زندگی میں مشکلات اُنہیں کے آڑے آتی ہیں جو باہمت اور مقصدِ حیات پر قائم رہتے ہیں جو کسی طوفاں ،آندھی کا سامنا کرنے سے گھبراتے نہیں ،بلکہ اپنے قدم پہلے سے زیادہ مضبوط کر لیتے ہیں ۔منزل کامیابی ہمیشہ ایسے ہی پُر عزم لوگوں کے قدم چومتی ہے جنہیں اپنی منزل کوپانے اپنے خوابوں کے شرمندہ تعبیر ہونے پر پورا یقین ہو تا ہے ۔اور یہ یقین ہی ہر کام کے پورا ہونے کی بنیاد ہوتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں نہ
جو یقیں کی راہ پہ چل پڑے اُنہیں منزلوں نے پناہ دی
جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پہ بہک گئے
ہر وہ انسان چاہے کسی بھی شعبے، پیشے سے تعلق رکھتا ہو جس نے پہاڑوں کی چوٹویوں کو سرکیا ہے اُس نے اپنے زندگی میں آنے والی ہر مشکل اور راستے میں آنے والے ہر پتھر کو چوم کر خراشیں قبول کی ہیں ۔ کامیابی کی بلندیوں کو چھونے کے لیے بہت سی ناکامیوں اور الجھنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ٹھوکروں کی تمام سرحدیں پار کرنی پڑتی ہیں ۔ بہت سے لوگ منزل کے اکثر بہت قریب تر ہو کر ہار مان جاتے ہیں اُنہیں لگتا ہے اُنہوں نے اتنی محنت بے کار کی ۔شاید اُنکے حصے میں ناکامی کے سوا کچھ نہیں ، ایسا نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے یقین کی طاقت کو کمزور کر دیتے ہیں ، ایمان ڈگمگا جاتا ہے ۔ جب کہ وہ بھول جاتے ہیں کہ جتنی بڑی منزل اُتنی بڑی آزمائش اور قربانیاں ۔ خدا بندے کے جنون اور جذبے کو دیکھ کر اُسکی آزمائشیں اسلیے بڑھا دیتا ہے کیونکہ وہ صرف اُسکا صبر، اُسکا ضبط اور اسکا یقین آزمانا چاہتا ہے ،اور ہم نادان اکژ اپنے کم فہمی کی بدولت یہ سمجھتے ہیں کہ شاید خدا ہی نہیں چاہتا۔ ایسا نہیں ہے ،جبکہ خدا نے اپنے کلام میں خود فرمایا ہے کہ ـ "انسان کے لیے وہ ہی سب کچھ ہے جس کے لیے اُس نے کوشش کی ہے ۔ـ"پھر کیسے وہ انسان کو اُسکی محنت اور کاوشوں کا صلہ نہیں دے گا۔کچھ رکاوٹیں انسان کو بہت کچھ سکھانے ، مضبوط کرنے کے لیے آتی ہیں ، یقین کی طاقت کو پختہ کرنے آتی ہیں اور ہر کام میں اللہ کی مصلحت ہوتی ہے ۔ ساری کہانی اور کھیل یقین کا ہوتاہے ۔ ہماری زندگی میں کچھ بھی پانے کھونے کا انحصار ہمارے یقین پر ہے ۔ کبھی ہار نہیں ماننی چاہیے ،چاہے کتنے ہی پیچ کھانے پڑیں عزم ٹوٹنے نہیں چاہیے ۔بقول آتش ؔ :
تھکیں جو پائوں تو چل سر کے بل آتشؔ
گلِ مراد منزل میں خارِ راہ میں ہے
انسان کی کامیابی کا حصار تو وہیں سے شروع ہو جا تا ہے جہاں وہ درد کو سہنے اور کامیابی تک سہنے کا فیصلہ کر لیتا ہے ۔آگے بڑھنے کے لیے کچھ درکار نہیں ہوتا بس اٹل فیصلہ کرنا ہو تاہے اور یقین کامل رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے ، اور گانٹھ باندھ لیتے ہیں کہ جب تک منزل نہ ملی نہ ہار مانیں گے اور نہ ہی پیچھے ہٹیں گے اور اپنی جیت کو اپنی تاریخ بنا کر ہی دم لیں گے ۔جب یہ حوصلہ انسان میں بیدار ہو جائے تو پھر لاکھ طوفان کیوں نہ اُٹھیں کوئی بھی اُسے اُسکے عز م اور حلف سے منہ موڑنے پر مجبور نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ خود نہ چاہے۔ ایک عمدہ انسان کو میں ایک عمدہ قلم سے تشبیہ دیتی ہوں اسلیے نہیں کہ یہ اچھا لکھتا ہے بلکہ اس لیے کہ یہ بہتری کی خاطر بار بار تراشے جانے کے عمل سے نہیں گھبراتا۔ مشکلات میں پھنسے انسان کو ہمیشہ ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہیے جب یہ کائنات مستقل نہیں تو یہاں کچھ بھی مستقل نہیں اگر درد تکلیفیں ہیں تو وہ وقتی ہیں ، عارضی اور مختصر وقت کے لیے ۔ مستقل یہاں آپکا یقین، آپکا کردار رہتا ہے ۔ ہمت شدت سے اپنی صلاحیتوں پر یقین کا نام ہوتا ہے اوراپنی منزل کی تصویر کشی کرنے کے لئے انسان کو یقین جیسے مضبوط قلم کے علاوہ اور کسی چیز کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ جیسا کہ ایک مصنف ہے اگر اُسے اپنے قلم کی طاقت پر یقین نہیں یا اُسے یقین نہیں کہ وہ ایک اچھا قلمکار کبھی بن سکتا ہے تو وہ یقینا کبھی ایک اچھا اور ماہر مصنف نہیں بن سکتا۔ایک سائنسدان جسے خود پر اعتماد نہیں، اپنی صلاحیتوں پر یقین نہیں، وہ کبھی کچھ ایجاد نہیں کر سکتا ۔ اسی طرح ایک تحقیق دان جسے بھروسہ نہیں اپنی قابلیت پر وہ کبھی بھی کچھ دریافت نہیں کر سکتا ۔ یہ یقین کی طاقت ہے جس نے انسان کو ہوا میں اُڑنا سکھایا، بنا ڈوبے پانی کی سطح پر سفر کرنا سکھایا ،یقین کی طاقت ہے جو لوگوں نے چاند پر قدم رکھا اور ترقی کی راہوں پر جو بھی شخص آج گامزن ہے وہ صرف کامل یقین ،خود اعتمادی اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسے کی بدولت ہیں ۔ آ پ کسی بھی کامیاب انسان کی مثال لے لیںاُس نے پہلے پہل ہمیشہ اپنی منزل کو اپنی ذات سے آشنا کروایا ہے اور پھر اُسکے حصول کے لیے جان وار دی ہے ۔ آگے بڑھتے رہنے کی خواہش انسان کی فطر ت میں شامل ہے ۔ اسکی تکمیل کے دو طریقے ہیں ،ایک یہ کہ اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے کسی کو پھلانگ کر آگے نکل جائیں یا خود کو اگلے سے بہتر یا زیادہ قابل سمجھ کر الجھ جائیں جبکہ اسمیں آپکا کوئی فائدہ نہیں ایسے میں انسان بڑا نہیں بن جاتا اور نہ ہی دوسرے سے افضل ،بلکہ اپنا وقار اور کردار گنوا دیتا ہے ۔ اگر آپکو اپنی قابلیت پر واقعی یقین ہے تو آپ کبھی کسی ٹانگ کھینچ کر آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کریں گے ۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بغیر کسی سے الجھے اپنی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرتے ہوئے اور کامل یقین کے ساتھ آگے بڑھنا ہے ۔ یہ طریقہ فرد کے لیے بھی بہتر ہے اور قوموں کے لیے بھی۔ دنیا کے اگر کامیاب لوگوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ انہوں نے زندگی میں بہت سی مشکلات اور ناکامیوں کا بڑے حوصلے سے سامنا کیا ہے ۔ کامیاب لوگ کبھی ہمت نہیں ہارا کرتے بلکہ وہ اُنہیں چیزوں کامقابلہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جن سے اُنہیں خوف آتا ہے ۔ وہ ناہموار راستوں کو ہموار بنا کر کامیاب منزل کے کامیاب مسافر بن جاتے ہیں ۔
جو شخص خوددار اور دلیر ہوتا ہے اپنے معاملات اور فیصلوں میں، اپنے اعمال میں پکا ،گفتار اور کردار میں یکساں اورمستقل مزاج ہو تا ہے تو زمانہ خود اسکے مزاج کے مطابق چلتا ہے ۔ بس انسان کو کبھی کسی بھی معاملات میں ہار نہیں ماننی چاہیے کیونکہ زندگی نام ہی جدوجہد کا ہے اور اس میں کامیاب وہ ہی ہوتا ہے جو اپنی منزل کو اپنی ذات سے فتح کر لیتا ہے ۔ کیونکہـ" کامیابی کبھی مستقل نہیں ہوتی اور ناکامی کبھی آخری نہیں ہوتی اسلیے کبھی ہار مت مانو اور تب تک نہیں مانو جب تک آپکی جیت آپکی تاریخ نہ بن جائے ۔"