معزز قارئین! لفظ ’’ جات‘ ‘ ہندی زبان کا تھا جسے انگریزی میں "Caste" کہتے ہیں ، پھر اہل ِ فارس اور اہلِ اردو اُسے ’’ذات ‘‘ کہنے لگے۔ یعنی ’’ قوم‘‘۔ ہندی زبان کا ایک لفظ ہے ’’ گوت‘‘ جسے انگریزی میں "Subcaste" کہتے ہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بزرگ راجپوت ؔ تھے اور اُن کی گوت ؔ تھی (بھٹی) ۔ بھارت کے صوبہ ہریانہ ؔ میں بھٹی راجپوتوں کا علاقہ بھٹیانہ ؔ کہلاتا تھا۔ مسٹر بھٹو کے بزرگ بھٹیانہ سے آ کر سندھ میں آباد ہُوئے تھے اور بھٹی ؔکا تلفظ بھٹوؔ بن گیا۔
"E.D.MacLagan" اور "H.A.Rose" کی تالیف "Encyclopedia of Castes" ( ذاتوں کا انسائیکلوپیڈیا) کے مطابق بلوچؔ قوم ( ذات ) اپنا ماخذ مکران سے ملاتی ہے، جو کوہ سلیمان کی ترائی میں آباد تھی۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے والد صاحب حاکم علی زرداری خود کو بلوچؔ کہتے تھے اور زرداری ؔ اپنا ’’گوت‘‘ (Subcaste) بتاتے تھے ۔ "Wikipedia" کے مطابق حاکم علی زرداری کے والد محمد حسن زرداری نے ایک عراقی خاتون سے شادی کی تھی۔ اُس خاتون کی قوم یا گوت ؔکیا تھی معلوم نہیں؟
ہندی اور سنسکرت میں "Sendhwa" دریا یا بحر کو کہتے تھے ۔ پاکستان کا ایک صوبہ سندھ ؔ دریائے سندھ کی وجہ سے معروف ہُوا، پھر صوبہ سندھ میں آباد یا رہنے والے لوگ سندھی ؔ کہلائے ،جس طرح پاک پنجاب یا بھارتی پنجاب میں آباد لوگ پنجابیؔ کہلاتے ہیں ۔ اِس لحاظ سے سندھی ؔ یا پنجابیؔ کوئی قوم یا ذات نہیں ہے لیکن،10 اگست 2020ء کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج صاحب نے جب، ’’پارک لین ریفرنس ‘‘کی سماعت کے دَوران ملزمان سے اُن کی ذات ؔکے بارے میں پوچھا! تو آصف زرداری صاحب نے کہا کہ ’’ مَیں سندھی ؔ ہُوں اور سندھ سے نمائندگی کرتا ہُوں‘‘۔
معزز قارئین! پاکستان کے کسی صوبے کے شہری کا سندھی ، بلوچی ، پنجابی یا پختونخواہی کہلانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن جب کسی معروف شخص کی اچھی بھلی قوم ؔ یا ذاتؔ ہو اور اُس کی گوت ؔ بھی معقول ہو تو، پھر اُس کی ذات سندھیؔ کیسے ہوسکتی ہے؟۔ حضرت لعل شہباز قلندر ؒ کا تعلق سندھ سے تھا، اُ ن کے بارے میں ایک منقبت میں کہا گیا ہے کہ …
’’سیون دا ، سندھڑی دا، سخی شہباز قلندر!‘‘
…O…
یعنی۔ ’’ مَیں مر جائوں گا لیکن، صوبہ سندھ کسی دوسری پارٹی کے حوالے نہیں کروں گا ‘‘۔ پرسوں (13 اگست کو) سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں تین رُکنی بنچ کے سربراہ کی حیثیت سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے یہ ریمارکس دئیے کہ ’’ سندھ حکومت ( ظاہر ہے کہ سابق صدر آصف زرداری کی سرپرستی میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی حکومت) ناکام ہو چکی ہے‘‘۔ چیف جسٹس صاحب نے یہ بھی کہا کہ’’ اِس ( پارٹی ) کی حکومت نے 20 سال سے کراچی کے لئے کچھ نہیں کِیا۔ سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں‘‘۔ معزز قارئین!جنابِ آصف زرداری کی ’’ ذات پات‘‘ اُن کی پارٹی کی ناکامی اور اُن پر اُن کی ہمشیرۂ محترمہ فریال تالپور پر مختلف قسم کے مقدمات کی الجھنوں سے مجھے تو اُن سے بہت ہمدردی ہو رہی ہے۔
بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن کے بارے میں مَیں کئی بار لکھ چکا ہُوں کہ ’’ اُن سے میری قبل از مسیح سے دوستی ہے لیکن، ملاقات دو اڑھائی سال بعد ہو ہی جاتی ہے ۔ تین دِن سے مجھے چودھری اعتزاز احسن اور 1996ء میں شائع ہونے والی اُن کی بہت ہی عمدہ کتاب بھی یاد آ رہی ہے جس کا نا م ہے ۔ "The Sind Saga"۔ ’’اوکسفرڈ انگلش ،اردو ڈکشنر ی ‘‘ کے مطابق "Saga" کے کئی معنی ہیں ۔ مثلاً ’’طویل داستان ، خصوصاً کارناموں پر مبنی افسانوی یا نیم تاریخی رزمیہ، کسی خاندان کی کئی پشتوں کی مبسوط داستان ، طویل پیچدار، حکایت ، افسانہ در افسانہ‘‘۔
1999ء میں معروف صحافی برادرم مستنصر جاوید نے اِس کتاب کا ترجمہ کِیا تو، اُس کا نام تھا۔ ’’ سندھ ساگر اور قیام پاکستان‘‘ ۔ اِسے بھی بہت زیادہ پڑھا گیا تھا۔ اِس پر مَیں نے کئی کالم بھی لکھے تھے ۔ کتاب کے صفحہ 438 پر جناب اعتزاز احسن بیان کرتے ہیںکہ’’ ناقص منتظم ہونے کے ناتے ، وادی سندھ کی اشرافیہ ، نہ تو خود قواعد وضوابط کی پابندی کرتی ہے ، اور نہ کسی دوسرے کے دِل میں، اِس کا احترام پیدا ہونے دیتی ہے۔ 19ویں صدی کے آخر تک جاری رہنے والی بد امنی نے ،سندھ کے واسی ( رہائشی) کو معاشرتی ذمہ داریوں سے بیگانہ کر دیا ہے۔ دفتر میں ہو یا سڑک پر ، وہ ہر طرح کی ذمہ داری سے یکسر عاری نظر آتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک معمول سرکاری اہلکار بھی درخواست گزاروں کے ہجوم کو ،قطعی غیر ضروری طور پر ، دفتر کے باہر پہروں کھڑا کئے رکھتا ہے ، خواہ اندر بیٹھا وہ چائے کی چُسکیاں لیتے ہُوئے فون پر بے تکان گپّیں ہانک رہا ہو ‘‘۔
معزز قارئین! 1996ء میں جب بیرسٹر اعتزاز احسن کی "The Sind Saga"۔ شائع ہُوئی ہوگی تو یقینا وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے ضرور پڑھی ہوگی؟۔ بہرحال اُنہیں اِس بات کی تو داد دینا پڑے گی کہ ’’ وہ جب تک حیات رہیں ، اُنہوں نے اپنے ’’ مجازی خُدا‘‘ جنابِ آصف زرداری کو اپنی پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا ؟ ۔ اِس کے باوجود اُن کے قتل کے بعد نان گریجویٹ آصف زرداری صدرِ پاکستان منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ اب جب بھی چاہیں جنابِ بھٹوکی پارٹی کے چیئرمین کہلانے والے بلاول بھٹو زرداری …
مَر سُوں ،مَر سُوں ، سندھ نہ ڈیسوں!‘‘
کا نعرہ بلند کرتے رہیں؟ ۔ ’’ ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘‘ کے نعرے میں تواب کوئی جان ہی نہیں رہی؟
٭…٭…٭
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024