بھارتی سازشیں ناکام بنانے کیلئے مثالی یگانگت و یکجہتی ناگزیر ہے
یوم آزادی اور یکجہتی کشمیر پر وزیراعظم اور صدر کا بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا اعلان
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی تو یہ 2 ملکوں کے درمیان نہیں ہوگی بلکہ دنیا اسکے اثرات محسوس کریگی۔یوم آزادی کے موقع پر کنونشن سینٹر اسلام آباد میں پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کے دوران صدر مملکت نے کہا کہ آج کا دن قومی تاریخ میں خاص اہمیت کا حامل ہے، آج کے دن اللہ نے ہمیں آزادی کی نعمت عطا فرمائی، ہمارے قائدین کی قربانیوں کی بدولت ہم آزاد فضاوَں میں سانس لے رہے ہیں۔ بھارت میں اقلیتوں کو اب 2 قومی نظریے کی سمجھ آرہی ہے، انہیں احساس ہورہا ہے انکے بزرگوں نے پاکستان نہ آکرغلطی کی۔صدر مملکت نے کہا دعا ہے کہ قومی پرچم آزاد فضاوَں میں تا قیامت لہراتا رہے، اس سال آج کا دن یوم یکجہتی کشمیر بھی ہے، بھارت نہ بھولے کہ مسئلہ کشمیر کے 3 فریق ہیں،کشمیریوں کو رائے شماری کا حق حاصل ہے، مقبوضہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں میں متنازعہ ہے۔صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ پاکستان کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کرتا ہے اور بھارتی اقدام کو کسی طور قبول نہیں کرتا، دنیا دیکھ رہی ہے پوری پاکستانی قوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے، ہم کشمیریوں کے ساتھ تھے، ساتھ ہیں اور ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات میں کمی کی ہے، پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔صدر مملکت نے مزید کہا کہ بھارتی حکومت نے نہرو کے وعدوں پر پانی پھیر دیا، اس نے شملہ معاہدے کوردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے، وہ جنگ بندی معاہدوں کی بھی خلاف ورزی کررہا ہے، بھارتی اقدامات سے امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے، پاکستان امن پسند ملک ہے، بھارت ہماری امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھے۔
دریں اثناء وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں امبیسیڈربن کر کشمیر کی آوازدنیا میں اٹھائوں گا۔ اس وقت کشمیریوں کیساتھ ہوں جب وہ سب سے بڑے بحران سے گزررہے ہیں۔ ہم نے مودی اور بی جے پی کی اصل شکل کودنیا کے سامنے رکھا ہے۔ نریندر مودی بچپن سے آر ایس ایس کے ممبرہیں۔ آر ایس ایس نے اپنانظریہ ہٹلرکی نازی پارٹی سے لیاہے، ان کی طرح یہ بھی خودکوبرترسمجھتے ہیں۔یہ نظریہ ان سب سے نفرت کاہے جنہوں نے بھارت پرحکومت کی۔ مودی نے اسٹرٹیجک بلنڈرکردیا۔ دنیا کی نظریں اب کشمیر اور پاکستان پرہیں۔ میں مودی کوپیغام دیتاہوں کہ آپ کی اینٹ کاجواب پتھرسے دیاجائیگا۔ خطاب کے اختتام پر انہوں نے آج کے دن کی مناسبت سے قائد اعظم محمد علی جناح کو خراج تحسین پیش کیا کہ کس طرح انہوں نے مذاکرات کے ذریعے برصغیر کے اس وقت کے سب سے بڑے مسئلے کو حل کیا۔ علاوہ ازیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے باغ سیکٹر میں لائن آف کنٹرول کا دورہ کیا ۔ اس موقع پر پاک فوج کے سربراہ نے کہا کہ حکومت نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مختلف کوششوں کا آغاز کردیا ہے، جس طرح امن کیلئے ہماری خواہش ہے، اسی طرح مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ہم پرعزم ہیں۔ آرمی چیف نے کہا کہ بھارت، مقبوضہ جموں و کشمیر سے دنیا کی توجہ ہٹا کر ایل او سی اور پاکستان کی طرف موڑنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس مقصد کیلئے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے، تاہم ہم بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں کیے جانیوالے جرائم کو چھپانے کا کوئی موقع فراہم نہیں کرینگے۔
گزشتہ روز پاکستان آزاد و مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں جہاں بھی پاکستانی اور کشمیری موجود ہیں‘ پاکستان کا یوم آزادی بیک وقت تزک و احتشام کے ساتھ اور کشمیریوں پر بھارت کے بہیمانہ مظالم میں اضافے اور اسکی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اقدام کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے منایا گیا۔ 14؍ اگست کو پاکستان کے یوم آزادی پر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کیا گیا‘ اس پر پاکستان اور آزاد کشمیر کے پرچموں کی ملک بھر میں بہار نظر آئی۔ پاکستان کے یوم آزادی‘ یوم دفاع اور قرارداد پاکستان کے یادگار دن 23؍ مارچ کو مقبوضہ کشمیر میں جشن کا ایک سماں ہوتا ہے‘ کشمیری پاکستان زندہ باد‘ کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگاتے ہوئے گھروں سے نکل آتے ہیں۔ اسکے باوجود کہ انہیں بھارتی فورسز کی ممکنہ سفاکیت کا ادراک ہوتا ہے۔ اسکے ظالمانہ ہتھکنڈے اور حربے کشمیریوں کی راہ میں پاکستان کیلئے والہانہ پن کے اظہار میں کبھی سدِراہ نہیں رہے۔ 5؍ اگست کو بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اقدام سے کشمیر پر شب خون مارا گیا۔ اگلے روز کشمیری احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر آئے‘ کشمیر کی انتظامیہ انکے سامنے بے بس نظر آئی تو فوری طور پر وادی میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ بربریت کی انتہاء ہے کہ کشمیریوں کو گھروں میں محصور کردیا گیا‘ وہ بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم کر دیئے گئے۔ انٹرنیٹ‘ موبائل فون سروس کو ان حالات میں لگژری شمار کیا جاتا ہے‘ وہاں بچوں کو دودھ میسر نہیں‘ بیمار ادویات اور اکثر کشمیری خوراک سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ صدر آزاد کشمیر مسعود خان نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھوک سے لوگ مر رہے ہیں۔ وہاں خوراک اور ادویات ختم ہو چکی ہیں۔ خوراک اور ادویات کی فراہمی کیلئے ایل او سی کو کھولا جائے۔ اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر میں ایل او سی کے راستے خوراک پہنچائے۔ بھارت وادی میں خوراک کی قلت پیدا کر کے کشمیریوں کو مار رہا ہے۔
کشمیریوں کی موت کی طرف بڑھتے ہوئے ہاتھ اقوام متحدہ نے روکنے ہیں۔ اسکی طرف سے بھارت کے کشمیر کے خصوصی سٹیٹس کے خاتمے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اپنی استصواب کی قراردادوں کی یاد دلائی گئی ہے مگر یہ سب زبانی جمع خرچ ہے۔ اقوام متحدہ اور بااثر ممالک کے ضمیر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے بڑے واقعات پر انگڑائی لیتے ہیں مگر بھارت کی طرف سے لغو پراپیگنڈے کے بعد پھر گہری نیند سو جاتے ہیں۔ دنیا کا کونسا فورم ہے جس پر کشمیریوں اور پاکستان نے بھارتی سفاکیت کیخلاف دستک نہ دی ہو مگر اسکے کبھی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔ کیا کشمیری یونہی مرتے رہیں گے؟ انہوں نے اپنی آزادی کی خاطر استصواب کی امید پر قربانیاں دیں‘ جانی مالی اور عزت و ناموس تک کو قربان کرنا پڑا۔ استصواب کی صورت میں ان کو آزادی مل سکتی ہے۔ مسئلہ کشمیر خود بھارت اقوام متحدہ لے کر گیا۔ نہرو نے استصواب کے حوالے سے نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کو تسلیم کیا بلکہ ان پر عمل کرنے کا یقین بھی دلایا۔ انکے ایسے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ بھارت اپنے وعدوں سے مکر گیا۔ متنازعہ خطے کو وہ اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے لگا۔ بددماغی اور ڈھٹائی کی حد تویہ ہے کہ پاکستان کے کئی حصوں بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھی اپنا حق جتانے لگا۔
اب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے استصواب کے ذریعے کشمیریوں کی آزادی کے چراغ گل کرنے کی سازش کی ہے۔ 35اے کے خاتمے سے بھارت شدت پسندوں کو کشمیر میں بسا کر آبادی کا تناسب بگاڑے گا اور اس وقت استصواب کرانے پر تیار ہوگا۔ جب اسے اکثریتی فیصلے کی حمایت کا یقین ہوگا مگر کشمیری مسلمان کٹ تو جائینگے‘ آزادی کے حق سے قطعاً دستبردار نہیں ہونگے۔ پاکستان اور کشمیریوں کیلئے بھارت کو کشمیر میں آبادی کے توازن کو بگاڑنے سے روکنے کا یہی موقع ہے۔ عالمی برادری کو ضرور متحرک کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ میںبھی پاکستان ضرور جائے مگر اسے اپنے زوربازو پر بھی انحصار کرنا ہوگا اور شاید کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد کے موقف سے اب آگے جانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی طرف سے ہمیشہ امن کی بات کی گئی اور جنگ گریز پالیسی اپنائی گئی مگر دشمن حالات ہی جنگ کے پیدا کردے تو اس کا پھر وہی جواب بنتا ہے جو صدر عارف علوی‘ وزیراعظم عمران خان‘ آرمی چیف جنرل باجوہ اور قوم کا ہر فرد دے رہا ہے۔ بھارت اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آیا اور اس نے جنگ مسلط کی تو یہ جنگ روایتی جنگ نہیں بلکہ ایٹمی جنگ پر منتج ہوسکتی ہے۔ عالمی برادری کو اس جنگ کا ادراک ہونا چاہیے‘ جس سے صرف یہ دونوں ممالک اور پورا خطہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اسکی لپیٹ میں آجائیگی جس کا ذمہ دار بھارت ہوگا۔ اب اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا وقت آگیا ہے۔ ویسے ایسا جواب دینے سے پہلے بھی کبھی لیت و لعل سے کام نہیں لیا گیا۔ 27 فروری 2019ء کی یاد بھارت کو دلاتی رہے گی۔ جب جارحیت کے ارادے سے پاکستان کی حدود میں داخل ہونیوالے دو بھارتی مگ مار گرائے گئے اور اسکا کپتان ابھی نندن قیدی بنالیا گیا تھا۔ معروضی حالات میں قوم کے اٹوٹ اتحاد کی ضرورت ہے۔ افسوس! ہمارے سیاست دان ان میں کچھ ماضی میں حکمران تھے اور کچھ مستقبل میں بھی ہونگے۔ ان میں سے کچھ بااثر لیڈر بھی کشمیر ایشو پر سیاست کررہے ہیں۔ قوم نے کل یوم آزادی پاکستان کے موقع پر کشمیریوں کے شانہ بشانہ ہونے کا پیغام دیا ہے۔ آج بھارت کے یوم آزادی کو بطور یوم سیاہ مناتے ہوئے بھارت اور دنیا پر واضح کردیں گے کہ بھارت کی کشمیریوں کے استصواب کا حق غصب کرنے کی ہر سازش کو ناکام بنا کر رہیں گے۔