غلامی کا سب سے بھیانک اثر انسان کی روح پر مرتب ہوتا ہے۔ وہ پژمردہ ہوجاتی ہے جس کا حامل انسان خود کو دوسروں سے انتہائی کمتر خیال کرنے لگتا ہے۔ وہ صرف حال میں جیتا ہے۔ ماضی خواہ کتنا ہی شاندار ہو‘ اس سے لاتعلق ہوجاتا ہے۔ مستقبل سے نااُمید ہوتا ہے‘ لہٰذا حال کے گرداب سے باہر نکلنے کی سکت ہی محسوس نہیں کرتا۔ غلامی کے یہ تباہ کن اثرات انسانی شخصیت کو کچل کر رکھ دیتے ہیں اور متاثرہ شخص کیلئے شرفِ انسانیت یا حریت فکر و عمل بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں۔ 1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد مسلمانانِ ہند کی اکثریت اسی کیفیت میں مبتلا تھی۔ برصغیر پاک و ہند میں جس ہستی نے سب سے پہلے اس صورت حال پر غور و فکر کیا‘ وہ حکیم الامت علامہ محمد اقبال تھے۔ برصغیر کی امت مسلمہ کی اس غلامانہ نفسیات نے حکیم الامت کو انتہائی مضطرب کر دیا۔ اُنہوں نے ان کی خودی کو بیدار کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔ ان کے حیات بخش افکار مسلمانوں کو حیاتِ نو عطا کرنے لگے۔ یہ مرحلہ طے کرلیا تو دسمبر 1930ء میں خطبۂ الٰہ آباد کے دوران اپنی بے وطن اور درماندہ قوم کے لئے ایک آزاد مملکت کا تصور اور اس کے جغرافیائی خدوخال پیش کردیے۔ مسلمان دشمن عناصر کی جانب سے اسے ایک دیوانے کا خواب قرار دے کر مضحکہ اڑایا گیا مگروہ اس خواب کو تعبیر دینے کی خاطر نگاہ بلند‘ سخن دلنواز‘ جاں پُرسوز کے مالک راہنما کو تلاش کرنے میں مگن ہوگئے۔ ان کی نگاہِ انتخاب ایک ایسی شخصیت پر جاٹھہری جو مسلمانانِ ہند کے رہنمائوں کی باہمی چپقلش سے مایوس ہوکر لندن میں مقیم ہوچکے تھے۔ حکیم الامت نے انہیں قائل کرلیا کہ ہند کے مسلمانوں کو مستقبل قریب میں جس طوفان بلاخیز کا امکانی طور پر سامنا ہے‘ اس سے صرف وہی انہیں بچا سکتے ہیں‘ اس لیے وہ اپنی قوم کی خاطر واپس آجائیں۔ چنانچہ وہ اکتوبر 1935ء میںہندوستان واپس آگئے۔ ان کی آمد درحقیقت مسلمانانِ ہند کی آزاد مملکت کی خشتِ اوّل تھی۔ چونکہ اسے برطانوی سامراج سے مقابلہ درپیش تھا‘ لہٰذا قدرت نے اُسے انگریزوں کے معاشرے میں رکھ کر اُس کی حنابندی کی تھی۔ اس کا وجود ضعیف تاہم قوت ایمانی سے لبریز تھا۔اسے کسی افسر شاہی یا فوج کی امداد حاصل نہ تھی مگر اس نے محض دلائل و براہین کی طاقت سے انگریز سرکار اور ہندو بنیے کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے قائداعظم محمد علی جناح کو مسلمانانِ ہند کے لئے نجات دہندہ کی صورت بھیجا تھا۔ اُن کی شب و روز جدوجہد کے طفیل ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کو غلامی سے نجات مل گئی۔ خدانخواستہ قائداعظم پاکستان نہ بنا پاتے تو ہندو توا کے علم بردار بھارتی انتہا پسندوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا آج بھی وہی حشر ہورہا ہوتا جو تقسیم ہندوستان کے وقت ہندو اور سکھ بلوائیوں کے ہاتھوں 1947ء میں ہجرت کے دوران مسلمانوں کا ہوا تھا۔