا جسمانی یا روحانی کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے- انسانی اخلاقیات سے عاری یہ جرائم پیشہ لوگ پاکستان میں محض حکمرانی اور قومی سرمایہ لوٹنے کے لئے آتے ہیں" -
مصنف اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں " یہ مافیا ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہونے دیتا اس لئے کہ یہ ان کے مفادات سے متصادم ہے اور انتشار کے ماحول میں یہ گروہ زیادہ بہتر طریقے سے پھلتے پھولتیاور نشونما پاتے ہیں - یہاں مافیا گروہوں نے متحد ہوکر ایک مافیا ریاست تشکیل دے رکھی ہے- اس مافیا نے اسلام اور جمہوریت دونوں کو ملک بدر کر رکھا ہے - یہ سیاسی ہائی جیکنگ کی بدترین مثال ہے- سیاسی مافیا نے پورے ملک اور اس کے اقتدار اعلی پر قبضہ کرلیا ہے- جب تک یہ غیر ملکی" پے رول "پر موجود اس طبقہ کے خاتمہ کے لیے عوامی قوتوں کو جمع کر کے عوامی انقلاب برپا نہیں کیا جاتا اس وقت تک پاکستان کے اندر امن قائم نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ملکی بقا کو در پیش خطرات میں کمی واقع ہوسکتی ہے"-و زیراعظم پاکستان عمران خان بھی کئی بار پاکستانی مافیا کا ذکر کر چکے ہیں جس کی مزاحمت کی وجہ سے ان کو اپنے انتخابی ایجنڈے پر عمل درآمد کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں- پاکستان کے نوجوانوں کو تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے تحریک پاکستان کے نامکمل ایجنڈے کو مکمل کرنا ہے اور ذہنی آزادی حاصل کرنی ہے - اس کے لئے لازم ہے کہ انگریز کے ریاستی نظام کو تبدیل کر کے پاکستانی نظام نافذ کیا جائے-یہ خواب اسی صورت میں پورا ہو سکے گا جب نوجوان منظم ہو کر علامہ اقبال کے خواب اور قائد اعظم کی تعبیر کو مکمل کریں گے-انگریز کا رائج موجودہ نظام ناکارہ اور فرسودہ ہوچکا ہے اور از خود گر رہا ہے یہ نظام ریاست کو چلانے کے قابل ہی نہیں رہا اسے مکمل طور پر گرانے کے لئے منظم اور باشعور عوام کے ایک دھکے کی ضرورت ہے- کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے -
بے وقار آزادی ہم غریب ملکوں کی
سر پہ تاج رکھا ہے‘ بیڑیاں ہیں پاؤں میں