امریکی عزائم کے پیش نظر اسلامی بلاک کی تشکیل وقت کی ضرورت ہے
نگران وزیر دفاع کا ہماری سلامتی کیخلاف بھار ت سے مل کر امریکی کارروائی کا عندیہ اور ترک صدر کے خدشات
نگران وزیر دفاع خالد نعیم لودھی نے کہا ہے کہ امریکہ نے ہمیں مغربی بلاک سے باہر دھکیل دیا ہے اور اس نے ہم پر واضح کردیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ نہیں چلنا۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں یوم آزادی کی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان کے خلاف چھ اقدامات کر چکا ہے۔ ہم نے جلد فیصلہ نہ کیا تو امریکہ بھارت کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف کارروائی کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان سے افغان طالبان کو میز پر لانے کی توقع کرتا ہے۔ وہ بھارت کے ساتھ مل کر ہمیں سبق سکھانے کی تیاری کر رہا ہے۔ وہ ابھی تک ہمارا فضائی اور زمینی راستہ استعمال کر رہا ہے۔ ہمیں اب امریکہ کے ساتھ تعلقات کی پالیسی کے حوالے سے جلد فیصلہ کرنا ہوگا۔ دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردوان بھی امریکہ کے خلاف پھٹ پڑے اور باور کرایا کہ امریکہ اپنے نیٹو اتحادی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا چاہتا ہے۔ گزشتہ روز انقرہ میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نیٹو میں اکٹھے ہیں مگر امریکہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے اس سٹرٹیجک پارٹنر کی پیٹھ میں چھرا گھونپے۔ کیا یہ بات ہمارے لئے قابل قبول ہے؟ اردوان کے بقول ترکی کی معاشی ناکہ بندی کی جا رہی ہے اور کرنسی کے حوالے سے اقدامات ان کے ملک پر حملہ ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ زیر حراست پادری اینڈیو کیرہائی کے معاملہ پر امریکہ اور ترکی میں کشیدگی بڑھ رہی ہے اور امریکی اقدامات کے باعث ترک کرنسی ’’لیرا‘‘ کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ پاکستان نے اس حوالے سے ترکی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پابندیاں عائد کرنا کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ اس سلسلہ میں دفتر خارجہ پاکستان کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا کہ کوئی ایسا اقدام بہر صورت نہیں اٹھایا جانا چاہئے جس کے نتیجہ میںامن و سلامتی کے استحکام کو نقصان پہنچے اور درپیش مسئلہ پہلے سے بھی زیادہ سنجیدہ ہو جائے۔ بیان میں باور کر ایا گیا ہے کہ ترکی نہ صرف عالمی برادری کا اہم رکن ہے بلکہ علاقائی اور عالمی امن کے استحکام میں بھی اس کا اہم کردار ہے۔ پاکستان کی حکومت اور عوام ترکی کی حکومت اور عوام کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
یہ امرواقع ہے کہ ہم نے قیام پاکستان سے اب تک امریکہ کے حلیف کی حیثیت سے اس کے ساتھ وفا ہی نبھائی ہے اور اپنے مفادات و سلامتی کی قربانی دے کر ہمیشہ امریکی مفادات کا تحفظ و دفاع کیا ہے مگر اس کے صلے میں امریکہ کی جانب سے ہمیں کبھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا بلکہ امریکہ ہماری سلامتی کے در پے ہی نظر آتا رہا ہے۔ اس طرح ہم نے امریکی حلیف اور اتحادی کی حیثیت سے علاقائی اور عالمی سطح پر فائدے کم اور نقصانات زیادہ اٹھائے ہیں۔ امریکی نائن الیون سے پہلے تک بھارت امریکہ کے حوالے سے سامراج دشمنی کو اجاگر کرتا رہا۔جس نے سردجنگ کے دوران بھی سوویت یونین کے کندھے سے کندھا ملا کر امریکہ کو شکست سے دوچار کرنے کی اپنی سی کوشش کی مگر امریکہ اس جنگ میں پاکستان کے ذریعے افغان مجاہدین کی معاونت حاصل کرکے سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس سے پہلے بھی امریکہ پاکستان کی معاونت سے ہی کئی اہم عالمی محاذوں پر کامیابی حاصل کرتا رہا ہے۔ چین کے ساتھ کشیدگی کے بدترین دور میں پاکستان نے ہی امریکہ چین روابط کی بحالی ممکن بنائی تھی جس کیلئے پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے شٹل ڈپلومیسی کے ذریعے اہم کردار ادا کیا تھا جبکہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں نیٹو فورسز کے ذریعے شروع کی گئی دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں بھی پاکستان نے ہی فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت سے امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرکے افغانستان کا تورابورا بنانے میں معاونت کی اور نیٹو فورسز کا افغان دھرتی پر 14, 12 سال تک موجود رہنا ممکن بنایا ورنہ افغان باشندے اپنی سرزمین کو کب کا نیٹو فورسز کے قبرستان میں تبدیل کرچکے ہوتے۔ پاکستان نے اس جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کے باعث ہی ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصانات اٹھائے ہیں جبکہ دہشت گردی کے ناسور نے آج بھی ہمیں اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
امریکہ نے اسکے برعکس نہ صرف ہماری بے بہا قربانیوں کی قدر نہیں کی بلکہ ہمارے کردار کو مشکوک بھی گردانتا رہا اور ہماری سرزمین پر ڈرون حملے کرکے ہماری آزادی اور خودمختاری کو بھی چیلنج کرتا رہا۔ صرف یہی نہیں‘ امریکی فورسز کی جانب سے پاکستان کے اندر زمینی کارروائیاں بھی کی جاتی رہیں۔ سلالہ چیک پوسٹوں پر امریکن گن شپ ہیلی کاپٹرز کا حملہ اور پھر اسامہ بن لادن کیخلاف کیا گیا ایبٹ آباد اپریشن پاکستان کی خودمختاری کو براہ راست چیلنج تھا۔ اسکے باوجود پاکستان نے امریکہ کیلئے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ترک نہیں کیا اور نیٹو فورسز کے افغانستان سے واپس جانے کے بعد بھی پاکستان نے امریکہ کیلئے لاجسٹک سپورٹ برقرار رکھی ہے مگر اسکے عوض امریکہ کی جانب سے ہمیں ڈومور کے تقاضوں‘ سنگین نتائج کی دھمکیوں‘ فوجی اور سول امداد روکنے کے پیغامات و اقدامات اور اسے عالمی اقتصادی پابندیوں کی زد میں لانے کے اعلانات کے سوا اور کچھ نہیں ملا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کو امریکی فوجی و سول گرانٹ اسکے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار میں اٹھائے گئے نقصانات کی تلافی کیلئے کولیشن سپورٹ فنڈ میں سے ادا کی جاتی ہے مگر اسے ہمارے لئے خیرات کے ٹکڑے بنا دیا گیا اور اس میں کٹوتیاں کرکے ہمیں سسکا سسکا کر یہ گرانٹ دی جانے لگی اور جب کبھی پاکستان کو اپنی معیشت کو سہارا دینے کیلئے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی مجبوری لاحق ہوتی تو امریکی دبائو کے تحت آئی ایم ایف کی جانب سے یہ قرضے پاکستان کی خودمختاری کو بٹہ لگانے والی شرائط کے ساتھ باندھ کر فراہم کئے جاتے رہے۔ امریکہ کی موجودہ ٹرمپ انتظامیہ نے تو پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کی بے توقیری کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور صدر ٹرمپ کے علاوہ امریکی نائب صدر، وزیر خارجہ و دفاع اور امریکی قومی سلامتی کے مشیر تک پاکستان کے ساتھ دھمکی آمیز لہجے میں بات کرتے نظر آتے رہے ہیں۔ اس تناظر میں امریکی رویئے کا جائزہ لیتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی کہ امریکہ کو محض اپنے مفادات سے غرض ہے جن کے تحت وہ اپنے کسی بھی قابل اعتماد دوست کو کسی بھی وقت ٹھینگا دکھا سکتا ہے۔ پاکستان کیلئے دو ہفتے قبل بھی امریکہ نے مشکل صورت حال پیدا کی جب امریکی نائب وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کے ممکنہ بیل آئوٹ پیکیج پر کٹ حجتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بیان داغ دیا کہ امریکہ سے ملنے والی کوئی امداد پاکستان کو چینی قرضے کی ادائیگی کیلئے استعمال نہیں کرنی چاہئے۔ انہوں نے ساتھ ہی آئی ایم ایف کیلئے بھی یہ انتباہ جاری کر دیا تھا کہ امریکہ اس کی جانب سے پاکستان کو دیئے جانے والے قرضے کی مانیٹرنگ کر رہا ہے اس لئے وہ نتائج کا خود ذمہ دار ہوگا۔ امریکی نائب وزیر خارجہ کے اس بیان کا اس وقت نگران وزیر خارجہ عبداللہ حسین ہارون نے فوری نوٹس لے کر باور کر ایا تھا کہ امریکہ پاکستان کا گلا دبا رہا ہے۔ انہوں نے قیام پاکستان سے اب تک ہم سے صرف ڈومور کے تقاضے ہی کئے ہیں اور اس کے برعکس وہ بھارت کو 9عشاریہ 7،ارب ڈالر کے جدید ہتھیار فراہم کر رہا ہے اور جان بوجھ کر سی پیک کے خلاف محاذ بنا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں دو طرفہ تعلقات کیسے بہتر ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے امریکی امداد کو ٹھوکر مارنے کی بات کی تو اب نگران وزیر دفاع امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے جلد فیصلے کے متقاضی ہیں اور یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ امریکہ بھارت کے ساتھ مل کر ہمیں سبق سکھانے کی تیاری کر رہا ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ امریکہ اس خطے میں محض اپنی بالادستی چاہتا ہے جس کے لئے وہ خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا بھی توڑ کرنا چاہتا ہے اور اس حوالے سے اسے ہمارے ساتھ سی پیک میں چین کی معاونت بھی ایک آنکھ نہیں بھا رہی۔ وہ اسی بنیاد پر سی پیک پر تحفظات کا اظہار کرکے چین کے ساتھ بھی دھمکی آمیز لہجہ اختیار کر چکا ہے جس کا چین نے مسکت جواب دیا تھا۔ اگر سی پیک کے بارے میں بیک وقت امریکہ اور بھارت کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے تو اس سے بادی النظرمیں بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف کارروائی کی امریکی منصوبہ بندی کا ہی عندیہ ملتا ہے۔ امریکہ در حقیقت اس خطے میں چین کو غالب ہونے دینا چاہتا ہے نہ مسلم دنیا کا کوئی بلاک تشکیل پاتادیکھنا چاہتا ہے۔ اسے اپنے اسلحہ کی فروخت سے غرض ہے جس کیلئے وہ عرب دنیا اور خلیجی ریاستوں میں بھی اختلافات کی خلیج بڑھا رہا ہے، ایران اور سعودی عرب میں بھی کشیدگی بڑھانے کے حربے اختیار کر رہا ہے جبکہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا احیاء ہوتا دیکھ کر وہ ترکی کو بھی مالی بحرانوں سے دوچار کرنے کی حکمت عملی طے کئے بیٹھا ہے ۔ اس حوالے سے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی کمر ٹھونک کر وہ اس خطے کو مسلسل عدم استحکام سے دوچار رکھنا چاہتا ہے۔
یہ صورتحال بالخصوص مسلم دنیا کیلئے لمحہ فکریہ ہونی چاہئے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ درحقیقت مسلم دنیا کے اتحاد و یکجہتی کی نوبت نہ آنے دینے کی پالیسی پر ہی کاربند ہے۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ مسلم دنیا باہم یکجہت ہو جائے تو ہمیں اپنی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے آئی ایم ایف سمیت کسی کے بھی در پر کشکول اٹھا کر نہ جانا پڑے جبکہ مسلم دنیا ایک دوسرے کے وسائل سے استفادہ کرکے خود کو ترقی یافتہ معاشرے کے قالب میں ڈھال سکتی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اگر اپنی انتہا پسندانہ پالیسیوں کے باعث ہمیں خود ہی مسلم دنیا کے اتحاد کی جانب دھکیل رہی ہے اور ہماری خارجہ پالیسی کا رخ چین کی جانب موڑنے کا خود ہی اہتمام کر رہی ہے تو ہمارے آنے والے حکمرانوں کو اس امریکی رویے کا جائزہ لے کر قومی خارجہ پالیسی ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں سے ضرو رہم آہنگ کر دینی چاہئے۔ یہ ہمارے قومی تشخص کا ہی نہیں ہماری بقاء کا بھی سوال ہے۔