جن شخصیات کو اس مملکت خداداد کے قیام کے سلسلے میں قائداعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت جدوجہد کا شرف حاصل ہوا تھا‘ وہ اس داستانِ خونچکاں کے عینی شاہد ہیں۔ ان سے باتیں کریں تو ماضی کے اوراق پلٹتے وہ لازماً آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔ حاصلِ کلام یہ ہوتا ہے کہ ’’پاکستان کوئی سوکھانئیں سی بنیا۔‘‘ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ دو ایسے ادارے ہیں جن کو قائم بھی قائداعظم کے انہی سپاہیوں نے کیا اور جن کے روزمرہ امور بھی انہی کی زیر نگرانی چلائے جاتے ہیں۔ گزشتہ روز ایوانِ کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں منعقدہ یومِ آزادی کی خصوصی تقریب کے مہمانانِ خاص بھی وہی گولڈ میڈلٹس کارکنانِ تحریک پاکستان تھے جو جدوجہد آزادی کے شاہسوار ہونے کے ناتے نہ صرف خود سر بلند کرکے چلتے ہیں بلکہ ان کی آئندہ نسلیں بھی ان کی عظمت کردار پر فخر کرتی ہیں۔
اس تقریب کے موقع پر ایوانِ کے اندر اور باہر میلے کا سماں تھا۔ کارکنانِ تحریک پاکستان اور ان کے اہل خانہ بہت بڑی تعداد میں آئے ہوئے تھے۔ نسل نو کے نمائندوں میں سے زیادہ تر نے پاکستانی پرچم کے رنگوں سے ہم آہنگ لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔ اپنے والدین کے ہمراہ آئے کم عمر بچوں نے جھنڈیاں اٹھائی ہوئی تھیں جنہیں وہ وقتاً فوقتاً والہانہ انداز میں لہرا رہے تھے۔ ایوان کے احاطے میں پنجاب پولیس بینڈ کا ایک چاق چوبند دستہ ملی نغموں کی دھنیں بکھیرنے کے ساتھ ساتھ کارکنان تحریک پاکستان اور دیگر معززین کی آمد پر خیر مقدمی دھنیں بجا رہا تھا۔ تقریب کی خاص بات صوبہ سندھ کے ضلع گھوٹکی میں واقع درگاہ عالیہ بھرچونڈی شریف کے سجادہ نشین حضرت پیر عبدالخالق القادری کی آمد تھی۔ ان کے مریدین اور عقیدت مند تو علی الصبح ہی صوبہ پنجاب کے مختلف علاقوں سے ایوان کے باہر واقع مادرِ ملت پارک میں پہنچ چکے تھے جن میں سے متعدد تو اندرون سندھ سے آئے تھے۔ ان کی موجودگی اور سندھی ٹوپیوں کی بہار نے تقریب کو چار چاند لگا دیے تھے۔
تحریک پاکستان کے مخلص کارکن‘ سابق صدر مملکت اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین محترم محمد رفیق تارڑ بطور خاص اس تقریب میں شریک ہوئے جو مذکورہ دونوں اداروں کے عہدے داران اور کارکنوں کے لئے یقینا بڑی حوصلہ افزاء ہے۔ ان کی آمد کے ساتھ ہی پرچم کشائی کی رسم ادا کی گئی۔ سبز ہلالی پرچم فضا میں بلٹد ہوتے ہی سرخ گلاب کی پتیوں کی برسات ہونے لگی جس نے شرکاء کو نہال کردیا۔ حضرت پیر عبدالخالق القادری نے اس موقع پر ملک و قوم کے استحکام اور خوش حالی کے لئے دعا کرائی۔پرچم کشائی کے بعد تمام شرکاء ایوان کی دوسری منزل پر واقع وائیں ہال پہنچے جہاں پہلے ہی جگہ کم پڑچکی تھی۔ ان کے آنے پر تل دھرنے کی بھی جگہ نہ رہی۔ چنانچہ ہنگامی طور پر اضافی نشستوں کا بندوبست کرنا پڑا تاہم جنہیں جگہ نہ مل سکی وہ بھی بڑے صبر و اطمینان سے تقریب کے اختتام تک کارروائی میں شریک رہے۔
