بدھ‘ 3؍ ذی الحج 1439 ھ ‘ 15؍ اگست 2018ء
جنوبی پنجاب کا دارالحکومت ڈیرہ غازی خان ہوگا: زرتاج گل
پنجابی کی ایک کہاوت کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ ’’گائوں ابھی آباد نہیں ہوا تھا‘ چور اچکے پہلے آگئے۔‘‘ سو جناب ابھی جنوبی پنجاب کے تن مُردہ میں روح پڑی بھی نہیں کہ پی ٹی آئی کی ایم این اے زرتاج گل کو اس کے دارالحکومت کی فکر پڑ گئی ہے۔ ان کی نگاہِ انتخاب کی داد دیجئے‘ انہیں اور کوئی علاقہ اس قابل نظر نہیں آیا جو صوبہ جنوبی کا دارالحکومت بنے۔ نظر پڑی بھی تو ڈیرہ غازی خان پڑی۔ ملتان جیسا شہر جو کسی زمانے میں شہر انتخاب تھا‘ اسے پنجاب کے مرکزی شہر یا دارالحکومت کا اعزاز بھی صدیوں حاصل رہا۔ یہ ملتانی سوہن حلوہ کی طرح میٹھا شہر بھی محترمہ کو ذرا نہیں جچا۔ اسی طرح بہاولپور بھی شہر لاجواب تھا جہاں نواب عباسی خاندان اس کی دیکھ بھال جی جان سے کرتا تھا۔ وہ بھی محترمہ کو پسند نہیں آیا۔ لگتا ہے انہیں ڈیرہ غازی خان سے خاص انسیت ہے۔ شہر تو سارے اس پاک سرزمین کے لاجواب ہیں مگر ڈیرہ غازی خان میں ایسے نجانے کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں جو صرف محترمہ زرتاج گل کو ہی نظر آتے ہیں۔ فی الحال تو جنوبی صوبہ پنجاب کا معاملہ ’’نہ نو من تیل ہوگا‘ نہ رادھا ناچے گی‘‘ والا لگ رہا ہے۔ دوتہائی اکثریت پی ٹی آئی کہاںسے لائے گی۔ مخالف جماعتیں کہاں حمایت کرنے کی حماقت کریںگی کیونکہ اس طرح جنوبی صوبے کے قیام کا سہرا پی ٹی آئی کے سر بندھے گی۔ یہ اعزاز کوئی بھی اسے دینے کو تیارنہیں ہوگا۔ ویسے بھی جو مزہ پورے پنجاب پر حکومت کرنے کا ہے‘ وہ بھلا جنوبی پنجاب پر کرنے میں کہاں۔ اسی لئے تو تخت لاہور ایک استعارہ بھی ہے۔ محاورہ بھی۔
٭…٭…٭…٭
قومی اسمبلی کے اجلاس میں عامر لیاقت عمران خان کے قدموں میں بیٹھ گئے
بطور اینکرپرسن بھی موصوف کا یہی وطیرہ رہا ہے۔ وہ مذہبی پروگراموں میں نہایت انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے علماء کے قدموں میں بیٹھتے اور پھر ان کی ٹانگیں کھینچتے انہیں آپس میں لڑادیتے۔ ایم کیو ایم میں عامر لیاقت کو زیادہ دیر رہنے کا موقع نہیں ملا۔اب خدا خیر کرے۔ ہماری تمام دعائیں خان صاحب کے ساتھ ہیں کیونکہ وہ سادہ منش انسان ہیں جبکہ عامر صاحب نہایت چرب زبان۔ جو اسمبلی میںایسی ویسی کوئی بھی حرکت کر سکتے ہیں۔وہ کہیں بھی…
قدموں میں تیرے جینا مرنا
اب دور یہاں سے جانا کیا
کا نغمہ گا سکتے ہیں۔ دل لبھانے کے اور بھی طریقے ہوتے ہیں۔ جیسے سابق وزیراعظم کے متعلق کہا جاتا ہے ان کو اپنے اردگرد درباری اور لطائف سنانے والوں کا مجمع پسند تھا۔ اب کیا خان صاحب کو قدموں میں بیٹھنے والے زیادہ پسند ہیں۔ اس طرح تو جو لوگ میاں نوازشریف کو مغل اعظم کہتے تھے‘ اب وہ عمران خان کو صاحب عالم کہیں گے یا اشوک اعظم۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ ہے۔ جب بھی کوئی حکمران بنتا ہے‘ اس کے اردگرد ایسے ہی نو رتن جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ تو اکبر دی گریٹ کی ذہانت تھی کہ اس نے اپنے نو رتنوں کو ان کی قابلیت کے مطابق جگہ دی اور ان کی بدولت وہ دبدبے سے حکومت کرتا رہا۔ یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے۔ یہ جدید نو رتن اچھے بھلے حکمرانوں کا دھڑن تختہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
