وطن عزیز ہماری اپنی غلط پالیسیوں کے باعث ان دنوں مالی طور پر بھاری بھرکم بوجھ تلے دبا کراہ رہا ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے پاکستان ایسا قدرتی وسائل سے مالا مال ملک محض سانس لینے اور دیوالیہ پن سے بچنے کی خاطر چند ارب ڈالرکی بھیک مانگ رہا ہے ۔
ہم اب عالمی فنانشل مافیا، جو آئی ایم ایف اور عالمی بنک کے نام سے جانا جاتا ہے ، کے شکنجے میں بُری طرح جکڑے جا چکے ہیں ۔ اس لئے ضرورت ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ اس مافیا کا طریق واردات کیا ہے۔ آئی ایم ایف کا قیام 27 دسمبر 1945کو عمل میں آیا۔ اس کا آئیڈیا ایک امریکی ہیری ڈیکسٹر وائٹ اور ایک انگریز لارڈ جان مے نارڈکینس کے زرخیز ذہنوں کی مشترکہ پیداوار تھا ۔ ہیری ڈیکسٹر وائٹ ، امریکی محکمہ خزانہ کا چیف اکنامسٹ اور لارڈ جان مے کا تعلق بریٹن ووڈ کانفرنس (سرکاری نام : یو این مانیٹری اینڈ فنانشنل کانفرنس ) سے تھا۔ دونوں کو آئی ایم ایف کے منجملہ دیگر مقاصد کے عالمی مالیاتی تعاون کو پروان چڑھانا ، فنانشل استحکام کو مضبوط بنانا ، بین الاقوامی تجارت کو باضابطہ بنانا اور روزگار کے مواقع کو فروغ دینا وغیرہ وغیرہ بھی شامل تھا۔
آئی ایم ایف کے رکن ممالک کو منجملہ دیگر حقوق کے تمام رکن ممالک کی اقتصادی پالیسیوں کے بارے میں معلومات تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ یوں انہیں دوسرے ارکان کی اقتصادی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے با اثر رکن ملکوں، جن میں امریکہ سب سے زیادہ با اثر اور طاقتور ہے، کا ہاتھ کسی دوسری تنظیم کے مقابلے میں عالمی، بشمول پاکستان کی معیشت کی نبض پر کہنازیادہ بہتر ہوگا۔ اس طرح آئی ایم ایف کو یہ خبر رہتی ہے کہ کون کون سے ممالک عالمی استحکام کے لئے خطرہ اور اقتصادی لحاظ سے دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔ آئی ایم ایف اپنے رکن ملکوں کو بظاہر ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے اپنی معیشتوں کو مستحکم کرنے اور پیداواری عمل کو برقرار رکھنے کے لئے قرضے فراہم کرتا ہے لیکن ان قرضوں کے ساتھ بہت کڑی شرائط وابستہ ہوتی ہیں۔ ان شرائط میں کرنسی کی قدر میں کمی، ریاستی اداروں کی نجکاری اور ٹیکسوں کی شرح کا تعین وغیرہ شامل ہیں، یوں قرض لینے والے ملک کی حیثیت غلام کی سی ہو جاتی ہے۔ ایک معروف ناقد طیطوس الیگزینڈر آئی ایم ایف کو ’’عالمی عصبیت پرست ‘‘ قرار دیتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے میں رائے شماری کا حق صرف 20 ملکوں کو ہے ،امریکہ کا پہلا اور بھارت کا 8 واں نمبر ہے ۔ رائے شماری کا حق اس رقم کے حساب سے ملتا ہے جو فنڈ میں چندے کے طور پر دی جاتی ہے۔ یہ ’’کوٹا سائز کنٹری بیوشن‘‘ عالمی معیشت میں متعلقہ ملک کے اقتصادی مقام اور اس کے حق رائے شماری کی حیثیت متعین کرتی ہے ۔ آئی ایم ایف کی فیصلہ سازی کے عمل کے ناقدین کا دعویٰ ہے کہ بیشتر حالات میں آئی ایم ایف کے فیصلوں پر سیاسی اور اقتصادی عوامل بھی اثر انداز ہوتے ہیں ۔اس پس منظر میں پاکستان کو یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ آئی ایم ایف کے پاکستان کے بارے میں بیشتر فیصلے امریکہ، بھارت گٹھ جوڑ کانتیجہ ہوتے ہیں ۔امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کی قوت کا اندازہ پاکستان کو فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)کی گرے لسٹ میں ڈالے جانے سے لگایا جا سکتا ہے۔