محترم محمد رفیق تارڑ نے اپنے صدارتی خطاب میں حاضرین کو 72ویں یومِ آزادی کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے آزادی کی قدر و منزلت کا احساس دلایا اور تاکید کی کہ ہر پاکستانی اس مملکت خداداد کو اپنی ذات سے بڑھ کر اہمیت دے۔ دورانِ تقریب تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کی جانب سے جدوجہد آزادی کے آٹھ کارکنوں کا اعتراف خدمت کرتے ہوئے ٹرسٹ کے چیئرمین چیف جسٹس(ر) میاں محبوب احمد اور دیگر اکابرین نے انہیں گولڈ میڈل پہنائے اور اسناد پیش کیں جن میں فقیر محمد چوہدری‘ کرنل(ر)ادریس علی سید‘ علامہ حکیم محمد رمضان‘ میاں محمد رفیع اختر‘ عزیز احمد خواجہ‘ الحاج صوفی اللہ دتہ اور چوہدری عبدالحمید شامل ہیں۔ صوبہ سندھ میں قائداعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر تحریک پاکستان کو عروج پر پہنچانے میں بے مثال کردار ادا کرنے پر حضرت پیر عبدالرحمن صاحب آف بھرچونڈی شریف کا گولڈ میڈل ان کے پڑپوتے حضرت پیر عبدالخالق القادری نے وصول کیا۔ تقریب کی نظامت کے فرائض نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری محترم شاہد رشید نے ادا کئے اور اہل وطن کو یومِ آزادی کی مبارکباد دی۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ ادارہ قائداعظم محمدعلی جناح کے نظریات کا امین ہے اور اس امانت کو نسل نو تک پہنچانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اُنہوں نے آستانۂ عالیہ بھرچونڈی شریف‘ گھوٹکی‘ سندھ کے سجادہ نشین حضرت پیر عبدالخالق القادری کی تشریف آوری پر ان کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا جنہوں نے اپنے مریدین سمیت اس تقریب کو رونق بخشی۔
تقریب سے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد‘ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے چیئرمین چیف جسٹس(ر)میاں محبوب احمد‘ پیر عبدالخالق القادری‘ آستانۂ عالیہ علی پور سیداں کے سجادہ نشین پیر منور حسین شاہ جماعتی اور مفکر پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال کے پوتے بیرسٹر ولید اقبال نے خطاب کیا۔ اس موقع پر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے بورڈ آف گورنرز کے رکن جسٹس(ر)خلیل الرحمن خان‘ چیف کوآرڈی نیٹر میاں فاروق الطاف‘ جسٹس(ر)آفتاب فرخ‘ بیگم مہناز رفیع‘ افتخار علی ملک‘ کرنل(ر)سلیم ملک‘ میاں محمد ابراہیم طاہر‘ محمد ارشد چوہدری‘ چوہدری ظفر اللہ‘ پروفیسر ڈاکٹر پروین خان‘ بیگم صفیہ اسحق‘ جاوید اقبال بٹ(نظریۂ پاکستان فورم مدینہ منورہ )‘ مرزا محمد صادق جرال‘ سید احسان احمد گیلانی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات اور طلبا و طالبات کی کثیر تعداد موجود تھی۔ تقریب کے دوران 30اکتوبر 1947ء کو پنجاب یونیورسٹی کے گرائونڈ میں بانیٔ پاکستان کے تاریخی خطاب کی آڈیو ریکارڈنگ بھی سنائی گئی جسے سن کر حاضرین نے اپنے عظیم راہنما کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024