17 اگست 1947ء کو امرتسر ریلوے اسٹیشن سے 14 بوگیوں پر مشتمل متحدہ ہندوستان کی ٹرین لاہو ر آنے کے لے تیار کھڑی تھی۔ اسی ٹرین کی کسی بوگی میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ لوگ چھتوں پر بھی سوار تھے اور بڑی تعداد میں ٹرین کے ساتھ بھی لٹکے ہوئے تھے۔ شریف پورہ امرتسر کی ایک مسلمان فیملی بھی اسی ٹرین میں سوار تھی۔ یہ سب اپنا گھر بار، کاروبار اور قیمتی سازو
سامان چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت کر رہے تھے اور اب ٹرین چلنے کے منتظر تھے۔ امرتسر میں کافی قتل و غارت ہوچکی تھی، پے در پے مسلمانوں کے محلوں پر ہندو جاٹوں اور سکھوں کے حملے ہو رہے تھے۔ جانیں بچا کر بھاگنے والے اب اس ٹرین میں سوار تھے۔ کئی گھرانوں کے لوگ اب بھی ان کے ساتھ نہیں آسکے تھے۔ وہ یا تو قتل کر دیئے گئے تھے یا کہیں گم ہوگئے تھے۔ ایسے عالم میں جب ہر طرف خوف اور دہشت طاری تھی کون کسی کو کہاں تلاش کرتا؟ ٹرین کے سب مسافر حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ کب ٹرین چلے گی، کب پاکستان آئے گا۔ ان لمحات کا بڑی بے چینی سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے اُن کی سن لی۔ ٹرین نے سیٹی بجائی اور وہ خراماں خراماں اٹاری کی طرف چل پڑی جو لاہور سے بالکل متصل ہے اور انڈین حدود میں واقع ہے۔
امرتسر سے اٹاری کا سفر آدھے گھنٹہ سے زیادہ نہیں ہے لیکن کئی رکاوٹوں اور خطرات کے پیش نظر اس ٹرین نے یہ سفر آٹھ گھنٹے میں طے کیا۔ راستے میں کئی جگہ ٹرین کے مسافروں پر حملے کی بھی کوششیں ہوئیں، کئی لوگ شہید بھی ہوگئے مگر بالآخر ٹرین لاہور میں داخل ہو ہی گئی جو پاکستان کے لیے ہجرت کرنے والے گھرانوں کا پہلا پڑائو تھا۔ والٹن روڈ پر ہندوستان سے آنے والے مسلمان گھرانوں کے قیام کے لیے جو کیمپ لگایا گیا تھا۔ اس میں سہولتیں ناکافی تھیں۔ نہ کھانا مل رہا تھا نہ پانی۔
پاکستان کے لیے ہجرت کرنے والے یہ لوگ کئی اور بنیادی سہولتوں سے بھی محروم تھے۔ شریف پورہ امرتسر سے جو خاندان اسی ٹرین کے ذریعے والٹن روڈ کے مہاجر کیمپ تک پہنچا۔ اُس کے بیشتر لوگوں کو آج بھی ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ ان میں سے کئی اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں۔ آگے ان کی اولادیں ہیں جن سے اکثر ملاقات رہتی ہے۔ جب بھی 14 اگست کا دن آتا ہے پرانے زخم تازہ ہو جاتے ہیں، یہ یاد بھی آتی ہے کہ ہمارے بزرگوں نے پاکستان کے لیے کئی قربانیاں دیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان ایک بڑی تحریک اور بڑی قربانیوں کے بعد وجود میں آیا۔
پاکستان کا وجود میں آنا چند سال کی جدوجد کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ایک طویل جدوجہد، بے مثل تحریک اور لازوال قربانیوں کا ثمر ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ آزادیٔ پاکستان جیسی تحریک کہیں نہیں چلی۔ علامہ اقبال، قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خاں جسے لیڈر اس آزادیٔ پاکستان کی تحریک کی رہنمائی اور قیادت نہ کر رہے ہوتے تو شاید ہم اس آزاد ملک میں نہ ہوتے۔ ’’آزادی‘‘ ایک بہترین تصور ہے۔ جو محکوم ہیں یا محکوم ہوتے ہیں اُن سے پوچھئے آزادی کیا ہوتی ہے۔ کشمیر میں گزشتہ 30 برسوں سے بھارتی تسلط سے آزادی کے لیے ایک طویل جنگ لڑی جا رہی ہے۔ تحریک آزادیٔ پاکستان کے بعد یہ بھی ایک بڑی تحریک ہے۔ جسے ایک دن ضرور اپنے منطقی انجام تک پہنچنا ہے۔ ایسی تحریکوں میں لوگوں کو مارا تو جاسکتا ہے لیکن اُن کے جذبوں کو کبھی نہیں مارا جاسکتا۔
14 اگست 1947ء میں آزادی کے بعد ہم ایک نئے دور میں داخل ہوئے۔ بہت سے نشیب و فراز آئے۔ جمہوری دور بھی رہے اور فوجی حکومتیں بھی۔ سیاست نے بھی کئی رنگ بدلے اور وہ کہیں بھی جمہور پر غالب نظر نہ آئی۔ ہم نے مفلسی بھی دیکھی اور تنگ معاشی حالات بھی۔ جمہوریت کا پاکستان میں یہ مسلسل تیسرا سفر ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے دو جمہوری دور گزرے اور اب ہم تحریک انصاف کی صورت میں جمہوریت کے ایک نئے سفر میں داخل ہو رہے ہیں۔ عمران خاں نے وعدے تو بہت سے کئے ہیں۔ معاشی اور سماجی انصاف کی بات کی ہے۔ نئے پاکستان میں پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریوں کی نوید سنائی ہے۔ خارجہ پالیسی کے بھی کچھ ابہام دور کئے ہیں۔
دیکھتے ہیں اس بیسویں صدی میں جس نئے پاکستان کا سفر شروع ہونے جا رہا ہے۔ وہ کب یہاں کے باسیوں کے لیے خوشی و مسرت کا پیغام لے کر آتا ہے۔ کب یہ امید جاگتی ہے کہ ہم سب اس نئے پاکستان میں جس کی امید عمران خاں نے دلائی ہے۔ امن و سکون سے رہ سکیں گے اور ہماری امیدوں کے سب چراغ روشن ہوں گے اور ہم حقیقی معنوں میں 70 سال بعد ہی سہی لیکن ایک ایسا پاکستان دیکھ سکیں گے جس کا خواب علامہ اقبال اور قائداعظم نے دیکھا تھا۔ کیا وہ گھڑی آگئی ہے۔ ہمیں تحریک انصاف کی حکومت آ جانے کے بعد اِسی برس اس کا اندازہ ہو جائے گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024