بنیادی طورپر تیسری دنیا کو معیشت کی مدد کا جھانسہ دے کر روایتی جنگ کوغیر محسوس طور پر اقتصادی جنگ میں تبدیل کرنا اور اسے قابو میں لانا تھا۔ ہم آئی ایم ایف ا ور دوسری قرض دہندگان کے ہاتھوں نقصان بھگتتے چلے آ رہے ہیں مگر پھر بھی ہر آنے والی حکومت نے آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پسارا لیکن اپنے عوام کو کبھی نہیں بتایا کہ ا س کی کیا قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ بہرحال اس کا خمیازہ عام آدمی کو بھگتنا پڑا۔
غیر ملکی قرضوں کا حجم 99 ارب ڈالر ہے اور تقریباً 27 ارب مقامی قرضے ہیں۔ سٹیل مل کا سالانہ خسارہ 200 ارب، ریلوے کا 30 ارب اور پی آئی اے کا 40 ارب روپے ہے۔ یہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان کو بیل آئوٹ کے لئے فوری طور پر بارہ ارب ڈالر مطلوب ہیں یہ رقم بیل آئوٹ کی اس رقم سے دگنی (5.3 ارب ڈالر) ہے جو 2013ء میں ادائیگیوں کے توازن اور گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کی خاطر لی گئی۔ 99 ارب ڈالر کے بڑھتے ہوئے قرضوں کی کیفیت کچھ اس طرح ہے:۔
آئی ایم ایف ۔ 6 ارب 60 کروڑ ڈالر
عالمی بنک اور د وسرے کثیر الملکی بنک ۔ 13 ارب 38 کروڑ ڈالر
دوسرے ملکوں سے ۔ 5 ارب 4 کروڑ 80 لاکھ ڈالر
کمرشل بنکوں سے ۔ 6 ارب 70 کروڑ ڈالر
ڈیٹ سروسنگ ۔ 7 ارب 73 کروڑ 90 لاکھ ڈالر
یو ایس ایڈ۔ 33 ارب 40 کروڑ ڈالر
سعودی عرب (اسلامی ترقیاتی بنک ) 2 ارب 42 کروڑ ڈالر۔ پیرس کلب فرانس ۔ 62 کروڑ 50 لاکھ یورو۔ جاپان 192 ارب ین(ایک ارب 86 کروڑ 70 لاکھ ڈالر)، چین ۔ 19 ارب ڈالر مع ایک ارب 60 کروڑ ڈالر تازہ قرضہ ۔ یورو بانڈز اور حکومتی بانڈز ساڑھے تین ارب ڈالر ۔اس کے علاوہ ہم نے سی پیک کے ضمن میں چین کو 62 ارب ڈالر واپس کرنا ہیں۔
آئی ایم ایف کے جال میں پھنسنے ، ملکوں میں تنہا پاکستان ہی نہیں اور بھی ہیں، مثلاً بنگلہ دیش 9 ارب 87 کروڑ ڈالر (2012) اور سری لنکا ڈیڑھ ارب ڈالر ۔
خدشہ یہ ہے کہ پاکستان کا پہلے کے برعکس اس وقت بڑھتا ہوابحران طویل ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف اور دوسرے قرض دہندگان اس صورتحال کا استحصال کر سکتے ہیں۔ وہ حکومت پر دبائو ڈالیں گے کہ پاک چین اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کا حجم مختصر کیا جائے۔ کیونکہ امریکہ کو آئی ایم ایف کے بڑے شیئر ہولڈر کی حیثیت سے سی پیک منصوبے بارے بعض سنگین نوعیت کے تحفظات ہیں۔ چنانچہ قرضے کے اجراء میں تاخیر کے لئے سخت شرائط عائد کر کے امریکہ پاکستان کے لئے بعض مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔
حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کا قرضہ یا امریکی ٹیکس ڈالر کو چینی بانڈ ہولڈرز کی ادائیگی کے لئے استعمال نہ کرے۔ پومپیو نے 30 جولائی کو ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں کہا تھا کہ امریکہ نئے متوقع وزیراعظم عمران خاں کی حکومت پاکستان سے رابطوں کا خواہاں ہے، لیکن اس میں کوئی منطق نہیں کہ پاکستان کو چین کے قرضوں کی ادائیگی کے ئے بیل آئوٹ دی جائے۔ ’’یہ غلطی نہ کرنا ہم نگاہ رکھیں گے کہ آئی ایم ایف کیا کرتا ہے،، یوں امریکہ اور چین کے درمیان اقتصادی جنگ نے پاکستان کو مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ لیکن آئیے پہلے ہم اپنے گھر کو درست کر کے اپنے مفادات کو خود دیکھیں۔
پاکستان قرضے کے حصول کے لئے آئی ایم ایف سے رابطہ کر سکتا ہے اگرچہ آئی ایم ایف کو تجاویز دی جا رہی ہیں کہ وہ پاکستان کو قرضہ دینے کے لئے کڑی شرائط عائد کرے۔ مثلاً روپے کی قیمت میں کمی، ٹیکسوں میں اضافہ، تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھانا اور دفاع پر اخراجات میں کمی۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے اور پچھلے قرضوں کی ادائیگی کے باعث، کمی ہو رہی ہے۔ افراط زر کی شرح جو جون میں 5.21 تھی جولائی میں 5.83 تک جا پہنچی ہے۔
اس مالی بدحالی کے پیش نظر، میں اپنے وزیراعظم کے علم میں لانا چاہوں گا کہ پاکستان کے عوام کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ ان کا وزیراعظم کہاں رہتا ہے بلکہ ان کو غرض اس بات سے ہے کہ حکومت ملک کو غیر ملکی قرضوں سے نجات دلائے ، ملکی معیشت میں بہتری لائے، دہشت گردی، کرپشن اورافراط زر سے جان چھڑائی جائے اور بامقصد خارجہ پالیسیاں بنائی جائیں۔
ہمارے نئے وزیراعظم (ظاہر ہے عمران خان) کو پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل سے نجات دلانے کیلئے کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا ان میں سرفہرست قرضوں کا بھاری بوجھ ہے، جن سے ترجیحی بنیادوں پر جان چھڑانا ہو گی۔ علاوہ ازیں، تعلیم، صحت، امن عامہ کے مسائل بھی حل کرنا ہوں گے۔ آئی ایم ایف نے ہمیں غلام بنانے کے لئے قرضوں کا پھندہ بنایا ہم بطور قوم، قرضوں کے ڈھیر کے یرغمالی بن چکے ہیں۔ قوم نئے وزیراعظم سے توقعات وابستہ کئے بیٹھی ہے کہ وہ اسے ان قرض دہندگان کی غلامی سے نجات دلائیں گے۔ امید ہے کہ وزیراعظم، مؤثر پالیسیوں کی تشکیل کے حوالے سے مدت کا تعین اور روڈ میپ دیں گے تاکہ 99 ارب ڈالر کے قرضوں کے اس بوجھ سے نجات مل سکے۔ عوام غیر ملکی قرضوں سے نجات پا کر گورنر ہائوسز پر بلڈوز چلتا دیکھنے کی نسبت زیادہ خوش ہوںگے۔ براہ کرم وزیراعظم، اقتصادی زونز کی صورت میں کھیل کے میدان بنائیں۔ تاہم نوجوان صنعتکاروں اور کاروباری حضرات کو اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے موقع ۔ دیکھتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت، قوم کو آئی ایم ایف اور دوسرے قرض دہندگان کے بچھائے جال سے کس طرح آزاد کراتی ہے اور کیسے اپنی مالی پالیسیاں نافذ کرتی ہے۔ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کی کامیابیوں کا صمیم قلب سے متمنی اور دعا گو ہوں کہ وہ اپنے عہد اقتدار میں ووٹروں سے کئے گئے وعدوں کے مطابق گورننس میں تبدیلی لائیں۔
(ترجمہ و تلخیص: حفیظ الرحمن قریشی)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024