ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کی انتہا پسند سوچ رکھنے والی حکومت نے اپنے ہی آئین میں مقبوضہ کشمیر کو دی گئی حیثیت بدل دی ہے اور اس سلسلے میں آئین کا آرٹیکل 370معطل کردیاہے، جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ہم تو اس آئینی شق کو ہی نہیں مانتے جسکے مطابق ہندوستان گزشتہ 72 سال سے کشمیر پر قابض ہے مگر اسکے تحت مقبوضہ کشمیر کو خاص حیثیت حاصل تھی،متنازعہ کشمیر میں پاکستان، ہندوستان اور اقوام متحدہ شریک ہیں اور کشمیر کی حیثیت ان تینوں میں سے کوئی بھی اکیلے تبدیل نہیں کرسکتا، اس لحاظ سے اگر دیکھاجائے تو بھارتی حکومت کا یہ اقدام اقوام متحدہ کے مروجہ قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے جس کا نوٹس خود اقوام متحدہ کو لینا چاہیے، مقبوضہ وادی کی موجودہ صورتحال نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کیلئے تشویشناک ہے، گزشتہ کئی دنوں سے سے پوری مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ ہے، ہر قسم کی میڈیا کوریج پر پابندی ہے، انٹرنیٹ سروس بھی بند ہے لوگ اپنے گھروں تک محصور ہیں، مساجد تک بھی بند کردی گئی ہیں اور ہندوستان نے پچاس ہزار اضافی فوجی وادی میں بھیج دیئے ہیں اس کے بعد اب ہم بآسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ مقبوضہ وادی کے ہر گھر میں ہندوستانی فوجی مامور ہے، کرفیو کی وجہ سے اشیاء ضرورت اور دوائیوں کی شدید قلت پیدا ہوچکی ہے، سب سے بڑا ستم تو یہ ہے کہ میڈیا پر پابندی کی وجہ سے باہر کی دنیا کو علم ہی نہیں کہ مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کیا اندوہناک سلوک کیاجارہاہے ایسے میں پاکستان کیلئے یہ بہت اہم ہے کہ وہ ایک متفقہ موقف اپنائے کیونکہ کشمیر ہماری شہہ رگ ہے اور ہندوستان اب یہ شہہ رگ کاٹنے کے درپے ہے، ایک مضبوط اور متفقہ موقف ہی دشمن کو واضح پیغام دے سکتاہے کہ وہ کسی بھی ایسی مذموم حرکت سے باز رہے جو مقبوضہ کشمیر کی مروجہ حیثیت کو تبدیل کرے، مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے میں ہی ہے، ایک طرف جہاں ہمیں اتحاد ویگانگت کی ضرورت ہے توبدقسمتی ہے اس وقت ملک کے اندر شدید سیاسی بے چینی، غیریقینی اور عدم استحکام جیسی صورتحال ہے جس کی وجہ سے ہندوستان اور بین الاقوامی دنیا کوکوئی اچھا پیغام نہیں جارہا، حکومت اور اپوزیشن میں شدید سیاسی بحران اور تنازعہ جیسی صورتحال ہے، گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی کوشش کے باوجود وہ ماحول نہیں بن سکا جس کی ضرورت تھی حالانکہ جناب وزیراعظم نے خود اپنی تقریر میں کہاکہ اس اجلاس کی کارروائی ساری دنیا دیکھ رہی ہے لہٰذا ہمیں ایک اچھا تاثر دینا چاہیے، یاد رہے کہ یہ اجلاس بھی اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلایاگیا تھا جبکہ یہ کام حکومت کو کرنا چاہیے تھا ۔ایسے مواقع پر اتفاق رائے پیدا کرنا بنیادی طور پر حکومت کا کام ہوتاہے دنیا جہاں میں اپوزیشن کا کام تنقید اور شور شرابا ہی کرنا ہوتاہے مگر یہ حکومت ہی ہوتی ہے جو ماحول کو ٹھیک رکھتی ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے سے اس کی ساکھ متاثر ہوتی ہے،ہماری تاریخ میں چند مثالیں موجود ہیں جہاں حکومت وقت نے اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے اپوزیشن کو اکٹھا کیا تاکہ ایک متفقہ لائحہ عمل مرتب کیا جائے، 1965ء کی جنگ کے موقع پر ایوب خان جیسے آمر نے بھی اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کو دعوت دیکر بلایا اور اتفاق رائے پیدا کیا،1971ء کی جنگ اور سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کیا تاکہ اتفاق سے آئندہ کی حکمت عملی ترتیب دی جائے،2015ء میں آرمی پبلک سکول پشاور کے واقع کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کیا جس کے نتیجے میں قومی ایکشن پلان ترتیب دیاگیا، ہماری آج کی صورتحال بھی ایسی ہی بات کی متقاضی ہے کہ وزیراعظم عمران خان فوری طور پر ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائیں جس میں ہندوستان کے انتہائی اقدام کے بعد مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والی ہنگامی صورت حال پر سیر حاصل بحث کی جائے تاکہ اتفاق رائے سے آگے بڑھا جائے، آج کی صورتحال سقوط ڈھاکہ کے بعد ہماری تاریخ کی سب سے خطرناک صورتحال ہے۔کیونکہ کشمیر کا مسئلہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ اپوزیشن ہماری جمہوری تاریخ کی سب سے بڑی اور مضبوط اپوزیشن ہے جس کے پاس بھی تقریباً حکومت کے برابر ہی نمائندگی ہے، ایسا کرنے سے نہ صرف وزیراعظم اور حکومت کی ساکھ بہتر ہوگی بلکہ مجموعی طور پر بیرونی دنیا کے سامنے ہمارا تاثر بھی اچھا بنے گا بصورت دیگر نہ صرف مشکلات مزید بڑھیں گے بلکہ ملک کے اندر مزید انتشار پھیلے گا جن کا فائدہ بحرحال دشمن کو ہوگا، اس اہم مرحلے پر ہونے والا نقصان ناقابل تلافی بھی ہوسکتا ہے جس پر تاریخ آج کے حکمرانوں کو بھی معاف نہیں کرے گی کیونکہ یہ لاکھوں شہداء کے خون کے ساتھ غداری کے مترادف ہوگا۔
یاد رہے کہ انا، غصہ، عناد اور نفرت پر مبنی فیصلے ہمیشہ گھاٹے کا سودا ہوتاہے، برداشت، خندہ پیشانی، صلح جوئی اور فراخدلی ہی وہ خصوصیات ہیں جو شخصیات کو تاریخی بنا تی اور ہمیشہ زندہ ررکھتی ہیں۔اب یہ ضروری ہوگیاہے کہ ہندوستان سے تمام سفارتی واقتصادی تعلقات فوری طور پرمعطل کئے جائیں جس میں کرتارپور راہداری کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ 15اگست کویوم سیاہ پر ملک بھر میں مکمل ہڑتال کی جائے اور اسی روز مظفرآباد میں ایک بڑا عوامی جلسہ منعقد کیاجائے جس میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین خطاب کریں، یہ دن ہندوستان کا یوم آزادی ہے جسے ہم پہلے ہی یوم سیاہ کے طور پر منانے کا اعلان کرچکے ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38