آزادی جیسی نعمت کے سامنے دکھوں کی کوئی حیثیت نہیں : محمد رشید
ملتان (نیوز رپورٹر) زندگی دکھوں کی آماجگاہ ہے مگر آزادی جیسی نعمت کے سامنے ان دکھوں کی کوئی حیثیت نہیں ان خیالات کا اظہار ضلع روہتک تحصیل سونی پت کے گاؤں جھجارا والی گڑھی سے 13 سال کی عمر میں ہجرت کر کے آنے والے محمد رشید ولد جمال دین نے ’’ہم نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘ میں کیا انہوں نے کہا کہ میرے والد کھیتی باڑی کرتے تھے جبکہ میں دوسری جماعت کا طالب علم تھا اس وقت دریائے جمنا میں نہانے کا رواج تھا بلکہ ہندوؤں کی ایک رسم تھی نہاتے ہوئے مسلمان اور ہندوؤں کی لڑائی ہو گئی ادھر آزادی کی تحریک بھی اپنے جوبن پر تھی ہندو بہانہ تلاش کر رہے تھے بس اس لڑائی کو بہانہ بنا کر ہندوؤں نے ہمارے گاؤں پر چڑھائی کر دی گاؤں کو آگ لگا دی اور خود گھروں کے باہر گنڈاسے لیکر کھڑے ہو گئے بڑی بے دردی سے گاؤں کا صفایا کر دیا چند افراد زندہ بچے جو اپنی زندگیاں بچا کر خالی ہاتھ بھاگ کھڑے ہوئے اور کوئی 20 کلومیٹر دور گاؤں میں پناہ لی جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی ایک دن حملہ کے خوف سے بڑے بزرگوں کا فیصلہ ہوا کہ رات کو گاؤں کا پہرہ دیا جائے۔ 10 جوانوں کا دستہ تیار کیا جو رات کو گاؤں پر ٹھیکری پہرہ دیتا کوئی دس دن سکول سے گزرے تھے کہ ساتھ والے گاؤں رادھا سے دھواں اٹھتا دکھائی دیا۔ اطلاع ملی کہ ہندوؤں نے گاؤں کو آگ لگا دی ہے اور ایک گروہ ادھر بھی آرہا ہے تو 1200 افراد پر مشتمل ایک قافلہ نے دریائے جمنا کا رخ کیا پانی تھوڑا تھا جسے عبور کرلیا کوتانہ شہر پر کیمپ میں ایک ہفتہ رہے۔ راستہ میں کئی ہندو ملے جو کہتے تھے کہ مذہب تبدیل کر لو جائیدادیں دیں گے آپ کی حفاظت بھی کریں گے تاہم آزادی کا جنون تھا کہ بڑھتا چلاگیا اور ہمارا قافلہ گنور اسٹیشن پر جا پہنچا اور یوں ہم گنور سے واہگہ بارڈر سے پاکستان پہنچے آج کے اس کرپشن زدہ‘ بدعنوان دور سے پناہ مانگتا ہوں۔