14اگست 1947ء کو قائم ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست پاکستان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ 23مارچ 1940کو لاہور میں ہونے والے مسلم لیگ کے اجلاس میں قرار داد لاہور کی منظوری سے شروع ہو کر 14اگست 1947کے مختصر ترین عرصے میں معجزہ ثابت ہوا مگر برصغیر کی تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ ریاست دس بیس سال کا کھیل نہیں بلکہ صدیوں پر محیط کوششوں ریاضتوں عبادتوں شب بیداریوں کے ساتھ ساتھ شہادتوں کا ثمر ہے ۔ہمارے عظیم قائد کی نظر برصغیر کی طویل تاریخ پر تھی جبکہ آپ نے فرمایا کہ پاکستان کی بنیاد اسی دن پڑگئی تھی جس دن پہلا ہندو مسلمان ہوا ۔محمد بن قاسم ، محمود غزنوی، غوری اور ابدالی سب مسلم حملہ آوروں کے گھوڑوں کے سموں کی رگڑ سے نکلتی چنگاریاں اور اللہ اکبر کی صدائیں ہندوستان میں ذات پات کے اندھیروں کو شکست دیتی ہوئی وحدانیت کی روشنی پھیلاتی رہیں۔مشائخ عظام اور مبلغین اسلام نے اپنے طرز عمل اور انداز فکر سے وہ روشن چراغ جلائے کہ ہندوستان کے کونے کونے میں مسلمان نظرآنے لگے ۔یہ تمام عمل اسلام کے پاکیزہ معاشرے کے قیام کی کڑیاں ہیں جو آگے بڑھتے ہوئے کبھی مجدد الف ثانی کا درباراکبری میں اعلان بغاوت تھا تو کبھی اورنگ زیب عالمگیر اسلامی ریاست کے احیاء کے لئے جہاد مسلسل ، کبھی ٹیپو اپنے عمل سے شیر کی موت کو گیدڑ کی زندگی پر فوقیت دیتا نظر آتا ہے تو کبھی تیتو میر بنگال، دلا بھٹی اور محمد خان کھرل پنجاب ، بخت خان دہلی ، چاکر اعظم بلوچستان میں اسلامی طرز زندگی کے لئے جان نچھاور کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ نظام مصطفی کے قیام کے لئے شاہ ولی اللہ ، سید اسمعیل شہید ، سید احمد شہید علمبردار اور شمشیر زن تھے ۔ صوبہ سندھ میں ایک جانب عبیداللہ سندھی تحریک ریشمی رومال چلاتے ملیں گے تو دوسری طرف پیران پگارو ڈیڑھ صدی پر محیط آزادی کی شمع کو اپنے لاکھوں مریدوں کے لہو سے روشن او رتاباں کرتے نظر آئیں گے یعنی پاکستان صدیوں پر محیط مجاہدوں ، مبلغوں کی کوششوں سے معرض وجود میں آیا ۔کئی صدیوں شہیدوں نے لہو سے چراغ جلا کر اپنی تمنائوں کو آگے بڑھایا ۔ پاک وطن کی بنیادوں میں دینی فکری علمی تحریکوں کا شعور اوراثرات شامل ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ برصغیر کے پارٹیشن پلان کے مطابق تقسیم ہند 1948ء میں ہونی قرار پائی مگر مکار ہندو اور عیار انگریز نے سازش کی کہ اگر ایک سال مزید مل گیا تو مسلم لیگ ملک سنبھالنے کی منصوبہ بندی کر لے گی او ر روس سے ہندی افوا ج بھی واپس آجائیں گی ۔مسلم افوا ج کی غیر حاضری میں کٹا پھٹا آزادی کا منصوبہ جناح کے سامنے رکھا جائے ۔ جناح ضدی مزاج ہیں لہذا وہ کہہ دے گا کہ مسلم لیگ کی کونسل کے مشورے کے بغیر قبول نہیںتو تاج برطانیہ ہندوستان کو کانگریس یعنی ہندو کے سپرد کر دیں گے ۔ حضرت قائد کی نگاہ دور اندیش نے سازش کو بھانپ لیا ۔آپ نے اثبات میں سر کو جنبش دے کر کفار کی تمام منافقانہ منصوبوں کو ملیا میٹ کر دیا اور پاکستان معرض وجود میں آگیا۔دراصل دشمنانان دین اپنی چال چل رہے تھے اور رب کائنات اپنی۔ یقینا خدا کے سامنے کس کا جال کس کی چال کامیاب ہوسکتی ہے ۔خدا کو ہی علم تھا کہ محمد علی جناح کی زندگی کتنی رہ گئی ہے ۔