تھیلیسیمیا کے بچوں کے ساتھ اُم نصرت فائونڈیشن کے زیر اہتمام یوم آزادی منایا گیا…بہت سے بچے تھے اور عورتیں بھی تھیں جو بچوں کی مائیں تھیں…اُم نصرت فائونڈیشن کے سب سے بڑے کمرے میں یہ تقریب تھی۔ کمرہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ بچوں کی آنکھوں میں یوم آزادی مبارک لکھا ہوا تھا۔
اب اُم نصرت فائونڈیشن کے لئے ایک بڑے دفتر کی ضرورت ہے۔ بالخصوص بچوں کے لئے جوتھیلیسیمیا کے مریض بچے ہیں اور انہیں باری باری ہرروز تازہ خون لگایا جاتا ہے۔ ان کے لئے یہ تقریب بہت اہم تھی۔ یوم آزادی بھی یوم عہد ہے۔ بچے خاص طور پر تیار ہو کر آئے تھے۔
عمیر ایک اچھے دوست ایک اچھے شوہر کی طرح سرگرم تھا۔ البتہ مائرہ خاموش اور سنجیدہ تھی۔ لیڈیز لائنز کلب کی صدر عظمیٰ ، سیکرٹری ڈاکٹر ثوبیہ، اکثر اُم نصرت فائونڈیشن میں ہوتی ہیں۔ میں نے اکثر سعدیہ بی بی کو بھی یہاں دیکھا۔ وہ عامر خان کی اہلیہ ہیں۔ امارہ عمیران کی بہن ہیں وہ بہت خوش مزاج ہیں۔ ان کے شوہر عرفان بھی یوم آزادی کی تقریب میں تھے۔ ان کا بیٹا ازلان بہت چھوٹا ہے مگر پوری طرح تقریب میں شریک تھا۔ وہ میرا دوست بن گیا ہے۔
دوستی جوکسی کوشش کے بغیر ہو جائے بڑی پکی ہوتی ہے۔ یہاں سب لوگ ایک گھر کے افراد کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ سب ایک دوسرے کے تقریباً رشتہ دار ہیں۔ آج کے یوم آزادی میں بھی ایک گھریلو ماحول تھا بڑا مزا آیا میری بیوی رفعت خانم نے بھی بہت انجوائے کیا۔
ایسی چھوٹی بڑی محفلیں سارے ملک میں ہوئیں۔ کسی جگہ کراچی میں بلاول بھٹو زرداری، آصفہ اور بختاور نے قومی پرچم لہرایا۔ آصف زرداری بھی وہاں موجود تھے۔
کسی ٹی وی چینل پر دکھایا گیا کہ ڈیرہ بگٹی بلوچستان میں بھی یوم آزادی منایا۔ ایک بڑا جلوس لوگوں کا تھا جو پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔
اُم نصرت فائونڈیشن کے زیر اہتمام تقریب یوم آزادی ختم ہوئی۔ پاکستان کے پرچم تقسیم کئے گئے اور یادگار کے طور پر ایک پودا بھی لگایا گیا۔ جب یہ درخت بنے گا تو اس کی چھائوں میں بیٹھنے والے ہرروز یوم آزادی منائیں گے۔
تقریب کے بعد ہم مائرہ اورعمیر کے ساتھ اُم نصرت فائونڈیشن کے صدر دفتر میں آ کے بیٹھ گئے۔ یہاں بھی ایک تقریب ہو گئی…بہت مزا آیا۔ یہاں کوئی صدر نہ تھا اور مجھے مائرہ کی کرسی پر بٹھا دیا گیا…میں خود بخود صدر ہو گیا۔ بے اختیار ہونے کے باوجود مجھے صدر ممنون حسین بہت پسند ہیں انہوں نے مرکزی تقریب کے صدر کے طور پر بہت زبردست خطاب کیا۔ اُن کا یہ جملہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے ’پاکستان کا مقصد تھا کہ انسانوں کی غلامی سے ا نسان نجات پائیں، میری نظر میں 2018ء کے یوم آزادی کے لئے یہ سب سے بڑا جملہ ہے۔ آزادی کے لئے شہدا کو بھی یاد کیا گیا انہیں سلامی دی گئی اور ان کے لئے دعا کی گئی۔
نجانے کیوں بھارت میں اس طرح یوم آزادی نہیں منایا جاتا ، جس طرح پاکستان میں منایا جاتا ہے۔ ہم دوہری خوشی کے مستحق ٹھہرے۔ ہم نے انگریز کی غلامی سے نجات پائی۔ ہندوئوں کو شکست دی اور ایک الگ ملک بھی حاصل کیا۔
میرے خیال میں مشرقی پاکستان والے بنگلہ دیشیوں کو بھی 14 ۔ اگست کا یوم آزادی منانا چاہئے۔ مشرقی پاکستان بھی آزادی کے نتیجے میں حاصل ہوا تھا ، کیا ہوا کہ اُس کا نام بنگلہ دیش رکھ دیا گیا۔ وہ اب بھی بنگالی مسلمانوں کا ملک ہے۔ پوری دنیا میں 14۔ اگست کو یوم آزادی کی گونج بلند ہوتی ہے۔ ہندوئوں کو آزادی کا لطف نہیں آیا کہ آزادی تو ملی مگر مسلمانوں نے برصغیر ہند میں اپنا الگ ملک بھی بنا لیا۔ہندوئوں کے لئے پاکستان کی بھارت سے آزادی بھی ایک سوال ہے۔ اس سوال کا جواب بھی ہندوئوں کو مل جائے گا۔ مجھے و ہ دوست اچھا لگا جو 14 ۔ اگست 1947ء کو پیدا ہوا تھا۔ اب وہ یوم آزادی مناتا ہے اور اپنی سالگرہ بھی۔ برادرم محسن نقوی بھی یوم آزادی اور اپنے ادارے کی سالگرہ اکٹھی مناتا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024