بولنا چاہیں زباں ساتھ نہیں دیکھتی، لکھنا چاہیں الفاظ بھول جاتے ہیں، سوچنا کی کوشش دماغ بند ہو جاتا ہے، دیکھنا چاہیں تو آنکھیں کھولنے کی ہمت نہیں ملتی۔ ان دنوں ایسی حالت میں زندگی گذر رہی ہے۔ ویسے یہ نئی بات نہیں ہے۔ کئی برس گذر گئے مسلم امہ کی بے حسی، مفاد پرستی اور خود غرضی کو دیکھتے ہوئے۔ یاد نہیں پڑتا کہ کب مسلم ممالک نے بین الاقوامی معاملات اور تنازعات میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہو۔ حتی ٰکہ قبلہ اول جیسے اہم مسئلے پر بھی امت جیسے تقسیم ہے اس سے بڑی بے حسی اور کیا ہو سکتی ہے۔ مسلمان ملکوں کے جتنے بھی لیڈر، حکمران گذرے ہیں اور جو اس وقت حکمرانی کر رہے ہیں کیا ان میں سے کسی کو بھی احساس ہے کہ انہیں بیت المقدس کے لیے کیا کرنا چاہیے تھا اور اس معاملے میں انہوں نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے یا نہیں؟؟؟؟؟
بات بیت المقدس کی آزادی کی ہو تو ہماری بے حسی اور مفاد پرستی کی اس سے بڑی دلیل تاریخ میں نہیں ملے گی، فلسطین کے نہتے لوگوں کی گردنیں کٹ رہی ہیں اور مسلمانوں کے حکمرانوں کو اپنے تجارتی فائدوں، منصوبوں اور منڈیوں کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ انہیں اپنی معیشت کی فکر لاحق ہے، انہیں اپنا معاشی مستقبل زیادہ عزیز ہے لیکن کیا یہ سب بھول گئے ہیں کہ اللہ کے حضور پیش ہونگے تو کیا جواب دیں گے، کیا وہاں مضبوط معیشت سے کامیابی مل جائے گی، کیا وہاں کسی بڑی طاقت کا ساتھ بچا پائے گا، کیا وہاں ایٹمی ہتھیار اور جدید طیارے بچا لیں گے، کیا وہاں اقوام متحدہ ساتھ دے پائے گی، یقینا نہیں،،،،، وہاں حساب دینا ہو گا کہ جب تمہیں طاقت ملی، اقتدار ملا، اختیار عطا کیا گیا تو فلسطین میں مرنے والے مسلمانوں کیلئے کچھ کیا، وہاں کیا جواب دیں گے، یاد رکھیں سب ڈیلیں، معاہدے، خفیہ ملاقاتیں، بات چیت آشکار ہو جائے گی۔ جو ہمیں نہیں بتا رہے وہ بھی کھل کر سامنے آ جائے گا۔ آج تو واپسی کا راستہ ہے، اصلاح ممکن ہے، تلافی ہو سکتی ہے اس وقت کچھ نہیں ہو گا۔ وہاں جواب دینا پڑے گا۔ جو کچھ نہیں کر سکے ان کا تو کچھ نہیں ہو سکتا لیکن جو اس وقت حکمرانی کر رہے ہیں وہ تو کچھ کر سکتے ہیں لیکن یقین رکھیں یہ بھی نہیں کریں گے۔ یہ سب مغرب کے غلام ہیں، سب سمجھوتہ کر کے طاقت حاصل کرتے ہیں، سمجھوتے سے ہی ان کا کاروبار چلتا ہے۔ اگر سمجھوتہ نہیں کریں گے تو اقتدار نہیں ملے گا اور بات نہیں مانیں گے تو اقتدار طویل نہیں ہو سکتا اس لیے کوئی کچھ نہیں کرے گا۔ یہ سب مذمت کے سوا کچھ نہیں کر سکتے، بعض تو مرمت کے خوف سے مذمت بھی اجازت سے ہی کرتے ہیں۔ کیا یہ عالم ہے، کیا یہ عالم اسلام ہے؟؟؟؟؟
