چیلنج سے گھبرانے والوں اور اپنی تعلیم اور قوت بازو پر بھروسہ نہ کرنیوالوں کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیلنے والا ایسا دھکا ہے جس کا انتظام کوئی دوسرا نہیں بلکہ ضد اور ہٹ دھرمی اختیار کرنے والا خود کرتا ہے۔ تیسری بات شکریہ ادا کرنے کی طاقت‘ اہمیت اور افادیت کو شعوری طورپر محسوس کرنے اور عملی طورپر اختیار کرنے کی عبادت کو پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے کبھی جدا نہ ہونے دینا۔ یہ مت سوچنا کہ یہاں شکریہ ادا کرنے کی کوئی تک نہیں۔ میں آپ کو کسی مذہب یا اخلاق کے حوالے سے یہ نہیں کہہ رہا۔
خالصتاً ایک پروفیشنل کے طورپر میں نے ’’پاور آف تھینکس‘‘ کو جتنا محسوس کیا ہے اسکے مثبت اثرات کو جس طرح دیکھا ہے‘ یہ اس تجربہ کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ شکریہ ادا کرکے آپ کو طمانیت حاصل ہوگی اور جس کا شکریہ ادا کرینگے اس کو خوشی۔ جو آپ کے اس شکریہ کا حقدار ہے وہ آپکے پروفیشنلزم کے ساتھ ساتھ آپ کے اعلیٰ کردار اور اخلاق کی تعریف کریگا اور جو اس کا خود کو حقدار نہیں سمجھتا وہ اس کو بطور سرپرائز لے یا نہ لے وہ اس غیرمتوقع شکریہ پر آپکے ادارے کے ساتھ ساتھ آپکی ذات میں ایسی کشش محسوس کریگا کہ پیشہ وارانہ مخالفت سے نیوٹرل ہونے اور غیرجانبداری سے آپکی حمایت کرنے پر مجبور ہوجائیگا۔ فری مین کی یہ باتیں صرف طالب علموں کیلئے نہیں تھیں وہاں پر موجود ہر شخص کیلئے رہنمائی کی حیثیت اختیار کررہی تھیں۔ ہال میں موجود ہر سماعت اس تقریب میں شرکت پر فخر کررہی تھی۔ کیا فخر تھا طالب علموں کی پیشانیوں پر ماں باپ کی آنکھوں میں ‘ مہمانوں اور میزبانوں کے رویوں میں۔ اس عظیم الشان ہال کی گیلریاں‘ دیواریں اور دروازے تک کی طرف دیکھیں تو ان میں اس عظیم درس گاہ کا قابل ذکر حصہ ہونے پر فخر جھلک رہا تھا۔ وقار نظر آرہا تھا‘ بڑے اداروں کی بڑی باتیں‘ بڑے اصول اور غیرضروری اور نامعقول سے خود کو بچانے کی شعوری کوشش پھر ایسا ہی نتیجہ پیدا کرتی ہے جو ہم نے جانز ہاکنزیونیورسٹی کے بالٹی مور شہر میں دیکھا۔
مجھے وہ پروفیسر بھی یاد آگیا جو ہانگ کانگ کی یونیورسٹی میں کانووکیشن سے خطاب کررہا تھا۔ پی ایچ ڈی کا گائون اور سر پر ’’پھمن‘‘ والی کالی ٹوپی پہن کر خطاب کرنے کے باوجود وہ برملا اعتراف کررہا تھا کہ اس نے یونیورسٹی کا حصہ بننے کی کئی بار کوشش کی کی مگر کامیاب نہ ہوا۔ ہر بار ناکام ہوا اپنی اس ایک بار دو بار بلکہ تین بار کی ناکامی پراگر میں یہ سوچتا کہ میں پی ایچ ڈی کروں گا اور اس یونیورسٹی کا حصہ بنوں گا تو دوسرے کیا میں خود حماقت اور جہالت کی مہر اپنے ماتھے پر لگا لیتا۔ پی ایچ ڈی کرنے والے فیل ہونے کا ایسا ریکارڈ نہیں رکھتے جو میرا تھا مگر میرے عزیز و میں نے محنت ترک نہ کی۔ فیل ہونے کے بعد دوبارہ محنت دوبارہ فیل ہونے کے بعد اور زیادہ محنت۔ میری کہانی بتاتی ہے کہ جو لوگ محنت کو شعار بناتے ہیں وہ فیل بھی ہوجائیں تو کام کرنے کی دھن ان پر سوار رہتی ہے۔ محنت کو شعار بنانے والے نتیجہ پر نظر نہیں رکھتے وہ محنت کو ترک نہیں کرتے مایوس نہیں ہوتے ہاں کامیابی کو منزل بناکر محنت کرنے والے منزل نہ ملنے پر مایوس ہوجاتے ہیں اور پھر ایسے فیل ہوتے ہیں کہ زندگی کے ہر شعبہ میں ناکامی ان پر آسانی سے حملہ آور ہوجاتی ہے لیکن جو لوگ محنت کو شعار بنالیں ایک نہ ایک دن کوئی یونیورسٹی ان کے استقبال کیلئے اپنی بانہیں کھول دیتی ہے۔ آپ کو احساس ہوتا ہے کہ یونیورسٹی شدت سے میرا انتظار کررہی ہے۔ ہانگ کانگ کی اس یونیورسٹی کے پروفیسر اور جانز ہاکنز یونیورسٹی کے کیری بزنس آف سکول کے ڈین میں یہ قدر مشترک تھی کہ دونوں بزنس کی بات کررہے تھے کامیاب بزنس کی بلکہ کیری کا تو موٹو ہی بزنس ہے۔ پیسہ کمانادونوں اداروں کے پروفیسروں کا اس بات پر بھی اتفاق تھا کہ ان کی عظیم درسگاہوں کے فارغ التحصیل نوجوانوں کو کبھی پیسہ کمانے کو اصل کام نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ پیسہ تو ہرکوئی کما لیتا ہے کوئی تھوڑا کوئی زیادہ کوئی جائز کوئی ناجائز اس لئے اس حقیر مقصد کے حصول پر اپنی صلاحیتیں کبھی ضائع نہ کرنا اپنے ادارے کو کبھی بدنام نہ کرنا۔ تمہارا اصل کام یہ ہے کہ پیسہ خرچ کیسے کرنا ہے ہی آپ کی سِکل (Skill) خصوصیت یا خوبی ہونا چاہئے۔ یاد رکھیں ہم نہ پیسے کے لئے زندہ ہیں نہ پیسے کے لئے کام کرتے ہیں یادرکھیں اگر ایک ملین آپ کے پاس ہے تووہ آپ کا ہے دس ملین ہوا تو مسائل پیدا کرے گا ۔ سو ملین ہوا تو وہ آپ کا نہیں رہیگا اس عظیم درسگاہ نے آپ کو یہ سکھایا کہ آپ یہ پیسہ خرچ کیسے کرتے ہیں۔ سوسائٹی اور معاشرہ کو آپ کی اس تعلیم کی وجہ سے آپ پر اعتماد اور اعتبار ہے کہ آپ یہ پیسہ بہتر طریقہ سے خرچ کرینگے کیونکہ آپ نے یہ ہنر سیکھنے کے لئے یہ راز جاننے کیلئے اس یونیورسٹی میں اپنی زندگی کے دو اڑھائی سال گزارے۔ ہزاروں ڈالر فیس دی قیمتی وقت دیا محنت کی اب معاشرہ کا آپ پر یہ اعتماد اور بھروسہ آپ کو آسودگی دے گا۔ روحانی خوشی دے گا۔ اصل کامیاب لوگ دوسروں کے سماجی مسائل حل کرنے کے لئے پیسہ کماتے ہیں اور اس پر خرچ کرتے ہیں۔ پروفیشنل اور معاشرے کے حقوق اور تعلیم کے صحیح استعمال کے بعد پروفیسر نے اس وقت سب کو چونکا دیا جب اس نے کہا اس وقت پوری دنیا میں جتنے چیلنجز ہیں ان میں تعلیم سب سے بڑا چیلنج ہے۔ کیونکہ پچھلے دو سو سال سے ہم بچوں کو ایک ہی تعلیم دے رہے ہیں۔ کیا یہ المیہ نہیںکہ ہم تعلیمی اداروں میں یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ مشینیں بہتر کام کرتی تھیں ہم انسانوں پر اور اپنے آپ پر اعتماد کرنے کی بجائے مشینوں پر اعتبار اور اعتماد کر رہے ہیں۔ انسانوں پر اعتماد میں نہ صرف فقدان نظر آئیگا بلکہ خود اعتمادی بھی چاروں شانے چت دوبارہ اٹھنے کی ہمت اور جذبے دونوں سے محروم اور شکست خوردہ نظر آئیگی۔ کیلکولیٹر سے لیکر کمپیوٹر تک کے سارے سفر میں دماغ کو استعمال کرنے سے جس طرح غیر محسوس طریقہ سے روکا گیا اور انسانی دماغ نے اپنا سارا کچھ چھن جانے پر جس بے نیازی کا مظاہرہ کیا وہ انسانی تاریخ میں پست ترین ذہنی سطح اور ذہین کے استعمال سے لاتعلقی کا ایسا حوالہ بن کر تاریخ میں اپنا نام درج کرا چکا ہے جس پر انسان کو ابھی تک ہوش نہیں آیا۔ پروفیسر نے بڑے دکھ اور کرب سے کہا کہ آج سب سے بڑی ضرورت اس نصاب کو بدلنے کی ہے جس میں انسانی اذہان پر مشینوں کی حکومت اور بالادستی کو تسلیم بلکہ زندگی کا جزولاینفک سمجھنے کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ ہم نے نصاب کے مندرجات کو بدلنا ہو گا۔ مستقبل کی نسل کو اور خطوط پر تعلیم دینا ہو گی۔ نیا نقطۂ نظر سامنے لانا ہو گا۔ نئے زاویہ نظر سے چیزوں کو سمجھنا ہو گا۔ مسائل کی نشاندہی کرنا ہو گی ان کے قابل عمل حل بتانے ہونگے اور پھر یونیورسٹی کا یہ پروفیسر فاتحانہ انداز میں کہہ رہا تھا آئیے، مشینوں کو فتح کر لیں یاد رکھیں مشینیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ آج کی ساری جدید ٹیکنالوجی کمپیوٹر سمیت مشین ہی کے خاندان سے ہے مزید ذہن نشین کر لیں کہ مشینیں کبھی انسانوں کو فتح نہیں کر سکتیں۔ مشینوں کو خود انسانوں نے بنایا ہے مشین انسانی دماغ کا شاہکار ہیں۔ انسان ان مشینوں پر حاوی رہیگا۔ اسے حاوی رہنا چاہئے سرنڈر نہیں کرنا چاہئے۔سرنڈر کرنے والے کم ہمت اور بے حوصلہ ہوتے ہیں۔ جانز ہایکنز کے فارغ التحصیل نہ بے ہمتی دکھائیں گے نہ کم حوصلگی کیونکہ اس نوع کا کوئی کورس اس عظیم یونیورسٹی میں آفر نہیں کیا جاتا نہ لازمی مضمون کے طور پر اور نہ اختیاری مضمون کے طور پر۔ یاد رکھئے مشینوں کے پاس چپس ہیں جن پر دار و مدار کرنا مشینوں کی مجبوری ہے۔ چپس کی مدد سے مشینیں انسانوں پر حاوی ہو رہی ہیں مگر انسانوں کے پاس تو زرخیز دماغ ہے جو روشن دماغ بھی کہلاتا ہے نہ تھکتا ہے نہ گھبراتا ہے ۔ مشینوں کے اس دور میں اس پر اونگھ ضرور آئی اس نے رضا کارانہ طور پر دماغ کو ریسٹ دے دی مگر یونیورسٹیوں میں پڑھنے اور پڑھانے والوںکے دماغ ریسٹ نہیں کرتے وہ تو انتظامی چھٹیوں میں بھی ریسٹ نہیں کرتے۔ پروفیسر اپنے ریسٹ نہ کرنے والے دماغ میں آنے والے مستقبل کے خاکے کو حاضرین سے شیئر کر رہا تھا۔ وہ سارے ہمہ تن گوش اسے سراہ رہے تھے وہ کہہ رہا تھا مستقبل میں مقابلہ علم اور نالج کا نہیں ہو گا یہ مقابلہ ہو گا انسان کے دماغ کی زرخیزی ، تخلیق یا جہد نو (Creativity) کا نئی اور اُجلی سوچ کا نئے اور اجلے خیالات کا قابلِ عمل تحقیقات کا ریسرچ کرنے کا آزادی سے سوچنے کا آزادی سے عمل کرنے کا اگر مشین کی طرح سوچیں گے تو مسائل آئیں گے پچھلی ربع صدی میں ہم نے انسانوں کو مشین بنا دیا روبوٹ بنا دیا ہے ٹیکنالوجی کے نام پر ترقی نے انسانوں سے انسانیت ہی نہیں چھینی ان کو سوچنے سمجھنے کی آزادی سے بھی عملاً محروم کر دیا ہے وہ محدود سوچ پر بھروسہ کرتا ہے اور اپنی کامیابی کومشینوں کے استعمال سے جوڑ چکاہے۔ مستقبل علم یا نالج کی معراج کا نہیں عقل اور شعور کی معراج کا ہے۔ مستقبل تجربات سے دیکھنے کا ہو گا ہمارا ماضی علم سے حاصل کردہ چیزوں کی کامیابی کا تھا نئی ایجادات کے متعارف ہونے اوران ایجادات کے استعمال میں مہارت حاصل کرنے کا دور، ان ایجادات کے استعمال کا دور آنے والا (Creativity) کا دور ہو گا آج دنیا اس پر فوکس کر رہی ہے۔ انسان سمجھ رہا ہے جدید ٹیکنالوجی چھن جانے کی صورت میں وہ غاروں میں گزاری جانے والی زندگی کے دور میں واپس چلا جائیگا۔ (ختم شد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024