میرے نام پاکستان سے منسوب سر زمین پاکستان پر بسنے والو آج مجھے وجود میں آئے71 سال ہو رہے ہیں۔14 اگست 1947ئکو جب میں معرضِ وجود میں آیا تو سب سے پہلے میرے نام کے وسیلے سے پہلا رزق جو اس دھرتی پر رہنے والوں نے کمایا وہ تھا لفظ پاکستانی جو آپ سب کی شناخت بنا۔ ذرا سوچیئے لفظ پاکستانی کی شناخت سے پہلے اسی سرزمین پر بسنے والے متعصب ہندو اپنی نفرت کا اظہار کرتے اپ لوگوں کو کس نام سے پکارتے تھے۔ وہ خْدا جس کے قبضے میں آپ سب کی جان ہے اْسے حاظر ناظر جان کر سچے دل سے بتائیے سوائے انگریزوں کے چند زر خرید ضمیر فروش جاگیرداروں کے آپ میں سے کتنے میرے وجود میں آنے سے پہلے اپنی زمینوں کے مالک تھے۔ آپ میں سے کتنے چند بڑے بڑے نوابوں کو چھوڑ کر بڑے بڑے گھروں اور فارم ہاؤسوں میں رہتے تھے۔ آپ میں سے کتنے بڑے بڑے کاروباروں، دوکانوں اور پلازوں کے مالک تھے۔ آپ میں سے کتنے کتنی فیکٹریوں کے مالک تھے۔ آپ میں سے کتنے اْس وقت کی سول سروس میں اعلی عہدوں پر فائز تھے۔ میری ذات کے وسیلے سے لفظ پاکستانی کی شناخت کے بعد اگلا رزق جو آپ لوگوں نے کمایا وہ تھا کسی بندش کسی خوف کے بغیر رہن سہن کی وہ آزادی جس میں سب سے بڑی نعمت تھی مذہبی آزادی اور اپنا تہذیب و تمدن۔ اس سے اگلا پھل جو میرے شجر سے آپ لوگوں کی جھولیوں میں گِرا وہ تھا باوقار ذریعہ معاش جو آپکی مالی آسودگی کا سبب بنا لیکن افسوس از حد افسوس آپ لوگوں کی اکثریت نے ان میں کسی بھی معاملے میں انصاف سے کام نہیں لیا۔ روزمرہ کے معاملات تو درکنار حقوق الہہ اور حقوق العباد کے معاملے میں بھی آپکی اکثریت خوفِ خدا کو خاطر میں لانا بھول گئی۔ آپکی فکری اساس جس کا محور اجتماعی بھلائی ہونا چاہیئے تھا وہ انفرادی دائروں کی مقید ہو گئی اور تم لوگ مالی ہوس کا شکار ہو گئے۔ میرے حق پر جو سب سے پہلا ڈاکہ ڈالا گیا اور جو سب سے بڑا ظلم ہوا وہ تھا جعلی کلیموں کے ذریعے متروکہ وقف املاک کی بندر بانٹ۔ حقیقت میں ان جائیدادوں کا کوئی مالک تھا تو وہ تھا صرف میں جس کا نام تھا پاکستان۔ اصولاً ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان جائیدادوں کے حقوق ریاست پاکستان کے پاس ہی رہتے جس کے ذیلی ادارے یہ جائیدادیں پھر مستحق لوگوں کو کرائے پر دیتے جیسا کہ اس وقت برطانیہ میں یہ کام وہاں کی کونسلیں کرتی ہیں اور پھر یہ کرائے حکومت پاکستان کے خزانے میں جمع ہوتے جو انفرادی کی بجائے اجتماعی رفاعہ عامہ کے منصوبوں پر خرچ ہوتے، لیکن ہوا اسکے برعکس جس کے نتیجے میں معاشرتی تفریق کی ایک ایسی وسیع خلیج وجود میں آئی جس کے پاٹ لاکھ کوششوں کے باوجود آج تک آپس میں مل نہیں پائے اور جس کی وجہ سے معاشی ناہمواری کا ایک ایسا ناسور پھیلا ہے جس نے میری جڑوں کو کس حد تک کمزور کیا ہے یہ میں جانتا ہوں یا میرا خْدا۔ لیکن اس سے بڑھکر جن زخموں نے میرے وجود کو گھائل کیا وہ تھی اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کی آپس کی ریشہ دوانیاں۔ بجائے اسکے کہ وہ میرے وجود کی طاقت اور نشونما کیلیئے کوئی نسخہ کیمیا، کوئی آئین تجویز کرتے اْنہوں نے ایک دوسرے کی ٹانگیں اسطرح کھینچنا شروع کر دیں کہ خْدا پناہ۔ جس کا نتیجہ ایسا نکلا کہ میری حفاظت پر مامور میرا ہی چوکیدار میرا مالک بن بیٹھا۔ میری بدنصیبی دیکھیے میرے ازلی دشمن نے جب یہ دیکھا کہ میرا چوکیدار اپنی بندوق ایک طرف رکھ کر گھر کے دوسرے کاموں میں لگ گیا ہے تو اْس نے اس سے بھرپور فائدہ اْٹھایا اورجارحیت کی صورت میں اْس نے سیدھا میرے وجود پر حملہ کر دیا۔ شومئی قسمت نہ اربابِ اختیار نے اور نہ عوام الناس نے اس سے کوئی سبق سیکھا کہ جب کوئی اپنے فرائض سے رتی بھر بھی ذرا ادھر سے اْدھر ہوتا ہے تو دشمن ایک منٹ کا بھی ادھار نہیں کرتا اور وہ سیدھا آپ پر حملہ اور ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو میرے وجود کا حاصلِ مقصد تو یہ تھا کہ یہاں لوگ اپنے مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر اپنے اپنے رسم و رواج اور تہذیب و تمدن کے طابع اپنی اپنی زندگی گزار سکیں لیکن میری اس زمین پر بسنے والے اتنے آزاد پسند واقع ہوئے کہ اْنہوں نے انتظامی اور اخلاقی تمام حدود اور قیود کو اسطرح خیر باد کہا کہ لفظ دیوالیہ پن بھی حقیر نظر آنا شروع ہو گیا۔ میری اس دھرتی کے باسی لفظ پاکستانی بھول گئے کوئی بنگالی کہلانے پر فخر کرنے لگا تو کوئی یہ کہنے لگ پڑا کہ جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ۔ کوئی پختون ہونے پر مان کرنے لگا تو کوئی اپنے آپکو سندھی اور بلوچی کے نام سے متعارف کروانے میں اپنا فخر سمجھنے لگا۔ مذہبی آزادی کا اتنا فائدہ اْٹھایا کہ کوئی شعیہ تو کوئی سْنی، کوئی وہابی تو کوئی بریلوی، کوئی سلفی تو کوئی جھنگوی۔ کوئی ان سے پوچھے لفظ پاکستانی اور مسلمان جو تمہاری اصل شناخت تھی جسکی وجہ سے تْم علیحدہ وطن کے مالک بنے وہ کہاں گیا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے ملک دو لخت ہو گیا۔ افسوس اکثریت پھر بھی سمجھ نہ پائی۔ سنبھلنے کی بجائے مزید تفرقوں کی نظر ہو گئے۔ سیاسی، مذہبی اور گروہی اختلافات نفرتوں کو کس نہج پر لے گئے کہ میری دھرتی کے کیسے کیسے نایاب ہیرے کچھ قتل ہوئے کچھ پھانسی پر لٹک گئے۔ ذرا سوچو میرے وجود کی بدولت تْم لوگوں کو باوقار ذریعہ معاش کی نعمت نصیب ہوئی تھی لیکن تْم لوگوں نے کیا ظْلم کمایا کہ کرپشن کی کمائی کے لحاظ سے دنیا میں اس وقت کرپشن انڈکس میں مجھے 114 ویں نمبر پر لا کھڑا کیا۔ میں تو سوچتا تھا کہ میرے بطن سے صرف ایک قائداعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، ڈاکٹر عبدالسلام، جسٹس کارنیئس، ڈاکٹر عبدالقدیر، فیض احمد فیض، واصف علی واصف، عبدالستار ایدھی مرحوم ہی پیدا نہیں ہونگے بلکہ میرا تو ایمان تھا کہ میری زمین کے ہر چپے سے ان جیسے لاکھوں ہیرے پیدا ہونگے جو پوری دنیا میں میرا نام روشن کریں گے لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ میری آستین میں ایسے ایسے سانپ پل رہے ہیں جو دنیا میں کرپشن کے میدان کے بے تاج بادشاہ کہلائیں گے کہیں انکی تعداد پانامہ پیپرز میں چار سو پچاس ہو گی اور کہیں یہ علی بابا چالیس چور کہلائیں گے۔ ذرا تصور کیجیئے اس منظرنامے کا جب میری شناخت لیئے میرے نام کا پاسپورٹ تھامے میرا کوئی باشندہ دنیا کے کسی ملک میں داخل ہونے لگتا ہے تو دہشتگردی اور کرپشن کے تناظر میں شک بھری نظریں جب میرے باسیوں کے چہروں کا طواف کرتی ہیں تو جو قیامت میرے دل پر گزرتی ہے اس کرب کا کاش کوئی اندازہ کر سکے۔ یارو ابھی تو میں نے اپنے دل کے چند پھپھولے اپکے سامنے رکھے ہیں لکھنے یا بتانے بیٹھ گیا تو کتابیں بھر جائینگی۔ مزید کچھ کہنے کی بجائے اشکبار آنکھوں کے ساتھ ہاتھ جوڑ کر اہوں اور سسکیوں میں لپٹی صرف ایک التجا کرنا چاہوں گا میرے پر نہیں خداراہ اپنے آپ پر ہی ترس کھا لو اپنے بچوں پر ہی ترس کھا لو اب بھی سنبھلنے کا وقت ہے۔ اللہ نے میرے حوالے سے تمہیں جو پاکستانی نام کی شناخت دی ہے اْسے گالی نہ بناؤ بلکہ اپنے سر کا تاج بناؤ۔ آج تک تفرقوں اور پارٹیوں میں بٹّے ایک دوسرے سے دست و گریباں رہے ہو۔ وقت کی آواز سنو اللہ بھی روز روز موقعے نہیں دیتا۔ اگر منزل نظر آنی شروع ہو گئی ہے تو دائروں میں سفر کی بجائے قبلے کی طرف سفر شروع کرو۔ زمانے کی بھی ایسے میں ایک صدا ہے کہ "یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں" اب قیادت کو بھی چاہیئے کہ اپنا قبلہ درست رکھے ورنہ یاد رکھو کرپٹ اور بداعمال اقوام سے اللہ انکی شناخت چھین لیتا ہے اور پھر تاریخ انکو کسی اور نام سے یاد کرتی ہے۔ بس میری اتنی سی فریاد ہے شاید یہ فریاد حکم اذاں کی دستک بن کر مردہ دلوں کو یہ کہنے پر مجبور کر دے خودی کا سرِ نہاں لا الہ الا للہ!!۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024