قارئین کرام انہیں تو واعتصموا بحبل اللہ کا سبق ملا ہے اس کے باوجود یہ سب بڑے کس طرف چل رہے، انہیں تو مال خرچ کرنے کا سبق ملے یہ تو جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں، انہیں تو حق بات کرنے کا حکم ملا ہے، انہیں تو انصاف کا حکم ملا ہے انہیں تو جہاد کا حکم ملا ہے یہ سب کچھ فراموش کیے بیٹھے ہیں۔ صرف اور صرف تجارتی معاہدوں کا حجم دیکھ کر سب کچھ بدلنے کے درپے ہیں۔ کتنے معصوم ہیں لوگ جو ان سے فلسطین، یمن، ایران، افغانستان، برما اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں سے مدد کی توقع رکھتے ہیں۔ انہیں اسلام سے زیادہ کاروبار کی فکر ہے۔ جنگ کوئی کاروبار نہیں ہے، مظلوم بھائیوں کی مدد میں کاروبار کا فائدہ نہیں نکالا جا سکتا۔ جس کے کاروباری مقاصد ہوں وہ امت کی قیادت نہیں کر سکتا نہ ہی مسلمانوں کے حقوق کی آواز بلند کر سکتا ہے۔ حضرت علامہ اقبال نے خوب کہا تھا
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
آج مسلم امہ خوار ہو رہی ہے تو اس کی سب بڑی وجہ قرآن کریم کی تعلیمات کو نظر انداز کرنا ہے۔ جن حالات کا امت کو سامنا ہے اس کے بعد کسی اتحاد یا کسی متفقہ بیانیے کی امید رکھنا بے وقوفی ہے۔
قارئین کرام یاد رکھیں مسئلہ کشمیر پر بھی کوئی اسلامی ملک پاکستان کا ساتھ نہیں دے گا سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ پاکستان اگر یہ سمجھتا کے کہ برادر اسلامی ملک ساتھ دیں گے تو یہ حکومت کی بہت بڑی غلط فہمی ہو گی۔ نہ عالم اسلام کو اس سے غرض ہے نہ یہ مسلم امہ کا مسئلہ ہے۔ حقیقی طور پر یہ پاکستان کا مسئلہ ہے اور پاکستان کو تن تنہا اس مسئلے کے لیے جان لڑانا ہو گی۔ اس حوالے سے حکومت کسی غلط فہمی میں ہرگز نہ رہے۔ کشمیر مذمت سے نہیں ہندو کی مرمت سے آزاد ہو گا۔ پاکستان کے پاس بھارت کے ساتھ جنگ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے اور یہ جنگ پاکستان کو تن تنہا لڑنی ہے۔ نہ کوئی ہمسایہ ساتھ دے گا نہ کوئی برادر اسلامی ملک، ہو سکتا ہے اپنے سیاست دان بھی ساتھ نہ دیں لیکن اگر شہ رگ کو بچانا ہے تو سخت فیصلے کرنا ہونگے۔ یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم اور سالار اعظم کی طرف کشمیریوں کی حمایت جاری رکھنے اور آخری حد تک جانے کے عزم کا اظہار تو کیا گیا ہے لیکن آخری حد تک جانے کے لیے کہیں نہ کہیں سے کچھ شروع بھی تو کرنا ہے۔ بھارت نے سفارت کاری، بات چیت اور دنیا کے دباؤ میں نہیں آنا اس نے جو کرنا تھا کر لیا ہے اب جو کرنا ہے پاکستان نے کرنا ہے یا تو ڈرون حملوں والی پالیسی بنا لیں ہر ڈرون حملے پر مذمتی بیان جاری کر دیں اور نئے ڈرون حملے کی اجازت دے دیں یا پھر جنرل راحیل شریف والی پالیسی اپنا لیں اور دشمنوں کو چن چن کر مارنے کا عمل شروع کر دیں دونوں آپشنز سامنے ہیں، دونوں مثالیں، دونوں راستے اور دونوں طریقے موجود ہیں۔ پاکستان امن کی خواہش کو لے کر بیٹھا رہا تو بھارت اس کے بعد مزید شدت کے ساتھ کوئی اور حملہ کرے گا اگر نریندر مودی کی حکومت کو اس کی زبان میں جواب نہ دیا گیا تو لاکھوں کشمیریوں کے خون کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔ وزیراعظم عمران خان نے خود مسئلہ کشمیر کا سفیر بننے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اس وقت سفیر سے زیادہ امیر کی ضرورت ہے جو فیصلہ کرے اور اپنی شہ رگ کی حفاظت کرے۔ تاریخ بہادروں کو یاد رکھتی ہے، بزدل کبھی تاریخ میں زندہ نہیں رہتے، عزت، وقار اور مستقبل کی جنگ لڑتے ہوئے معیشت نہیں نسلوں کو دیکھا جاتا ہے۔ ہتھیار اپنی حفاظت اور بوقت ضرورت استعمال کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ہم نے ہتھیار اپنی حفاظت کے لیے بنائے ہیں اس لیے نہیں کہ ہمیں ان کی حفاظت کرنا پڑے۔ آزادی، خود مختاری کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ امن اور خوشحالی کے نام پر ہماری شہ رگ کاٹنے کو دوڑے۔
آج بھی کشمیر میں کرفیو ہے۔ سیاسی قیادت کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ رابطے کے تمام ذرائع بند کر دیے گئے ہیں۔ کشمیریوں کو گھروں میں بند کر دیا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا جنگ کی کیفیت بنائے بیٹھا ہے، ازلی دشمن ہماری شہ رگ پر قبضہ کیے بیٹھا ہے اور ہم امن کی خواہش میں آگے بڑھ رہے کیا ظلم اور امن ایک جگہ رہ سکتے ہیں۔ بھارت نے سابق بیوروکریٹ اور کشمیری لیڈر شاہ فیصل کو بھی نظر بند کر دیا ہے گرفتاری سے قبل انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بھارتی حکومت کے ظالمانہ فیصلے کے بعد کشمیر میں سیاست کی تمام اصلاحات تبدیل ہو چکی ہیں، اب ایک وہ ہوں گے جو انقلاب پسند ہوں گے اور ایک وہ جو حالات کو جوں کا توں رکھنے کے حامی ہیں میں خود کو انقلاب پسند کہلانا چاہوں گا۔
قارئین کرام ب تک عالمی طاقتوں اور عالم اسلام کی طرف سے سامنے آنے والا ردعمل مایوس کن ہے۔ ہمیں عالمی طاقتوں سے کوئی گلہ نہیں ہمارا گلہ عالم اسلام سے ہے کیا لاکھوں شہداء کے بعد بھی مسئلہ کشمیر پر تجارت کو فوقیت دی جانی چاہیے، اب تک یہی سوچ نظر آتی ہے تو پھر نہ کوئی عالم ہے نہ یہ اسلام ہے۔ پاکستان کو یہ جنگ لڑنی ہے تن تنہا لڑنی ہے، اپنی شہ رگ کے لیے لڑنی ہے، کشمیری بھائیوں کے لیے لڑنی ہے اور اپنے مستقبل کے لیے لڑنی ہے یہ سلسلہ یہاں نہیں رکا تو پھر ہمیں اس سے بھی بڑی تباہی کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اور افواج پاکستان تاریخ کے اس اہم ترین موڑ پر کسی مصلحت کا شکار نہیں ہونگے۔ بھارت کو اس دہشت گردی کا عملی جواب دیا جائے گا۔ قوم اپنی سیاسی قیادت اور افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ہے لیکن ابتداء قیادت نے کرنی ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024