جمعرات ‘ 13؍ ذی الحج 1440ھ ‘ 15 ؍ اگست 2019 ء
جشن آزادی پر منچلوں کی ہلڑ بازی
بحیثیت ایک زندہ قوم ہمیں حق ہے کہ ہم اپنا یوم آزادی نہایت دھوم دھام سے منائیں۔ پوری دنیا میں ہر آزاد ملک کے شہری اپنا یوم آزادی یا قومی دن نہایت تزک و احتشام سے مناتے ہیں۔ سو ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ سچ کہیں تو اس موقع پر ہم کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو جاتے ہیں۔ سڑکوں پر رات بارہ بجے جب قیام پاکستان کے وجود میں آنے والا پہلا لمحہ شروع ہوتا ہے تو پورے ملک میں لاکھوں منچلے سڑکوں پر نعرے لگاتے، بگل اور باجے بجاتے جس انداز میں جشن آزادی مناتے ہیں اسے دیکھ کر تو یوں لگتا ہے جیسے یورپ میں نئے سال کا آغاز کا جشن ہو۔ خوشیاں منانا، پرچم لہراتے سڑکوں پر گشت کرنا کوئی غلط کام نہیں۔ بس اس موقع پر سڑکوں پر چوراہوں پر بھونپو بجا کر تیز میوزک پر ڈانس کرنا معیوب لگتا ہے۔ اس موقع پر بہت سی فیملیاں بھی جشن آزادی منانے نکلی ہوتی ہیں۔ ان کا سارا لطف غارت ہو جاتا ہے۔ کئی شہروں میں تو پولیس والوں کو مجبوراً غل غپاڑہ، ہلڑ بازی مچانے والے منچلوں کو قابو کرنا پڑتا ہے۔ اگر یہ جشن ہم سب اسی طرح جوش جذبے کے ساتھ مل جل کر شائستگی سے منائیں، کسی کو تکلیف نہ دیں راستے بلاک نہ کریں تو لاکھوں نہیں کروڑوں پاکستانی مزید دھوم دھام سے یہ جشن منانے کے لیے باہر آ سکتے ہیں۔ کیونکہ …؎
ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں
ہم سب کی ہے پہچان ہم سب کا پاکستان
٭٭٭٭
مولانا فضل الرحمن کی جان کو خطرہ ہے ۔ڈیرہ اسماعیل خان پولیس کی رپورٹ
مولانا نے ایسا کیا کر دیا کہ ان کی جان خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اس وقت تو مولانا قدرے فراغت سے ہیں ہاں چند ہفتوں بعد انہوں نے حکومت کا بوریا بستر گول کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ کیونکہ وہ زیادہ دیر سیاست کے بنا نہیں رہ سکتے۔ اس لیے اس وقت ان کی حالت…؎
غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کئے ہوئے
والی ہے اور وہ کسی بھی وقت یہ طوفاں اٹھانے کے لیے اسلام آباد پر کسی برساتی طوفان یا بگولے کی کی شکل میں چڑھائی کر سکتے ہیں۔ اب یا تو واقعی خفیہ اطلاعات ہو سکتی ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں ان کو سیاسی شہید بنا کر ملک میں افراتفری کے عزائم رکھتی ہیں یا پھر یہ ہوائی خود جے یو آئی والے اڑا رہے ہیں شاید وہ جانتے ہیں کہ اس بار پیالی میں طوفان اٹھنے والا نہیں۔ تیسری صورت یہ ہے حکومت انہیں ڈرا کر اسلام آباد چڑھائی غبارہ سے ہوا نکالنے کے چکر میں ہے۔ وجہ جو کوئی بھی ہو اصل بات تو یہ کہ مولانا فضل الرحمن خود اس بارے میں کیا رائے دیتے ہیں کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اب اگر انہیں حکومت کے خلاف نکلنا ہے تو کوئی انہیں روک نہیں سکتا۔ یہ اطلاعات، ریڈ الرٹ کی باتیں اپنے بارے میں پھیلا کر کئی افراد سیاسی لیڈر بن جاتے ہیں۔ مولانا کو ایسی باتوں کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ وہ خود ایک بڑے لیڈر اور بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں…
دو افراد نے شاہی قلعے میں نصب مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ توڑ دیا
ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے تھے کہ ہماری لبرل سول سوسائٹی اور کچھ حکومتی روشن خیالوں نے شاہی قلعہ میں پنجاب کے سکھوں کے سب سے بڑے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ نصب کیا تھا۔ جس میں وہ ہاتھ میں تلوار تھامے دشمن کو للکارتے ہوئے گھوڑے پر سوار آگے بڑھتے نظر آ رہے تھے۔ بڑی دھوم د ھام سے اس کام کی تشہیر بھی ہوئی۔ اب جہاں لاکھ سجن وہاں لاکھ دشمن بھی تو ہوتے ہیں۔ سو جہاں روشن خیال پنجابیوں نے اس مجسمہ کے نصب ہونے پر خوشیاں منائیں وہاں سکھا شاہی میں ستائے جانے والے مسلمانوں کے ہمدردوں کو دکھ بھی ہوا ہو گا۔ سو ابھی مجسمہ پر ہار چڑھانے والے لوگ رخصت بھی نہیں ہوئے تھے کہ ایک معذور شخص نے ہاتھ میں ڈنڈا تھام کر دوسرے شخص کے سہارے خاموشی سے مجسمہ پر ہلہ بول دیا اور مہاراجہ کا ایک بازو توڑ ڈالا اور ڈنڈے کی ضربوں سے مجسمے کو کافی نقصان بھی پہنچایا۔ اطلاع ملنے پر فوری طور پر دونوں حملہ آور پکڑے گئے تو اس معذور شخص نے بیان دیا کہ اس کے اندر بت شکن سلطان محمود غزنوی کی روح موجود ہے۔ اس لیے اس نے ایسا کیا۔ اب حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ا گر ایسا ہوتا تو پھر اس میں امیر تیمور کی روح ہونی چاہیے جو لنگڑے پن کی وجہ سے تیمور لنگ کہلاتا ہے۔ محمود غزنوی تو صحیح سلامت حکمران تھے۔ ان کے دور میں تو سکھوں کا وجود ہی نہیں تھا۔ اب پولیس کے ہتھے چڑھنے کے بعد دیکھتے ہیں اس حملہ آور کے اندر سے محمود غزنوی کی روح کب باہر نکلتی ہے۔ پولیس اہلکار احتیاط سے کام لیں کہیں حملہ آور کی اپنی روح نہ نکل پڑے…
٭٭٭٭٭
راہول گاندھی کا دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مقبوضہ کشمیر جانے کا اعلان
اب معلوم نہیں کانگریس کے رہنما مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی حالت زار دیکھنے جا رہے ہیں یا دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان کے پردادا نے جو فساد کا بیج بویا تھا اب وہ کتنا توانا ہو چکا ہے۔ اس کی زہریلی جڑیں مقبوضہ کشمیر میں کہاں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر کانگریس کے رہنما جواہر لعل نہرو و لبھ بھائی پٹیل 1947ء میں ریاست جموں و کشمیر کو اپنی شیطانی سیاست کی بھینٹ نہ چڑھاتے تو آج یہ جنت ارض اس طرح شعلوں میں گھری ہوئی نہ ہوتی۔ یہ ساری آگ خود کانگریس کی ہی لگائی ہوئی ہے اب راہول جی وہاں کیا ہاتھ تاپنے جا رہے ہیں۔ منشور تو اندر خانے تمام بھارتی ہندو نواز جماعتوں کا یہی ہے۔ بس جس کو موقع ملا اس نے پوائنٹ سکور کر لیا۔ فرق یہ ہے کہ باقی سب ہندو نواز جماعتیں اپنے کو سیکولر کہہ کر سیاست کرتی رہیں۔ حکومت کرتی رہیں، مودی کی بی جے پی نے کھلے عام ہندو توا کا نعرہ لگا کر الیکشن جیتا اور اب وہ اپنے مکروہ عزائم کو پروان چڑھا رہے ہیں، اگر کانگریس واقعی اتنی سیکولر ہوتی جتنا وہ ظاہر کر رہی ہے تو پھر اسے چاہئے تھا کہ وہ بابری مسجد کی شہادت پر ہی مسلمانوں کی اشک شوئی کرتی۔ مگر اس موقع پر بھی کانگریس کی طرف سے صرف اور صرف باتیں ہوتی رہیں۔ کسی نے مسلمانوں کے زخموں پر مرہم نہ رکھا۔ آج پریانکا اور راہول گاندھی دونوں بہن بھائی صرف اپنی سیاسی بقا کے لیے دوسری سیکولر جماعتوں کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