آل انڈیا مسلم لیگ کے خصوصی اجلاس میں کشمیر پر قرارداد منظوری کی گئی تھی جس میں مہاراجہ پر زور دیاگیا تھا کہ وہ کشمیر میں بسنے والے مسلامنوں کے میعارزندگی میں بہتری کے لئے اقدامات کرے اور ان کی تعلیم اور معاشی پسماندگی دور کرنے کے لئے اصلاحات کی جائیں۔
1929میں دوبارہ قائداعظم کشمیر تشریف لے گئے۔ اس مرتبہ انہوں نے کشمیر کے ممتاز رہنماوں سے ملاقات کی۔ تیسری بار 1936 اور چوتھی بار 1944 میں کشمیر گئے۔ آپ نے نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس کے اجلاسوں میں شرکت کی اور خطاب بھی فرمایا۔ آپ نے کم وبیش ڈیڑھ ماہ تک کشمیر میں قیام فرمایا۔ 1936 میں قائداعظم جب کشمیر تشریف لے گئے تو اس دورے کے دوران کشمیر کے تمام ممتازقائدین نے انہیں استقبالیہ دیا۔ ان میں شیخ عبداللہ اور چوہدری غلام عباس سرفہرست تھے۔
قائداعظم کے دورہ کشمیر پر سری نگر پتھر مسجد میں عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا تھا جس میں چوہدری غلام عباس نے سپاسنامہ پڑھا تھا۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ’’ہمارا رب اللہ ایک ہے، ہمارے رسول ؐایک ہیں، ہمارا قرآن ایک ہے، اس لئے ہمیں بھی ایک آواز ہونا چاہئے۔‘‘
قائداعظم نے فرمایا تھا ’’عزت کا ایک راستہ ہے۔ وہ ہے اتفاق اتحاد، ایک پرچم، ایک نصب العین، ایک پلیٹ فارم’ اگر آپ نے یہ حاصل کرلیا توآپ یقینا کامیاب ہوں گے۔‘‘
افسوس کہ کشمیری قیادت اس وقت تقسیم ہوگئی اور شیخ عبداللہ نے نیشنل کانفرنس کے نام سے الگ جماعت بنالی۔ یہ کشمیریوں کی جدوجہد میں ایک افسوسناک مرحلہ تھا۔ اس تقسیم نے ان کے دکھوں اور مصیبتوں میں اور اضافہ کردیا۔
1944میں آخری مرتبہ جب قائد وادی کشمیر گئے تو نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس دونوں نے دعوت دی تھی۔
قائداعظم نے کشمیری نوجوان کے ایچ خورشید کو اپنا پرسنل سیکریٹری مقرر کیا۔ کے ایچ خورشید 1944 سے 1947 تک قائداعظم کے پرسنل سیکریٹری رہے۔
مہاراجہ نے کشمیریوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپتے ہوئے جب 27 اکتوبر1947ء کو بھارتی فوجیں کشمیری میں گھسا دیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے کمانڈر انچیف پاکستان آرمی کو جموں اور سرنگر میں فوجی دستے بھجوانے کا حکم دیا۔ بدقسمتی سے قائداعظم کے احکامات پر عمل نہ ہوسکا۔
اس وقت بھارتی نیشنل کانگریس نے کشمیر کو اپنے ساتھ ملا کر اپنے بنیادی نظریئے اور بیانئے سے انحراف کیاتھا۔ کانگریس کا کہنا تھا کہ ریاستوں کے عوام کو حق دیا جائے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کریں اور اس کی روشنی میں الحاق کا فیصلہ ہونا چاہئے۔ یہی اصول حیدرآباد پر لاگو کیاگیا جہاں کا نواب مسلمان تھا اور پاکستان سے الحاق چاہتا تھا لیکن اس کی رائے کو اسی اصول کی بنیاد پر تسلیم نہ کیاگیا۔ لیکن جب باری ریاست جموں وکشمیر کی آئی تو غالب مسلم اکثریت والی وادی نظیر کے ہندو مہاراجہ کی ساز باز پر بھارت نے فوج کشی کردی۔
