کشمیری رہنما شاہ فیصل دہلی ائرپورٹ سے گرفتار، کپواڑہ کے گھر میں نظر بند
نئی دہلی (بی بی سی) انڈین میڈیا کے مطابق کشمیری سیاستدان اور سابق بیوروکریٹ شاہ فیصل کو نظر بند کر دیا گیا ہے۔ انڈین میڈیا کے مطابق انہیں دلی ائیرپورٹ سے گرفتار کیا گیا جس کے بعد انہیں کشمیر منقتل کر کے کپواڑہ میں ان کے آبائی گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔ ابھی تک سرکاری طور پر ان کو حراست میں لیے جانے کی وجہ بیان نہیں کی گئی ہے۔ 13 اگست کو بی بی سی کے مقبول ٹی وی پروگرام ہارڈ ٹاک میں بات کرتے ہوئے انہوں نے گرفتاری کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔ شاہ فیصل کا کہنا تھا کہ پولیس مجھے بھی گرفتار کرنے آئی تھی اور مجھے خدشہ ہے کہ جب میں واپس کشمیر جاؤں گا تو مجھے بھی گرفتار کر لیا جائے گا۔ واضح رہے مقبوضہ کشمیر کے سینئر سیاسی رہنماؤں بشمول دو سابق وزراء اعلیٰ چار اگست سے نظر بند ہیں۔ انڈین حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی تبدیلی اور گذشتہ دس روز سے جاری لاک ڈاؤن کے بارے میں بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں شاہ فیصل کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جن کا خیال تھا کہ انڈیا انہیں دھوکہ نہیں دے گا، یہ جو ہمارے ساتھ کیا گیا ہے، یہ جو سلسلہ پانچ اگست 2019 کو شروع ہوا ہے، یہ ہماری نسل کو دھوکہ دیا گیا ہے۔ 13 اگست کو بی بی سی کے مقبول ٹی وی پروگرام ہارڈ ٹاک میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی سیاسی جماعت جموں و کشمیر پیپلز موومنٹ کے رہنما شاہ فیصل کا کہنا تھا کہ آٹھ روز سے جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ ہے، رابطے کے ذرائع منقطع ہیں اور اسی لاکھ افراد محاصرے میں ہیں۔وادی میں لاک ڈائون ہے، سڑکیں سنسان، بازار بند ہیں، انٹرنیٹ، ٹی وی، موبائل نیٹ ورک معطل ہیں اور لوگ اپنے عزیز و اقارب سے رابطہ نہیں کر پا رہے ہیں۔ جموں و کشمیر کی عوام کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔ جموں و کشمیر میں اس وقت جنگ سی صورتحال ہے، غیر معمولی تعداد میں سکیورٹی فورسز موجود ہیں۔ کشمیر کی تمام سیاسی قیادت کو گرفتار یا حراست میں لیا گیا ہے۔‘شاہ فیصل کا کہنا تھا کہ پولیس مجھے بھی گرفتار کرنے آئی تھی اور ’مجھے خدشہ ہے کہ جب میں واپس کشمیر جاؤں گا تو مجھے بھی گرفتار کر لیا جائے گا۔‘پروگرام ہارڈ ٹاک میں اس سوال پر کہ انڈین حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد آپ اپنی جماعت کے کارکنوں اور کشمیری عوام کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، تو شاہ فیصل کا کہنا تھا کہ ’پانچ اگست کو جس طرح سے انڈین حکومت نے آئینی شب خون مارا ہے اس سے ہم جیسے سیاستدان جنھیں جمہوری عمل پر یقین تھا اور وہ امید رکھتے تھے کہ انڈیا کے آئین کے اندر رہتے ہوئے ہی اس کا کوئی ممکنہ حل نکلے گا ان کا اعتماد ختم ہو گیا ہے۔’ہم لوگوں کو بنا کسی وجہ کے قید کر دیا گیا ہے، ہمارے دو سابق وزرا اعلیٰ نظر بند ہیں۔ لہذا جب آپ تحریک چلانے کی بات کرتے ہیں تو گذشتہ ایک ہفتے کے دوران وادی میں کسی بھی قسم کا احتجاج کرنا ناممکن ہے۔ لیکن مجھے علم ہے کہ جیسے ہی کشمیر میں پابندیاں ختم ہوں گی تو فطری تور پر وہاں مظاہروں کا آغاز ہو جائے گا۔‘کشمیری عوام کو پرامن رہنے کی تلقین دینے کے سوال کے جواب پر کشمیری سیاسی رہنما شاہ فیصل کا کہنا تھا کہ ’یہ سمجھداری کا تقاضہ ہے کہ آپ پرامن رہیں کیونکہ اس وقت وادی میں دو لاکھ سے زیادہ سکیورٹی فورس کے اہلکار ہر اس شخص کو مارنے کے لیے تیار ہیں جو ان کے خلاف آواز اٹھائے گا۔’میرے خیال میں یہ کشمیری عوام کا دانشمندانہ فیصلہ ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ انڈیا کی حکومت نے جو کیا ہے کشمیری عوام اس پر زیادہ بہتر، مستحکم، منظم و متحرک اور دور رس انداز میں ردعمل دیں گے۔‘