میرا خدا ہی جانتا تھا کہ جو تحفہ صدیوں کی تمنائوں کا ثمر ہے ، ریاضتوں ، شہادتوں کا اجر ہے اس کے لئے رب رحمن و رحیم نے جس دن کا انتخاب فرمایا وہ خاص دن نزول قرآن کا دن لیلتہ القدر کی مقدس ساعتیں تھیںجب ذات پات کی غلاظت سے پاک خطہ اسلام کے نام رجسٹری ہونا تھا ۔ مسلمانوں کے بسنے والے ملک جہاں اللہ کی حاکمیت اور قانون قرآن کا نفاذکیا جا سکے وہ روح پرور منظر جس ذی روح نے دیکھا وہ مرتے مر گیا مگر اس کی کیفیت اور طمانیت آخری سانس تک محسوس کرتا رہا ۔یہ تاریخ ساز فیصلہ بظاہر اللہ کے دشمن کر رہے تھے مگرلکھا تو کاتب تقدیر کاتھا ۔ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ 14اگست 1947عالم اسلام کی ایسی متبرک رات ہے جو ہزاروں مہینوں سے برترو افضل نزول قرآن کی رات ہے تو کیا ہندو اور انگریز آزادی کا اعلان کر پاتے ۔انہیںذرا بھر شک ہوتا کہ حضرت قائد کی بیماری اس انتہا کو چھو چکی ہے کہ چند ماہ کے مہمان ہیں تو یہ بدبخت آپ کی رحلت کا انتظارکیا نہ کرتے ۔سروجنی نائڈو نے حضرت قائد اعظم کی وفات پر کہا کہ اگر جناح 13اگست 1947کی رات کو بھی فوت ہو جاتے تو تقسیم ہند کسی قیمت پر بھی ممکن نہ ہوتا ۔ حضرت قائداعظم کی رحلت کے بعد تقسیم ہند کے تمام سٹیک ہولڈرز دانت پیستے ہاتھ ملتے اور ساری زندگی سر دھنتے رہے کہ ہم سے کیا فحش حماقت سرزد ہوگئی جس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا ۔ہم جناح کی بیماری سے غافل رہے یقینا اللہ کی چال بھی سب پر غالب ہو کر رہتی ہے ۔ اس مقدس رات کا اعجاز ہے کہ تمام نالائقیوں اور بداعمالیوں کے باوجود ملک قائم و دائم ہے ۔اپنی اکہتر سالہ زندگی پر نظر ڈالیں مسلسل دبائو کا شکار مستقل بحرانوں زلزلوں اور طوفانوں، دہشت زدگی کی زد میں جنگ و جدل کی حالت میں اندرونی بیرونی سازشوں کو جھیلتا ، دشمنوں کے وار سہتا اور اپنوں کے لگائے چرکے برداشت کرتا آگے بڑھ رہا ہے کیونکہ اس کی بنیادوں میں مجاہدوں اور شہیدوں کا لہو ہے۔2018 ء کے الیکشن میں جیتنے والی پارٹی کے سربراہ نے اپنے پہلے پیغام میںپاکستان کو ریاست مدینہ کے تصور سے ہم آہنگ کرنے ، سادگی اور کفایت شعاری اپنانے ، مسئلہ کشمیر اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات پر جو بیان جاری کیا وہ پوری قوم کے لئے حوصلوں ولولوں اور روشن مستقبل کی دلیل ہے ۔یقینا عمران خان جانتے ہیں کہ ہمیں اپنے عظیم بزرگوں کے ایمان افروز عمل کو دہرانا ہوگا ۔ ہمیں ان کے بتائے ہوئے اور بنائے ہوئے اصولوں کی جانب لوٹنا ہوگا ۔پاکستان سندھی ، بنگالی ، پٹھان اور بلوچوں نے نہیں بنایا بلکہ مسلم قومیت کی بنیاد پر بنا ۔ یہی نسخہ کیمیا ہے پاکستان کو بچانے او ر عالم کفر پر چھا جانے کا یہی پیغام 14اگست 2018کا ہے کہ ہم ایک قوم ہیں ، ملت اسلامیہ ہیں ۔ ہماری بقا سلامتی صرف مسلم قومیت میں پنہاں ہے ۔ ہمارے اعلیٰ مرتبت قائد کے فرمان (ایمان ، اتحاد، تنظیم) پر عمل پیرا ہو کر ہم ایک عظیم قوم بن سکتے ہیں ۔ ہم جوہری طاقت بن چکے ہیں مگر ناقابل تسخیر ہونے کے لئے قوت ایمانی ، اتحاد و یک جہتی سب سے اہم کڑی ہے ۔صدیوں پر محیط جدو جہد آگ و خون کے دریا عبور کرکے حاصل ریاست کی حفاظت بھی اپنے عظیم اسلاف کے بیمثال اعلیٰ کردار پر عمل سے ممکن ہے ۔برداشت اتحاد ایثار اخلاص سے ہی اقوام عالم میں سرفرازاو سر بلند مقام ہو سکتا ہے ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024