پاکستان اور کشمیر جغرافیائی اور معاشی لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے باہم پیوست ہیں۔ پانی کی نعمت کشمیر سے بہتی ہمارے کھیتوں کھلیانوں کو سیراب کرتی ہے۔ پنجاب اور سندھ تک کشمیر سے آنا والا پانی ہے جو لہلہاتی فصلوں کا رنگ روپ لیتا ہے۔
پاکستان اور کشمیر کے درمیان یہی قدرتی میلان اور یکجائی ہے جسے قائداعظم نے نہایت ہی خوبصورت لیکن بصیرت افروز الفاظ پیرائے میں سمو دیاتھا۔ آپ نے کشمیر کو ’’پاکستان کی شہہ رگ‘‘ قرار دیا۔ اس سے جامع، پراثر، گہرا اور پرمغز تبصرہ اور نہیں ہوسکتا۔ ان کے اس فرمان کی صداقت ان کی علمی و صداقت کا مظہر ہے۔ قائد کا صرف یہ ایک فرمان ہی کشمیر پر ہماری پالیسی بیان کرنے کو کافی ہے۔
آج 73سال گزرے، یوم آزادی کادن ہے اور آج ہم یوم یک جہتی کشمیر منارہے ہیں۔ پون صدی بعد بھی علامہ اقبال، قائداعظم کے فرمودات حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئے۔ زبان دراز تو خیر ویسے ہی فنا ہوچکے ہیں لیکن ہند نواز شیخ عبداللہ کے فرزند فاروق عبداللہ کی آنکھوں سے بہتے آنسو حضرت قائداعظم کی جامع مسجد سری نگر میں کی جانے والی تقریر کی سچائی بن کر آج 73 سال بعد گر رہے ہیں۔ محبوبہ مفتی اپنے والد کے جرم کا خود اقبال کررہی ہیں۔
دو قومی نظریہ کی حقیقت، ہندو کی مکاری آج ایک بار پھر پوری قوت، شدت اور سچائی سے دنیا کے سامنے آچکی ہے۔ جو سبق قائداعظم نے 73 سال پہلے دیا تھا، عاقبت نااندیشوں نے مکاروں کے جوتے کھا کر آج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے اور بھگت لیا ہے۔
اب حل کیا ہے؟؟ کیا ہم نے سو پیاز اور سو جوتے کھانے کی مشق جاری رکھنی ہے؟؟ یا پھر دو قومی نظریئے اور قائداعظم وعلامہ اقبال کی فکر کی روشنی میں آگے بڑھنا ہے۔۔ کیا مزید کسی تجربے کی گنجائش رہ گئی ہے۔ ہر عقل مند اور محبت وطن پاکستانی اور کشمیری یہی کہے گا کہ نہیں۔۔۔ ہر گز نہیں۔
اب فیصلہ کن مرحلہ آن پہنچا ہے۔ وقت نے ثابت کردیا کہ تحریک پاکستان جاری ہے۔ قائداعظم کا دو قومی نظریہ کا پرچم کشمیری اپنے ہاتھوں میں اٹھائے سری نگر اور وادی کشمیر میں سینے پر گولیاں کھا کر بلند کررہے ہیں۔ آج تحریک تکمیل پاکستان کی منزل ہے جو کشمیر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ دو قومی نظریہ کے خلاف زہر اگلنے والوں کو مووی نے اپنے عمل سے گولی مار دی ہے۔ اسی لئے ان کی زبانیں گنگ، دماغ شل اور حوصلے فنا ہوچکے ہیں۔ دو قومی نظریہ پر یقین رکھنے والوں کے حوصلے بلند اور شوق شہادت مزید بڑھ گیا ہے۔ یہ ہے فرق سچ اور جھوٹ کا۔۔ جھوٹ کے مٹنے کا وقت آگیا ہے۔ (ختم شد)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38