غیرملکی خاتون کا قومی پرچم لپیٹ کر پی آئی اے
کے طیارے کے اندر اور باہر رقص
یوم آزادی منانے کی اجازت سب کو ہے۔ اس دن کی خوشی بھی سب کو ہوتی ہے مگر احتیاط بھی ضروری ہے کہ کوئی ایسا کام سرزد نہ ہو جس پر بعد میں افسوس ہو۔ جوش میں ہوش قائم رکھنا بھی بڑی کامیابی ہے۔ اب یوم آزادی کے موقع پر غیر ملکی خاتون نے جس طرح اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ انہوں نے قومی پرچم کو رقص کرتے ہوئے جس طرح جسم کے گرد لپیٹا‘ وہ قابل اعتراض ہی ہے۔ گرچہ خاتون نے پہلے ہی معذرت کر لی تھی کہ شاید اس طرح بہت سے لوگوں کی دل آزاری ہوگی۔ تو اس کا مطلب ہے انہیں بھی غلطی کا احساس تھا تو پھر ایسا کرنا ہی نہیں چاہئے تھا۔ قومی پرچم کی حرمت اور عزت کا اپنا تقاضا ہے کہ اس کے احترام میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔ اس خاتون کے جذبات اپنی جگہ مگر احتیاط اپنی جگہ۔ اب یہ بھی عجیب بات ہے کہ انہوں نے پرچم کے ساتھ رقص کرتے ہوئے یہ ویڈیو پی آئی اے کے طیارے کے اندر اور باہر بنائی۔ اس پر تو کافی لے دے ہو رہی ہے اور معاملہ انکوائری تک چلا گیا ہے۔ گویا یہ معاملہ بھی پی آئی اے کے گلے پڑ سکتا ہے۔ غیر ممالک میں پرچم کی اتنی توقیر شاید نہیں ہوتی مگر پاکستان میں اس سبز رنگ کے پرچم کی اہمیت بہت ہے کیونکہ اس پرچم کی خاطر لاکھوں عورتوں نے اپنے سر کی چادروں کی قربانی دی ہے اس لئے احتیاط ضروری ہے۔
٭…٭…٭…٭
بلاول ہائوس کی دیواریں گرا دوں گا: عمران اسماعیل‘ آپ وائسرائے نہیں بن رہے: چانڈیو
سندھ کے نئے نامزد گورنر عمران اسماعیل نے منصب سنبھالنے سے قبل ہی کھڑاک شروع کر دیا جس پر سندھ پی پی پی کے مولا بخش چانڈیو نے انہیں یاد دلایا ہے کہ وہ وائسرائے نہیں‘ گورنر بن رہے ہیں۔ عمران اسماعیل کا کہنا ہے کہ بلاول ہائوس کی دیواروں کی وجہ سے سڑک تنگ ہو گئی ہے اور ٹریفک میں خلل پڑ رہا ہے۔ اس لئے قانون کے مطابق انہیں ہٹا دوں گا۔ چانڈیو صاحب نے جواب آں غزل کے طورپر کہا ہے کہ ان دیواروں کی بنیادوں میں سیاسی جدوجہد شامل ہے۔ انہیں گرانے نہیں دیں گے۔ اب دیکھنا ہے ان دو بڑوں کے درمیان ہونے والے ملاکھڑے میں قانون کونسی راہ نکالتا ہے۔ نامزد گورنر صاحب جنون سے کام لے رہے ہیں اور چانڈیو صاحب بھی جیالاپن دکھا رہے ہیں۔ اس طرح تو کام مشکل ہو جائے گا۔ ابھی تو آگے انہوں نے مل کر چلنا ہے۔ اگر ایسے ہی حالات رہے تو مشکل ہوگی۔ قومی اسمبلی میں خان صاحب زرداری اور بلاول سے ہاتھ ملا رہے ہیں، تصویریں کھنچوا رہے ہیں، مسکرا رہے ہیں تو سندھ میں یہ گرماگرمی کیوں۔ گرمی تو پہلے ہی بہت ہے۔ اس لئے ایسی سرگرمیوں سے پرہیز ضروری ہے جس میں کسی کی دیواریں گریں یا پھٹے اکھڑیں۔ ہاں البتہ غیر قانونی کام کی اجازت کسی کو نہیں ہونی چاہئے…
٭…٭…٭…٭